کراچی میں بارشوں، سیلابی صورتحال سے تنگ رہائشیوں کا احتجاج: ’اس وقت ڈیفینس، کلفٹن کے حالات کسی کچی آبادی سے بہتر نہیں‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقوں ڈیفینس اور کلفٹن سے بارش کے پانی کی نکاسی نہ ہونے اور بجلی کی عدم فراہمی کے خلاف ان علاقوں کے رہائشیوں کی جانب سے کنٹونمٹ بورڈ (سی بی سی) کے دفتر کے باہر پیر کو احتجاج کیا گیا۔
مظاہرین کی بڑی تعداد نے سی بی سی کے خلاف نعرے بازی کی اور سی بی سی کی عمارت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس موقعے پر پولیس کی بھاری نفری سی بی سی دفتر پہنچ گئی۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سی بی سی کے دفتر کے باہر جمع احتجاجی مظاہرین سی ای او کو بلانے اور ان کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم بورڈ کی جانب سے ابھی تک مذاکرات شروع نہیں کیے گئے۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ کلفٹن کنٹونمنٹ کی انتظامیہ سیوریج کے پانی کی نکاسی کے نظام کو بہتر بنائے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں کی فوری مرمت کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر جگہ پانی بھرا ہوا ہے اور گٹروں کا پانی بھی گھروں اور پانی کی ٹینکیوں میں جا رہا ہے۔
مظاہرین انفراسٹکچر کو بہتر بنانے اور ٹیکسز معاف کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
یاد رہے اس احتجاج کی منصوبہ بندی گذشتہ رات سوشل میڈیا پر اس وقت ہوئی جب پانچ دن سے بجلی، گیس، اشیائے خودرونوش اور پینے کے پانی کی کمی کا شکار کئی افراد پیر کے روز سی بی سی اور ڈی ایچ اے کی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کی دعوت دیتے نظر آئے۔
لیکن جیسے ہی زیادہ سے زیادہ افراد نے اس احتجاج میں حصہ لینے کی حامی بھری، سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز نظر آئیں جن میں سی بی سی کے دفتر کے باہر کئی سکیورٹی اہلکار اور گاڑیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔
اس پر کئی صارفین انتظامیہ پر تنقید کرتے یہ پوچھتے نظر آئے کہ جب لوگ بےیارومددگار پڑے حکام کو پکار رہے تھے، اس وقت یہ سکیورٹی اہلکار کیوں نہ دکھائی دیے؟
اس کے باوجود پانچ روز سے بنیادی اشیائے ضرورت کی کمی کا شکار شہری سی بی سی کے دفتر کے باہر پہنچ گئے۔
،تصویر کا ذریعہEPA
تاہم بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر پانی کی موجودگی میں بجلی کی بحالی سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام بارشوں کے گذشتہ سو سالہ ریکارڈ کی روشنی میں 2007 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سنہ 1977 میں 24 گھنٹوں کے دوران 207 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
ڈی ایچ اے کراچی کے اعلامیے کے مطابق حالیہ مون سون بارشوں سے قبل برساتی نالوں سے صفائی بھی کی گئی تھی اور ڈی ایچ اے کے مطابق 207 ملی میٹر کی گنجائش کے برعکس 12 گھنٹوں میں 235 ملی میٹر بارش ہوئی۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے صورتحال کو معمول پر لانے کی مکمل کوشش کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ 1950 میں پاکستان کی مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسران کو رہائشی فراہم کرنے کے لیے ڈفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
ڈی ایچ اے کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق 72 ایکڑ کے قریب اراضی سے اس رہائشی منصوبے کا آغاز کیا گیا جو اس وقت 8797 ایکڑ پر پھیل چکا ہے اور اس کے ساتھ 466 کلومیٹر سڑکوں اور اتنے ہی فاصلے پر نکاسی آب کا نظام بھی بچھایا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
