کاغان اور ناران: پاکستان کے دو انتہائی مشہور سیاحتی مقامات


default

پاکستان کے قدرتی حسن کے شاہکار اور بہت متنوع سیاحتی مقامات دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ملک کا شمالی حصہ خاص طور پر پاکستانی اور غیر ملکی سیاحوں کی پسندیدہ منزل ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے شمالی اور مشرقی حصوں کے قدرتی نظارے اپنی جگہ بہت دلکش ہیں۔ اس پکچر گیلری میں سیر کیجیے، پاکستان کے دو مشہور و معروف سیاحتی مقامات کاغان اور ناران کی۔

صوبے خیبر پختونخوا کا قدرتی حسن اور تاریخی ورثہ

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں ہزاروں سال پرانی تہذیب کی باقیات اور آثارقدیمہ کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن ساتھ ہی قدرت نے پاکستان کے اس حصے کو بہت سی وادیوں اور پہاڑوں سے بھی نوازا ہے۔ اس صوبے میں کمراٹ، ناران، کاغان، سیدگئی جھیل، آنسو جھیل، جھیل سیف الملوک، کنڈول جھیل، پائے جھیل، سری جھیل، دریائے پنجکورہ اور کئی دیگر ایسے مقامات ہیں، جن کا حسن دیکھنے والے کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے۔

default

کاغان کے قلب میں دریائے کنہار

وادی کاغان کو اس کا نام کاغان نامی قصبے کی وجہ سے دیا گیا۔ بالاکوٹ سے ناران تک کے سارے راستے میں دریائے کنہار سڑک کے ساتھ ساتھ ہی بہتا چلا جاتا ہے۔ ارد گرد کے حسین جنگلات اور پہاڑ انتہائی دلکش نظارے پیش کرتے ہیں۔ یہ وادی155 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔

default

ناران میں بولی جانے والی زبانیں: پشتو، ہندکو اور اردو

ناران کے زیادہ تر مکین پشتو، اردو اور ہندکو زبانیں بولتے ہیں۔ گھنے جنگلات اور سرسبز چراگاہوں سے بھرا ہوا یہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔ اسلام آباد سے تقریباً سات گھنٹے کی مسافت پر ناران اور کاغان جاتے ہوئے سیاحوں کو بلند و بالا پہاڑوں، وادیوں اور قدرتی چشموں والے بے شمار ایسے لینڈ اسکیپ دیکھنے کو ملتے ہیں، جن کی خوبصورتی دنگ کر دینے والی ہوتی ہے۔

default

ملکہ پربت، وادی کاغان کی بلند ترین چوٹی

ناران اور کاغان کے علاقوں میں سترہ ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی والی متعدد چوٹیاں بھی واقع ہیں۔ ان میں سے مکڑا چوٹی اور ملکہ پربت سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ وادی کاغان کے شمال میں ملکہ پربت سمیت کئی بلند پہاڑی چوٹیوں کا ایک پورا سلسلہ موجود ہے۔ ملکہ پربت یعنی ملکہ پہاڑ کہلانے والی یہ چوٹی وادی کاغان کی بلند ترین چوٹی ہے، جس کی اونچائی 17500 فٹ یا 5334 میٹر بنتی ہے۔

default

کیوائی، پارس، شینو اور دیگر بہت حسین قصبات

ناران اور کاغان کی وادیوں کو ان کے حسین نظاروں، جھیلوں، چشموں، آبشاروں اور گلیشیئرز کے باعث سیاحتی حوالے سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ ان حسین وادیوں کے راستے میں کیوائی، پارس، شینو، جرید اور مہانڈی جیسے بہت سے خوبصورت قصبات آتے ہیں، جن کا حسن دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ یہ مقامات صرف بہت خوبصورت ہی نہیں بلکہ اپنی صاف ستھری آب و ہوا کی وجہ سے انتہائی صحت افزا بھی ہیں۔

default

تھکا دینے والی شہری زندگی سے دور فطرت کی گود میں

پاکستان سمیت دنیا کے سبھی ملکوں کے بہت بڑے بڑے شہروں میں زندگی اکثر بہت تیز رفتار اور تھکا دینے والی ہوتی ہے۔ ایسے میں اعصابی تھکن کے شکار اور فطرت سے قربت کے خواہش مند سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں ان کو جسمانی کے علاوہ روحانی سکون بھی مل سکے۔ اگر منزل ایسی کوئی پہاڑوں میں گھری ہوئی جھیل ہو پھر وہاں کسی تھکن، پریشانی یا اداسی کا کیا کام۔

default

جھیل سیف الملوک کی رومانوی داستان

جھیل سیف الملوک کی وجہ شہرت جتنی اس کی خوبصورتی ہے، اتنی ہی اس سے متعلق رومانوی داستان بھی۔ اس داستان کے مطابق اسی جگہ پر سیف الملوک نامی ایک آدم زاد اور بدیع الجمال نامی ایک پری کی محبت پروان چڑھی تھی۔ اس پیالہ نما جھیل سیف الملوک کا رقبہ پونے تین مربع کلومیٹر کے قریب ہے اور یہ پاکستان کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی ایک سو تیرہ فٹ اور اوسط گہرائی پچاس فٹ بنتی ہے۔

default

حکومتی دعوے اور عملی اقدامات کی کمی

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سیاحت کو فروغ دینے کے بہت سے دعوے کیے تھے، مثلاً پاکستان آنے والے سیاحوں کے لیے ویزے میں آسانیاں اور انہیں ہر طرح کی جدید سہولتوں کی فراہمی۔ پاکستان میں آج بھی کئی بہت خوبصورت سیاحتی مقامات ایسے ہیں، جنہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی نہیں دی جا سکی۔

default

عدم توجہ کا نتیجہ سہولیات کا فقدان

پاکستان کے پاس قدرتی حسن کا اتنا بڑا خزانہ ہے کہ سیاحت کو جدید خطوط پر ترقی دے کر ملک کے لیے بے تحاشا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر سیاحتی شعبہ ملکی معیشت میں اپنی وہ بہت اہم جگہ نہیں بنا سکا، جس کا وہ اہل ہے۔ ایک طرف اگر سرکاری اداروں کی غفلت ہے تو دوسری طرف سیاحوں کے لیے آمد و رفت کی جدید، تیز تر اور محفوظ سہولیات بھی یقینی نہیں بنائی جا سکیں۔

default

ناران براستہ کشمیر جنت نظیر

ناران جاتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی چند بہت ہی حسین وادیوں سے بھی گزر ہوتا ہے۔ یہ راستہ ایبٹ آباد والے راستے کے مقابلے میں مختصر بھی ہے اور کہیں زیادہ دیدہ زیب بھی۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ کشمیر کو تو اس کی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے عرف عام میں زمین پر جنت بھی کہا جاتا ہے۔

default

عوامی اور نجی شعبوں میں اشتراک عمل کی ضرورت

کئی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سیاحتی شعبے کو اقتصادی سطح پر آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ تو ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی اس شعبے کی کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ ماحول دوست بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے عوامی اور نجی شعبوں کے مابین مشترکہ سرمایہ کاری اور اشتراک عمل سے بہت متاثر کن نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

بشکریہ : ڈی ڈبلیو پکچر گیلری


Comments