قوم ثمود اور حضرت صالح علیہ السلام کا قصہ


قوم ثمود اور حضرت صالح علیہ السلام کا قصہ 
 

صالح علیہ السلام ایک نبی کا نام ہے جن کا قرآن مجید اور بائبل کے عہدنامہ قدیم میں ذکر آیا ہے۔ یہ قومِ ثمود کی طرف مبعوث کیے گئے۔
اپ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل میں سے ہیں اپ کا سلسلۂ نسب کچھ یوں ہے
صالح بن عبیر بن سیّاف بن ماشیح بن عبید بن خاضر بن ثمود بن عرم بن سام بن نوح ہے۔

زمانہ اور محل وقوع:

آج سے کم سے کم چار ہزار سال پہلے حجاز مقدس اور تبوک کے درمیان حجر نامی جگہ میں ایک قوم قوم ثمودآباد تھی۔حجر کا نام قرآن کریم سورۃ الحجر میں آتا ہے۔ یہ جگہ آج کل مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے ۔ اس قوم نے بہت ترقی کی۔ ان کی ترقی کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ پہاڑوں میں گھر بنا کر رہتے تھے جس کی وجہ سے دشمن کبھی ان سے جیت نہ پاتے۔یہ شہر مدینہ منورہ سے شمال مغرب میں 380 کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے ۔

مذہب:


صالح علیہ السلام , والد عبیر بن سیّاف ,قبر مکہ مکرمہ,, وجہ وفات طبعی, علاقۂ بعثت مدائن صالح,شمار 6 (چھٹے)آسمانی کتابوں میں ذکر سلح (بائبل)
پیشرو نبی ہود علیہ السلام,جانشین نبی ابراہیم علیہ السلام

واقعہ
آج سے کم سے کم چار ہزار سال پہلے حجاز مقدس اور تبوک کے درمیان حجر نامی جگہ میں ایک قوم قوم ثمود آباد تھی یہ جگہ اج کل مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک پہاڑی علاقۂ ہے۔ اس قوم نے بہت ترقی کی ان کی ترقی کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ پہاڑوں میں گھر بنا کر رہتے تھے جس کی وجہ سے دشمن کبھی ان سے جیت نہ پاتے۔

ناقۃ اللہ(اللہ کی اونٹنی )



ناقۃ اللہ کا معنی ہے اللہ کی اونٹنی یہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو کہا گیا۔ اس کا ذکر قرآن پاک کی سورۃ ہود کی آیت 64 میں کیا گیا ہے۔ ناقۃُ اللہ کی اضافت سے مرادشرف وعزت ہے۔ جیسا کہ مسجد کو " بیت اللہ " کہا جاتا ہے کہ وہ اونٹنی بھی معجزہ و نشانی کے طور پر مقرر کی گئی تھی۔ تفسیری روایات میں ہے کہ وہ سب کے سامنے ایک پہاڑی سے برآمد ہوئی تھی۔ (جامع البیان وغیرہ)۔ اور اسی بنا پر اس کو "ناقۃ اللہ" اللہ کی اونٹنی " کہا گیا۔ کیونکہ اس کی پیدائش عام معروف طریقے پر نہیں ہوئی۔ اسی لیے وہ اللہ کی نشانی قرار پائی۔ (المراغی، المنار المحاسن وغیرہ) - اور علامہ ابن کثیر جیسے بعض بڑے اور ثقہ مفسرین کرام نے اس بارے روایات کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح کی قوم نے آپ سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ فلاں پہاڑی سے دس ماہ کی گابھن اونٹنی نکال دکھائیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح نے ان سے اس کا پختہ عہد لیا کہ اگر اللہ ایسے کر دے تو وہ ضرور ان پر ایمان لے آئیں گے۔ تو جب انہوں نے اس کا پختہ قول و قرار کر لیا تو حضرت صالح نے نماز پڑھ کر اللہ کے حضور دعاء کی۔ تو اس پہاڑی سے دیکھتے ہی دیکھتے دس ماہ کی گابھن اونٹنی نکل آئی جس پر اس قوم کے سردار جندع ابن عمرو اور ان کے ساتھی ایمان لے آئے، دوسرے نہ لائے۔ (ابن کثیر، ابن جریر اور قرطبی وغیرہ)۔[1] قوم ثمود نے صالح علیہ السلام سے کہا کہ اپنی نبوت کی صداقت پر کوئی حسی معجزہ ہمیں دکھلا دو تب ہم تمہاری بات تسلیم کر لیں گے آپ نے پوچھا کیسا معجزہ چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اس پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو پھر وہ ہمارے سامنے بچہ جنے تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی تم اللہ کے رسول ہو اور تم پر ایمان لے آئیں گے۔ سیدنا صالح (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی تو پہاڑ پھٹا جس سے ایک بہت بڑے قد و قامت کی اونٹنی برآمد ہوئی جس نے ان کے سامنے بچہ جنا اس وقت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اس اونٹنی کو آزادانہ چلنے پھرنے دو کیونکہ یہ تمہارا مطلوبہ معجزہ اور اللہ کی نشانی ہے جہاں سے چاہے چرتی پھرے اور جہاں سے چاہے پانی پئے اب صورت حال یہ تھی کہ ایک تو اس علاقہ میں پہلے ہی پانی کی قلت تھی دوسرے یہ قد آور اور بہت بڑے ڈیل ڈول کی اونٹنی ایک دن میں اتنا پانی پی جاتی تھی جتنا ان کے سارے جانور پیتے تھے۔ اس لیے سیدنا صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ باری مقرر کرلو اس کنوئیں سے ایک دن تمہارے جانور پانی پیا کریں اور ایک دن یہ اونٹنی (جسے اللہ نے دوسرے مقام پر ناقتہ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی کہا ہے) پانی پیا کرے گی اور ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ کردی کہ اگر تم نے اس اونٹنی سے کوئی برا سلوک کیا تو اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب تم پر ٹوٹ پڑے گا۔