کراچی کے کون کون سے علاقے اب بھی متاثر ہیں؟
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گذشتہ روز ڈیفینس اتھارٹی اور کنٹونمنٹ بورڈز کے حکام سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ڈیفینس سے پانی کی نکاسی کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے مشینری اور سٹاف فراہم کیا گیا تھا جس کے بعد پانی کی نکاسی میں تیزی آئی۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سینٹر مرتضی وہاب اور سینیٹر سعید غنی دھڑا دھڑ ایسی ویڈیوز اور تصاویر ٹویٹ کرتے نظر آئے جن میں وہ اپنی زیرِ نگرانی کئی علاقوں سے پانی نکالنے کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔
اس کے علاوہ کراچی شہر کے ہول سیل مارکیٹ جوڑیا بازار بھی بارشوں سے متاثر ہوئی ہے جہاں ابھی تک کئی فٹ پانی موجود ہے گذشتہ روز وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بازار کا دورہ کیا تھا اور تجاروں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جلد پانی کی نکاسی کی جائے گی۔
دوسری جانب ملیر کے دیہی علاقوں میں متعدد افراد بے گھر ہوگئے ہیں، سکن اور ملیر ندی کے بہاؤ کے باعث کوہی گوٹھ اکمل محلہ، دیھ تھانو، سموں گوٹھ، لاسی گوٹھ سمیت درجن بھر دیہاتوں کے لوگ بے گھر ہوگئے جنھوں نے مقامی سکولوں، مساجد میں پناہ لی ہوئی ہے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان کے لیے تنبو لگائے جارہے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہEPA
سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو جمعرات کو شروع ہونے والی بارشوں کے بعد آج پانچویں روز بھی مکینوں کو ناصرف گھروں کی نچلی منزلوں میں بدستور کئی فٹ تک کھڑے پانی کے نکلنے کا انتظار ہے بلکہ انھیں بجلی، گیس، اشیائے خوردونوش، ادوایات۔۔۔ حتیٰ کہ پینے کا پانی تک میسر نہیں۔
زیرِ آب آنے والے علاقوں میں رہنے والوں کے صرف مکان اور گاڑیاں ہی نہیں ڈوبیں، کئی صارفین کے مطابق ان کے گھروں میں پچھلے 90 سے زائد گھنٹوں سے بجلی نہیں ہے۔۔ یو پی ایس ختم ہو چکے ہیں اور جینریٹروں نے بھی جواب دے دیا ہے اور بجلی ہی نہیں، گیس بھی ناپید ہے۔
بجلی کی بندش سے پیدا ہونے والے مسائل
کئی افراد موم بتیاں اور فون کی فلیش لائٹ سے کام چلاتے نظر آ رہے ہیں لیکن آخر موبائل کی بیٹری کتنی دیر چل سکتی ہے؟ ہر وقت آپ نے گھر میں موم بتیاں کہاں ذخیرہ کر کے رکھی ہوتیں ہیں۔
کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا عملہ زیر آب علاقوں میں بجلی کے بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ ڈفینس اور کلفٹن کے کچھ علاقوں میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تاہم شہر کے 95 فیصد علاقوں میں بجلی بحالی ہوچکی ہے۔
کے الیکٹرک کے مطابق حکام کی جانب سے پانی کی نکاسی میں تیزی آنے کے بعد دو فیڈر نثار شہید اور مسلم کمرشل میں بحالی ہوچکی ہے اس کے علاوہ کلفٹن بلاک 7، اور باتھ آئی لینڈ کے بھی دو فیڈر بحال کیے جا چکے ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ رہائشی علاقوں، بیس منٹ اور سب سٹیشن میں پانی کی موجودگی کے باعث جانی خطرات لاحق ہیں جس کے وجہ سے بخاری کمرشل، اتحاد کمرشل ایریا، خیابان شہباز اور 26 اسٹریٹ کے بعض علاقوں میں بجلی بحال نہیں ہوسکی ہے۔
کے الیکٹرک کے مطابق بجلی کی بحالی کا سارا دارو مدار پانی کی نکاسی سے وابستہ ہے امید ہے کہ 6 سے 12 گھنٹوں میں نکاسی ہوجائے گی جس کے بعد مقامی نقص دور کرکے بجلی بحال کردی جائے گی۔
،تصویر کا ذریعہEPA
