دھرنے اور دھرنی : کا لم نگار اسد الله غالب

عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے کے سامنے یہ تو ایک دھرنی تھی مگر تھی ایک مذہبی اور جذباتی مسئلے پر۔ چنانچہ اس کے لئے حکومت کو کوئی بھی حکمت عملی انتہائی احتیاط اور تحمل اور انتہائی غورو خوض کے بعد تشکیل دینا چاہئے تھی۔ حکومت نے یہی راستہ اختیار کیا اور کسی بھی جلد بازی سے گریز کیا بلکہ وہ اسباب دور کرنے کی کوشش کی جن کے پس منظر میں یہ دھرنا عمل میں آیا۔دھرنے کا مقام فیض آباد چوک پنڈی تھا جہاں سے مختلف راستوں پر ٹریفک میں روک ٹوک پیدا ہوئی مگر جو اثرات عمران اور قادری کے دھرنے نے مرتب کئے تھے، ان کا دوردور تک شائبہ نہ تھا۔ عمران ا ور قادری کے دھرنے نے ملک کے دارالحکومت کو تین ماہ سے زائد عرصے تک مفلوج کئے رکھا، اس کی وجہ سے ملک کی اعلی ترین بیورو کریسی کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا کیونکہ فیڈرل سیکرٹریٹ کے تمام راستے بند تھے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی متاثر ہو رہی تھی کیونکہ ارکان اسمبلی ا ور سینٹ کی آزادانہ نقل و حرکت ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ معزز جج صاحبان کو کسی عقبی راستے سے سپریم کورٹ تک پہنچنا پڑتا تھا، سفارت خانے کے علاقے کو الگ مشکلات در پیش تھیں۔ دھرنے کے لیڈروں کو ہائی پروفائل میڈیا کوریج مل رہی تھی، ایک دن میں دو تقریریں کریں یا درجنوں تقریریں کریں، ان کا ایک ایک لفظ براہ راست نشر ہو رہا تھا، ا سکے علاوہ دھرنے والوں کو میڈیا میں پبلسٹی کی آزادی تھی اور اس پر اربوں کے اخراجات اٹھ رہے تھے۔
عمران ا ور قادری کے دھرنے کی وجہ سے چین کے وزیر اعظم کو اپنا دورہ پاکستان منسوخ کرنا پڑا ۔ اس دورے کی وجہ سے بجلی کی پیداورا ، مواصلات ا ور سی پیک جیسے عظیم الشان منصوبے بھی تاخیر کا شکار ہو گئے ، اس بنا پر ملکی معیشت کو کھربوں کا ٹیکا لگ گیا۔ اس کے مقابلے میں فیض آباد کے دھرنے نے ایک چوک کو روکنے کے سوا کوئی جرم نہیں کیا تھا، ان کو ٹی وی پر بھی کوریج نہیں مل رہی تھی، ان کے اشتہار بھی میڈیا پر نہیں چل رہے تھے، اس لئے حکومت نے بہتر سمجھا کہ کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ مگر حکومت اکیلی کیا کرتی ، اسے عدلیہ کی طرف سے مسلسل احکامات موصول ہو رہے تھے، ڈیڈ لائنسں دی جا رہی تھیں کہ دھرنا ختم کرایا جائے، عدلیہ کو فیصلوں میں آزادی حاصل ہے مگر اس نوع کے فیصلے یا حکامات عمران ا ور قادری کے طویل تریں اور مہلک تریں دھرنے کے خلاف جاری نہیں کئے گئے۔