حضرت صالح علیہ السلام

قوم عاد کی تباہی کے بعد دن گزرتے رہے اور لوگ ایک بار پھر ابلیس کے وسوسے میں آکر کفر وشرک میں مبتلا ہوگئے اس طرح ایک بار پھر کفروشرک پھیل گیا۔ ثمود بت پرست تھے ۔ وہ خدائے واحد کے علاوہ بہت سے معبود وں کی پرستش کرتے ۔ حضرت صالح ؑ انہیں سمجھاتے اوردین کی دعوت دیتے ۔لیکن انھوں نے ہر طرح سے عاد کی پیروی کی ۔

قرآن کریم میں تذکرہ:

ارشاد خداوندی ہے:

وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ۘ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ ۭ اِنَّ رَبِّيْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ ( سورۃ ہود )

اور قوم ثمود کے پاس ہم نے ان کے بھائی صالح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اسی نے تم کو زمین سے پیدا کیا، اور اس میں تمہیں آباد کیا۔ لہذا اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، پھر اس کی طرف رجوع کرو۔ یقین رکھو کہ میرا رب ( تم سے) قریب بھی ہے، دعائیں قبول کرنے والا بھی۔

حضرت صالح ؑ نے جب قوم کو یہ عمدہ نصیحت فرمائی تو قوم نے جواب دیا :

قَالُوْا يٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْهٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِيْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ مُرِيْبٍ ( سورۃ ہود )

وہ کہنے لگے : اے صالح ! اس سے پہلے تو تم ہمارے درمیان اس طرح رہے تھے کہ تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں جن (بتوں) کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں کیا تم ہمیں ان کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہو؟ جس بات کی تم دعوت دے رہے ہو، اس کے بارے میں تو ہمیں ایسا شک ہے جس نے ہمیں اضطراب میں ڈال دیا ہے۔

یعنی آپ علیہ السلام نبوت سے پہلے بھی عقل مند اور مہذب تھے باعزت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اپنے معمولات میں لوگ ان سے مشورے لیتے تھے لہذا انہیں ایک خاص مقام حاصل تھا لیکن جب آپ ؑ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کا ساتھ چھوڑدیا ۔حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم سے بہترین نرم ولطف اندوز خطاب کیا اور انہیں خیر کی طرف بلایا ۔

قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَاٰتٰىنِيْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَّنْصُرُنِيْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَيْتُهٗ ۣ فَمَا تَزِيْدُوْنَنِيْ غَيْرَ تَخْسِيْرٍ ( سورہ ہود )

صالح نے کہا : اے میری قوم ! ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے آئی ہوئی ایک روشن ہدایت پر قائم ہوں، اور اس نے مجھے خاص اپنے پاس سے ایک رحمت (یعنی نبوت) عطا فرمائی ہے، پھر بھی اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو کون ہے جو مجھے اللہ ( کی پکڑ) سے بچا لے ؟

لہذا تم (مجھے میرے فرائض سے روک کر) بربادی میں مبتلا کرنے کے سوا مجھے اور کیا دے رہے ہو؟

وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَكُمْ فِي الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُيُوْتًا ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاءَ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ (سورہ اعراف، آیت 74)

حضرت صالح نے اپنی قوم سے فرمایا: اور وہ وقت یا دکرو جب اللہ نے تمہیں قوم عاد کے بعد جانشین بنایا، اور تمہیں زمین پر اس طرح بسایا کہ تم اس کے ہموار علاقوں میں محل بناتے ہو، اور پہاڑوں کو تراش کر گھروں کی شکل دے دیتے ہو۔ لہذا للہ کی نعمتوں پر دھیان دو، اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔
سورۃا لشعراء میں آپ کے مزید خطاب موجود ہیں:
اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا هٰهُنَآ اٰمِنِيْنَ ١٤٦؀ۙ
کیا تمہیں اطمینان کے ساتھ ان ساری نعمتوں میں ہمیشہ رہنے دیا جائے گا جو یہاں موجود ہیں؟
فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ ١٤٧؀ۙ
ان باغوں اور چشموں میں؟
وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيْمٌ ١٤٨؀ۚ