جن کے گھروں میں کسی طرح گیس میسر ہے انھیں اشیائے خوردونوش کی کمی کا سامنا ہے۔
اب خود ہی سوچیے اگر آپ کے گھر کی نچلی منزل، آپ کی گلی۔۔۔ حتیٰ کہ پورا علاقے میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہو ایسے میں اول تو آپ باہر نکلیں گے کیسے اور اگر نکل بھی گئے تو کون سٹور کھول کے آپ کی راہ تک رہا ہو گا۔
صرف کھانے پینے کی اشیا کی کمی ہی نہیں، کئی لوگوں کے گھروں میں ایسے بزرگ اور بیمار افراد موجود ہیں جن کے لیے ادوایات کی فراہمی کا کوئی راستہ نہیں۔
جہاں کراچی کے شہری اپنے ہی شہر میں دربدر و خوار اور مہاجر بن کر رہ گئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود کراچی والوں کے اندر کی انسانیت اور ہمدردی کا جذبہ قابلِ ستائش ہے۔
خزرا نے ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارا ڈی ایچ اے ٹو ایک واٹس ایپ گروپ ہے۔ آج صبح میں نے اس گروپ میں بتایا کہ ہمارے ہاں بجلی گیس نہیں ہے اور ہم نہ کھانا بنا سکتے ہیں نا ہی اسے گرم کر سکتے ہیں۔‘
خزرا کہتی ہیں اس کے بعد تین خواتین نے انھیں کھانا بھیجنے کی پیشکش کی اور ایک تو انھیں گرم گرم دال چاول اور مرغی کا سالن بھیجنے میں کامیاب بھی ہو گئیں۔
ایک اور خاتون نے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا کہ فلاں علاقے میں ان کی دوست اپنے گھر پر تنہا ہیں اور انھیں مدد کی اشد ضرورت ہے۔
اگلے دن انھوں نے دوبارہ پوسٹ کرکے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ 50 سے زائد انجان افراد نے انھیں نا جانتے ہوئے اور ایسے سنگین حالات میں بھی انھیں مدد کی پیشکش کی۔۔۔ اور ان میں سے کچھ نے تو گندے اور بجی کی تاروں سے بھرے خطرناک پانی کو عبور کرتے ہوئے ان کی دوست کے گھر جاکر انھیں باقاعدہ مدد فراہم بھی کی۔
ایک اور خاتون حرا نے ٹویٹ کی ’اگر کسی کے گھر میں بجلی، کھانا اور پینے کا صاف پانی نہیں تو برائے مہربانی مجھ سے رابطہ کیجیے۔ میں فلاں علاقے میں رہتی ہوں اور کھانا پکا کر آپ تک پہنچا سکتی ہوں۔‘
رابطے کی بات آئی تو آپ کو بتاتے چلیں، رابطہ بھی وہیں لوگ کر سکیں گے جن کے موبائل میں کچھ بیٹری بچی ہے یا جن کے علاقے میں سگنل آ رہے ہیں۔
حالیہ بارشوں کے بعد سے کئی علاقوں میں موبائل سگنلز بھی غائب ہیں۔۔۔ کئی صارفین پوچھتے نظر آتے ہیں کہ بارش میں لینڈ لائن کی خرابی تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن موبائل سنگلز کو کیا ہو گیا؟
Aug 31, 2020Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
دوسری جانب کراچی میں ڈیفنس کلفٹن سے منتخب پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی شہزاد قریشی کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں وہ لوگوں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ڈی ایچ اے اور سی بی سی کی انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھراتے وزیرِ اعظم اور صدر سے ڈی ایچ اے اور سی بی سی کا آڈٹ کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔
وائرل ویڈیو میں شہزاد قریشی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’بارش کے بعد ڈی ایچ اے ڈوب گیا، نکاسی آب نہیں ہورہی، لوگوں کے گھروں کی نچلی منزلیں پانی سے بھری ہیں، لوگوں کی کروڑوں کی پراپرٹی کو نقصان پہنچا ہے، ڈیفنس اور کلفٹن میں پانی نہیں آرہا، یہاں بجلی بھی غائب ہے، اس صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟‘
ساتھ ہی وہ سوال کرتے ہیں کہ ’کلفٹن اور ڈیفنس کے علاقے میں تو سندھ حکومت اور میئر کراچی کی نہیں چلتی تو پھر اس موجودہ صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟‘
Comments
Post a Comment