اہل ِ کراچی! تم نے حق ادا کردیا:::: محمد جاوید شیخ -


کتنے قابل ِ قدر جذبات تھے!!۔۔ اپنے ماتھے پر ’’لبیک یا اقصیٰ‘‘ کی پٹیاں باندھے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، اور یہ چمک مسلمانوں کے روشن اور تاب ناک مستقبل کی نوید سنا رہی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں عورتیں اور بچیاں تھیں جن کے احساسات ان کے تحرک سے عیاں ہورہے تھے اور یقینا اس وقت وہ ان صحابیات ؓ کی مانند تھیں جو دورِ نبوی میں غزوات میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظرآتیں۔ بزرگوں کی بڑی تعداد تھی جو پیرانہ سالی کے باوجود اس عظیم جدوجہد کا حصہ بننے اور حتی الوسع اپنا حصہ ملانے کی کوشش کررہے تھے دراصل وہ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کے جاں نشین تھے کہ جنہیں ان کی پیرانہ سالی راہِ خدا میں کوشاں رہنے سے عاجزنہ کرسکی۔ نوجوانوں کے فلک شگاف نعرے ان کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔

 محمد جاوید شیخ -


 

 

 ’’لبیک یا غزہ‘‘… ’’لبیک یا اقصیٰ‘‘… ’’زندہ باد، زندہ باد فلسطین زندہ باد‘‘… ’’مردہ باد مردہ باد، اسرائیل مردہ باد‘‘…
درحقیقت وہ اسرائیل اوران کے آلہ کاروں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ:

اے دشمنِ دیں تونے، کس قوم کو للکارا

لے ہم بھی ہیں صف آراء، لے ہم بھی ہیں صف آراء
جماعت اسلامی کراچی کے تحت ہونے والے عظیم الشان فلسطین مارچ نے ایک تاریخ رقم کردی۔ لاکھوں لوگ اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے صدائے حق بلند کرنے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے مارچ میں شریک ہوئے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی عالمِ اسلام پر کوئی مصیبت کی گھڑی آئی، اہلِ کراچی میدانِ عمل میں نظرآئے۔ اس سے قبل اہلِ کشمیر کی آواز بنے، برما کے مسلمانوں کے زخموں کا پھایا بنے، عراق وافغانستان میں امریکی درندگی کے خلاف ’’گو امریکا گو‘‘ کی تحریک چلاتے نظرآئے، ناموس ِ رسالت کے معاملے پر اہلِ کراچی نے تاریخ رقم کی۔ یہ اہلِ کراچی کی اپنے دین سے وابستگی، اپنے رسولؐ سے محبت اور اپنے خالق سے وفاداری کا اظہار ہے۔ گویا وہ یہ کہتے ہوئے میدان میں نکل آتے ہیں:
ہم دینِ محمدؐ کے وفادار سپاہی

اللہ کے انصار و مددگار سپاہی
اسلامی کی عظمت کے نگہدار سپاہی
باطل کی خدائی کو گوارا نہ کریں گے

مرجائیں گے ایمان کا سودانہ کریں گے
رب نے اہلِ کراچی کے دلوں میں ایمان کی شمع کو جلائے رکھا ہے۔ یہاں دینی فکرو خیال کا غلبہ ہے۔ یہاں خیر کے جذبات غالب ہیں۔ اہلِ کراچی غم خوار بنتے ہیں، ہمدردی کرتے ہیں، دکھوں کا مداوا کرتے ہیں، ہر ایک سے اُنسیت رکھتے ہیں، رمضان ہو تو شاہراہوں پر افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔ سخت دھوپ اور گرمی کی شدت ہو تو مسافرو راہ گزر کی پیاس بجھانے کے لیے فکر مند نظرآتے ہیں۔ یوں لوگوں کی مددو نصرت کے لیے شاہراؤں پر کھڑے رہنا دراصل رب کی نظر میں ’’شاہراہ عافیت‘‘ پر قیام کی مانند ہے۔ ایسا قیام پھر قیام اللیل کی رحمتوں اور برکتوں کا موجب ہے۔ رب کی خوشنودی کا باعث ہے۔ سرورِ کونینؐ کا مستحق ٹھیرانے والاہے۔
یہاں کے لوگوں کے دل منبرو محراب اور گنبدو مینار کی صداؤں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ کراچی ملک وملت کی امید ہے۔ اس کا کردار پوری امت ِ مسلمہ کے لیے بالعموم اور پاکستان کے لیے بالخصوص حوصلہ بخش ہے۔ یقینا یہ ساری مثبت سرگرمیاں قابلِ بیان بھی ہیں اورلائقِ تحسین وستایش بھی۔ فلسطین کے مسئلے پر اہلِ کراچی کا کردار قابل ِ تقلید ہے۔ درحقیقت یہ اس بات کا اظہار ہے:

ہم نے رسمِ محبت کو زندہ کیا
زخمِ دل جیت کر نقد جاں ہار کر
ہم سے بزمِ شہادت کو رونق ملی
جانے کتنی تمناؤں کو مار کر
تیرنا چھوڑ دے، ڈوبنا سیکھ جا
دل کوحبِ نبیؐ کا گرفتار کر

 



 


Comments