اور ان کھیتوں اور ان نخلستانوں میں جن کے خوشے ایک دوسرے میں پیوست ہیں؟
وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ١٤٩؀ۚ
اور کیا پہاڑوں کو بڑے ناز کے ساتھ تراش کر تم (ہمیشہ) گھر بناتے رہو گے؟
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٥٠؀ۚ
اب اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو۔
وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ ١٥١؀
اور ان حد سے گزرے ہوئے لوگوں کا کہنا مت مانو!
الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ ١٥٢؁
جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، اور اصلاح کا کام نہیں کرتے۔
قوم نے آپ ؑ کو سحر زدہ قرار دیا اور کہاکہ اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی پیش کرو!
مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ښ فَاْتِ بِاٰيَةٍ اِنْ كُنْتَ من الصدقین؁ ( سورۃ الشعراء )
تمہاری حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ تم ہم جیسے ہی ایک انسان ہو۔ لہذا اگر سچے ہو تو کوئی نشانی لے کر آؤ۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں معجزے کے طور پرایک عظیم الشان جسم وخلقت والی اونٹنی عطا فرمائی جو ایک پہاڑ سے سب کے سامنے برآمد ہوئی تھی۔ حضرت صالح ؑ نے قوم سے کہا : یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔ اونٹنی کو اللہ کی طرف منسوب کرنا اس کی شرافت وعظمت اور اس کی نشانی کو بتانے کے لیے تھا ۔ حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا :
وَيٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ 64؀(سورۃ ہود)
اور اے میری قوم ! یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی بن کر آئی ہے۔ لہذا اس کو آزاد چھوڑ دو کہ یہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے، اور اس کو برے ارادے سے چھونا بھی نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں عنقریب آنے والا عذاب آپکڑے۔
یہ اونٹنی معجزہ بھی تھی اور قوم کے لیے ایک آزمائش بھی۔چنانچہ یہ اونٹنی جب پانی پینے آتی تو اس دن سارے کنوئیں کا پانی پی جاتی ہے ۔اور لوگ اپنی حاجت دوسرے دن پوری کرتے ۔
اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَةِ فِتْنَةً لَّهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ(سورۃ القمر، آیت 27)
ہم ان کے پاس ان کی آزمائش کے طور پر اونٹنی بھیج رہے ہیں، اس لیے تم انہیں دیکھتے رہو، اور صبر سے کام لو۔
وَنَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَاۗءَ قِسْمَةٌۢ بَيْنَهُمْ ۚ كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ ( سورۃ القمر، آیت 28)
اور ان کو بتا دو کہ (کنویں کا) پانی ان کے درمیان تقسیم کردیا گیا ہے۔ ہر پانی کا حق دار اپنی باری میں حاضر ہوگا
یہ اونٹنی ان کے لیے امتحان تھی کہ اب بھی ایمان لاتے ہیں یا نہیں؟َ
ایک عرصہ گزرا تو قوم بے زار آگئی ۔قوم کے طالم سرداروں نے اونٹنی کو ذبح کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک رات ظالم سردار قیدار نے اونٹنی کو ذبح کرڈالا۔
سورۃ القمر میں ہے :
فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ 29؀
پھر انہوں نے اپنے آدمی کو بلایا، چنانچہ اس نے ہاتھ بڑھایا، اور (اونٹنی کو) قتل کر ڈالا۔
جب صالح ؑ کو پتا چلا تو انہوں نے اپنی قوم کو تین دن کی مہلت دی اور فرمایا تین دن خوب کھا پی لو۔ مگر ظالم لوگوں نے ہٹ دھرمی کرتے ہوئے خود حضرت صالح کو قتل کرنے کی ٹھان لی۔ان کی قوم میں نو بڑے بدمعاش تھے۔وہ کہنے لگے:
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ 49؀ ( سورۃُ النمل )
انہوں نے ( آپس میں ایک دوسرے سے) کہا : سب ملکر اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں پر رات کے وقت حملہ کریں گے، پھر اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم ان گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہ تھے۔ اور یقین جانو ہم بالکل سچے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 50؀ ( سورۃ النمل)
انہوں نے یہ چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال اس طرح چلی کہ ان کو پتہ بھی نہ لگ سکا۔
انہوں نے ایک چال چلی پھراللہ تعالیٰ نے خفیہ تدبیر کی جس کی انہیں خبر تک نہ ہوئی اور ان کا کیا انجام ہوا ۔
قوم ثمود پر عذاب:
سید آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ ثمود پر عذاب آنے کی علامات اگلی صبح ہی سے شروع ہوگئی یعنی پہلے روز سب کے چہرے زرد پڑگئے ، دوسرے روز سرخ اورتیسرے روزسیاہ ہوگئے جیسے تاریکی چھاجائے ۔ ( روح المعانی جلد 8 ص 145 ، 146 )



ان تین دنوں کے بعد رات کے وقت ایک ہیبت ناک آواز نے ہر شخص کو ہلاک کر ڈالا جسحالت میں وہ تھے اور ان کی بستیوں کو ایسا کرڈالا جیسے وہ کبھی وہاں بسے ہی نہ ہوں ۔ان کے غرور کا انجام آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان ہے ۔
وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ 67 ( سورہ ہود )
اور جن لوگوں نے ظلم کا راستہ اپنایا تھا، ان کو ایک چنگھاڑ نے آپکڑا، جس کے نتیجے میں وہ اپنے گھروں میں اس طرح اوندھے پڑے رہ گئے۔
مسلمانوں کا انجام خیر:
قوم ثمود پر یہ عذاب نازل ہوا اوردوسری طرف حضرت صالحؑ اورایمان لانے والے محفوظ رہے ۔حضرت صالح ؑ نے ہلاک شدگان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ 79؀ ( سورۃ الاعراف )
اس موقع پر صالح ان سے منہ موڑ کر چل دیے، اور کہنے لگے : اے میری قوم ! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور تمہاری خیر خواہی کی، مگر (افسوس کہ) تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے تھے۔
ان کے مکانات ان کی تباہی سے لے کر اب تک موجود ہیں ۔ شام کے راستےمیں تبوک تک قوم ثمود کےآثار پائے جاتے ہیں ۔
بقیہ زندگی:
قوم کی ہلاکت کے بعد وہ فلسطین میں آکر آباد ہوئے جو حجر کے قریب ہے ۔مزارمبارک جزیرہ نمائے سینا کے مشرق کنارے پر وادی سیر میں نبی صالح کے نام سے آج بھی زیارت گاہ خلائق ہے۔

Comments