حکومت کے بس میں یہ تھا کہ وہ وجوہات ختم کی جائیں جن کی وجہ سے دھرنے کی نوبت آئی، یہ وجہ ایک ا ٓئینی ترمیم تھی جسے بہت جلد درست کر دیا گیا، عوام کے مطالبے پر ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی تاکہ آئینی ترمیم کے ذمے داروں کا تعین کیا جاسکے، یہ رپورٹ اگرچہ منظر عام پر نہیں آئی مگر اپوزیشن کے ایک بل پر وفاقی وزیر قانون نے وضاحت سے بتایا کہ اس آئینی ترمیم کی بنیادی طور پر وہ سب کمیٹی ذمے دار ہے جس نے پہلے پہل اس کی تجویز دی، پھر اگلی ذمے داری ا س کمیٹی پر عائد ہوتی ہے جس نے اسے اتفاق رائے سے منظور کیا ا ور پھر یہ ترمیم سینٹ ا ور قومی اسمبلی دونوں ایوانوں سے منظور ہو گئی، اس و ضاحت کے بعد یہ بحث ختم ہو جانی چاہئے تھی کہ اس ترمیم کی ذمے داری صرف وزیر قانون پر عائد ہوتی ہے اور ان سے سزا کے طور پرا ستعفی لیا جائے، سزا ہی دینا تھی تو پوری پارلیمنٹ سے سے ا ستعفی مانگا جاناچاہئے تھا جس نے مکمل اتفا ق رائے سے ا س آئینی ترمیم کو منظور کیا جس پر دھرنے والوں کو اعتراض لاحق ہوا، یہ اعتراض ملک کے ہر شخص کو لاحق تھا کیونکہ ختم نبوت کا مسئلہ کسی ایک گروہ سے متعلق نہیں، اس کی حساسیت کا شکار ہر پاکستانی مسلمان تھا۔ مگر اس وضاحت کے باوجود عدلیہ کی طرف سے مسلسل احکامات ملتے رہے کہ دھرنے والوں کو اٹھایا جائے، چنانچہ وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ عدلیہ کے احکامات کے تحت ایک آپریشن کیا جا رہا ہے ،اس آپریشن میں پولیس کو کامیابی نہیں مل سکی، دھرنے والے اپنی جگہ پر ڈٹے رہے ا ور مزید نقصان یہ ہوا کہ پورے ملک میں آپریشن کے خلاف رد عمل پیدا ہوا، کراچی میں تو لوگ پہلے ہی سڑکوں پر تھے پھر شہر شہر قصبے قصبے احتجاج پھیل گیا اور پاکستان میں عملی طور پر نظام زندگی مفلوج ہو گیا۔ اس مرحلے پر آرمی چیف نے مداخلت کی اور بیرون ملک سے ایک فون وزیر اعظم کو کر دیا کہ تحمل سے کام لیا جائے، حکومت ایک چوراہے پر کھڑی تھی۔ عدلیہ آپریشن کا حکم دے رہی تھی ا ور سکیورٹی کا ایک ماہر ادارہ تحمل کا راستہ دکھا رہا تھا، حکومت نے آرمی چیف کے فون کی لاج رکھی اور آپریشن روک دیا۔ مگر جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا، پورا ملک دھرنوں کی لپیٹ میں تھا اور تادم تحریر یہی صورت حال ہے، پنجاب میں دو دن کیلئے سکول ، کالج بند کر دیئے گئے ہیں کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ادارے تیسرے چوتھے روز بھی کھل پائیں گے یا نہیں۔ بھٹو کے ستتر کے الیکشن پر بھی دھرنے چلے، تحریک نظام مصطفی کے احتجاج کو عام پولیس کے لئے روکنا مشکل تھا، چنانچہ فوج طلب کی گئی جس نے نوجوانوں پر ایک دن توگولیاں چلائیں، اگلے روز گولی چلانے سے انکار کر دیا،اس پر متعلقہ فوج کے اعلی افسروں کو چارج شیٹ کر دیا گیا ۔ ختم نبوت کے مسئلے پر پچاس کے عشرے میں بھی تحریک چلی اور زوروں کی چلی، اس تحریک پر قابو پانے کے لئے بھی فوج کی ڈیوٹی لگی ا ور جنرل اعظم خاں نے اس آپریشن کی کمان سنبھالی ۔اس میں مولانا مودودی کو مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزاسنا دی گئی اور انہیں کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا،دوست ممالک کی مداخلت پر ان کی رہائی عمل میں آئی، مولانا عبدالستار نیازی نے بھی بھاگ کر جان بچائی ۔ لاہور ہی میں مسجد شہید گنج پر تحریک چلی، اسے بھی دبانے کی ذمے داری جنرل اعظم خاں نے سنبھالی، میں ان کے آپریشن کی تفصیلات میں نہیں جا سکتا ، سب کچھ قومی تاریخ کا حصہ ہے ۔ دھرنوں اور احتجاج کا نیا سلسلہ لال مسجد سے شروع ہوا، حکومت فوج کے پاس تھی،ا سلئے ا س مسئلے پر قابو پانے کے لئے فوج کو استعمال کیا گیا۔ لال مسجد کا قضیہ سوات تک پھیل گیا ، اس پر سوات کو کلیئر کرنے کا فریضہ بھی فوج کے سپرد ہوا۔ فاٹا میں دہشت گرد موجود تھے جو ملک کے اندر تو خودکش دھماکے کر ہی رہے تھے مگر انہوںنے چین کو جا نشانہ بنایا ، چین کے صدر نے پھنکار کر کہا کہ خنجراب کی چوٹیوں پر کانکریٹ کی سربفلک دیوار کھڑی کر دی جائے، اس پر ہمیں ضرب عضب شروع کرنا پڑا، اس اثناء میں اے پی ایس کا سانحہ رونما ہوا جس کی وجہ سے پوری قوم دہشت گردی کے خاتمے پر متفق ہو گئی اور ایک نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا۔ آج حالات اس سے زیادہ نازک ہیں یا کم نازک ہیں، اس کا اندازہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے حکومت اور فوج اور عدلیہ تینوں اداروں کو ضرور ہوگا۔ آج بھی ایک نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے ضروری ہے تاکہ کوئی بھی ایک دوسرے کو نیچا نہ دکھائے بلکہ سارے ایک صفحے پر کھڑے ہو کر موجودہ صورت حال پر قابو پائیں ، اگر عدلیہ سمجھتی ہے کہ مسئلہ آپریشن سے حل ہونا چاہئے تو ا س کے دلائل پر غور کر لیا جائے ا ور اگرا ٓرمی چیف کہتے ہوں کہ تحمل کا مظاہرہ کیا جا ئے تو ان کی منطق کو زیر غور لایا جائے ا ور پھر جو فیصلہ ہو وہ متفقہ ہو، اس پر سبھی دستخط کریں ،ا س کے ساتھ کھڑے ہوں ۔ آج فوج کا یہ رد عمل محل نظر ہے کہ ایک طرف اپوزیشن لیڈر فوج کی طلبی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت نے اگر فوج کو طلب کر ہی لیا ہے تو فوج نے جواب میں وضاحتیں مانگ لی ہیں، فوج سے بہتر کون جانتا ہے کہ حالت جنگ میں ایکشن کی ضرورت ہے، وضاحتوں کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ مگر شاید اس کے لئے فوج کے پاس معقول منطق ہو گی، اس منطق کوقوم کے سامنے آ ٓنا چاہئے کہ آج ملک کا ہر شخص اس دھرنے اورا س کے رد عمل سے شدید طور پر متاثر ہے۔شاعر کہتا ہے یارو یہ ہچر مچر، کہاں تک اپنی سی کرو ،بنے جہاں تک میں اتنا سمجھ پایا تھا کہ نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات ہو گئی ہے ۔ میں اس پر تبصرہ کروں گا مگر اس وقت جب اس ملاقات کی مصدقہ تفصیلات سامنے آئیں گے۔ فوری طور پر میں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پابندی کے خاتمے کی ستائش کرتا ہوں مگر اصل مسئلہ دھرنا ہے، میڈیا پر پابندی ثانوی چیز ہے۔ اس کے لئے دو بڑوںنے کیا فیصلہ کیا۔ آپ کو معلوم ہو تو مجھے ضرور بتایئے اور یہ بھی بتایئے کہ کیا فیصلے حکومت کو کرنے ہیں یا دوسرے اداروںنے اور یہ بھی بتایئے کہ گلی گلی پھنکارنے والے دھرنوں کے جنات کو واپس بوتل میں کیسے بند کیا جا سکے گا، کیا ڈنڈے اور پتھر کھانے والی بے چاری پولیس اس کی اہل ہے۔

Comments