سی پیک اور افغانستان


چین نے عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط تر کرنے کے لیے جو چند بڑے منصوبے شروع کیے ہیں اُن میں سب سے بڑا بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو (بی آر آئی) ہے۔ اس منصوبے کا سب سے بڑا جُز چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے۔ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان اور افغانستان کے علاوہ وسط ایشیا بھی غیر معمولی خوشحالی سے ہم کنار ہوگا۔ اس وقت پاکستان اور چین مل کر افغانستان کو سی پیک سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے منصوبوں پر عمل شروع کیا جاچکا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا شروع ہونے کے بعد سی پیک پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ کیونکہ افغانستان وسط ایشیا کے لیے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے۔
سی پیک کے حوالے سے پاکستان میں جو کچھ کیا جارہا ہے اس پر چین کے تحفظات برقرار ہیں۔ چینی قیادت کا ایک بڑا شکوہ یہ ہے کہ سی پیک سے جُڑے منصوبوں کے معاملے میں سُست روی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اس سُست روی اور عدم توجہ سے مایوس ہوکر چینی قیادت نے ۲۰۱۷ء میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ سی پیک کے معاملات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے چند سخت اور جرأت مندانہ فیصلے کرے۔ اس حوالے سے چین کے دباؤ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پاکستان کے انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ کے مطابق سی پیک اتھارٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جنرل کے ہاتھ میں دینے سے یہ گمان اب یقین میں تبدیل ہوگیا ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے معاملات سویلین قیادت کے ہاتھ سے نکل کر فوجی قیادت کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ کو گزشتہ نومبر میں سی پیک اتھارٹی کا سربراہ بنایا گیا۔ ۲۸؍اپریل کو انہیں اطلاعات و نشریات کے لیے وزیر اعظم کا خصوصی معاون بھی مقرر کردیا گیا۔ یوں فوج نے خود کو سی پیک کے حوالے سے فیصلہ کن پوزیشن میں پہنچادیا ہے۔ ایک چینی دانشور کے بقول چینی قیادت خود بھی یہی چاہتی تھی کیونکہ سویلینز کے مقابلے میں فوجی زیادہ اہل و مستعد اور کم بدعنوان ہیں۔
ڈان نے یہ بھی بتایا ہے کہ اسد عمر کو چین کے اصرار پر وفاقی کابینہ میں لایا گیا ہے۔ انہیں گزشتہ نومبر میں دوبارہ وفاقی کابینہ کا حصہ بنایا گیا اور اب انہیں منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت سونپی گئی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے تھمے ہوئے معاملات کو گزشتہ نومبر میں اس وقت نئی زندگی ملی جب گوادر میں ۳۰۰ میگا واٹ کے بجلی گھر کا افتتاح ہوا۔ سی پیک کا نظم و نسق سنبھالنے کے بعد دوسرے مرحلے میں بیشتر منصوبے افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ افغانستان میں علیحدگی پسند عناصر ایک زمانے سے فعال ہیں۔ ان میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نمایاں ہے۔ بلوچستان میں خرابیوں کے حوالے سے پاکستانی قیادت بھارت پر الزام عائد کرتی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق سی پیک کے دوسرے مرحلے میں جو منصوبے شامل ہیں اُن میں کراچی تا پشاور ریلوے لائن بھی شامل ہے جس پر کم و بیش ۹؍ارب ۲۰ کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔ علاوہ ازیں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی، دھابیجی اکنامک زون اور دیگر صنعتی علاقے بھی قائم کیے جائیں گے۔ ان منصوبوں سے بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی اور پاکستان میں صنعتی عمل کو بحال کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملے گی۔
۲۰۱۸ء میں چین اور پاکستان نے مل کر افغانستان کو سی پیک سے جوڑنے کا عمل شروع کیا۔ افغانستان کو سی پیک کے منبع گوادر سے جوڑا جائے گا۔ اس صورت میں افغانستان میں بھی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ کرغزستان کے لیے بھارت کے سابق سفیر پی استوبدان کہتے ہیں کہ افغانستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ تانبے کے علاوہ افغانستان میں لیتھیم اور دیگر دھاتیں بھی بڑی مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ لیتھیم کا استعمال بیٹریز میں ہوتا ہے۔ چین اِسی لیے افغانستان پر زیادہ متوجہ ہے۔

چین کی سرمایہ کاری

افغانستان میں چین نے سرمایہ کاری کی ابتدا بہت پہلے کردی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں چینی سرمایہ کاروں نے اینک کے مقام پر تانبے کی کان میں سرمایہ کاری کی۔ ۲۰۱۱ء میں دریائے آمو میں تیل اور گیس کی تلاش شروع کی گئی۔ سڈنی میں قائم لووی انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق جنوری ۲۰۲۰ء کے تیسرے ہفتے میں کیمیائی کھاد لے کر ایک جہاز گوادر پورٹ پر لنگر انداز ہوا۔ چمن سرحد کے ذریعے کھاد افغانستان پہنچائی گئی۔ یہ انتظام افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت تھا۔
افغان قیادت نے بھی تمام انڈے ایک ٹوکری میں رکھنے کو ترجیح نہیں دی۔ ایک طرف وہ چین سے تعلقات بہتر بنارہی ہے اور دوسری طرف بھارت اور ایران سے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ گزشتہ ماہ ایک بھارتی جہاز ۷۶ ہزار ٹن گندم لے کر ایران کی بندر گاہ چابہار پہنچا۔ خلیج عمان میں واقع اس بندر گاہ کا نظم و نسق بھارت کے ہاتھ میں ہے۔
چین نے افغانستان میں مواصلات کا نظام بہتر بنانے پر بھی توجہ دی ہے۔ نانٹونگ سے مزارِ شریف تک ریل روڈ لنک قائم کیا جارہا ہے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت نے بینچ مارک کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بعد سے امریکا نے افغانستان میں دلچسپی کم کردی۔ اس کے نتیجے میں جو خلا پیدا ہوا ہے اُسے پُر کرنے کے لیے چین آگے بڑھا ہے۔ اُس نے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے پر محنت کی ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔ چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپوریری انٹرنیشنل ریلیشنز میں سینٹر فار ساؤتھ، ساؤتھ ایسٹ ایشیا اوشنک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہُو ششینگ کہتے ہیں کہ امریکا کے انخلا سے پیدا ہونے والا خلا پُر کرنا کسی اور ملک کے بس کی بات نہ تھی۔ بی آر آئی کو کامیابی سے تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ سب کچھ لازم تھا۔ اس خطے میں امن کا برقرار رہنا سی پیک اور دیگر منصوبوں کی کامیاب تکمیل کے لیے ناگزیر ہے۔
چین نے خطے میں بنیادی ڈھانچا زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔ گزشتہ ماہ چین نے ٹیکس کارگن کاؤنٹی میں انتہائی بلندی پر ایئر پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ یہ علاقہ شکسگام وادی کا حصہ ہے جو پاکستان نے ۱۹۶۳ء میں چین کے سپرد کی تھی۔ سنکیانگ سول ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ژاؤ ژیانگ کے حوالے سے چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے بتایا کہ یہاں سے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے لیے فضائی رابطہ آسان ہے۔
“Phased withdrawal of U.S. troops from Afghanistan sharpens focus on CPEC”. (“thehindu.com”. 
May 09, 2020)

Comments