(کے ای ایس سی سے کے الیکٹرک تک(احمد حاطب صدیقی

اخبار میں خبر پڑھی کہ ’کے الیکٹرک‘ کے ہیڈ آفس پر جماعت اسلامی کراچی کے دھرنے میں کے الیکٹرک کے ایک ملازم زمرد خان نے ایک داستان سنائی جو کے ای ایس سی سے کے الیکٹرک بننے کی رُودادِ ظلم و ستم پر مشتمل تھی۔ ایک داستان ہمیں بھی یاد ہے۔ یہ اُس وقت کی داستان ہے جب ہم خود کے ای ایس سی میں ہوا کرتے تھے۔ لیجیے موقع کی مناسبت سے یہ داستان بھی سن لیجیے۔ ایلینڈر روڈ پاورہاؤس کی میٹر ٹسٹنگ لیبارٹری میں گزارے ہوئے دن بڑے دلچسپ اور خوشگوار دن تھے۔ ہم وہاں انرجی میٹرز کی تصحیح و تصدیق و تنقیح کے کام پر مامور تھے۔ یہ انرجی میٹرز وہی ہوتے ہیں جو آپ کے گھر میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کو آپ کے گھر میں نصب کرنے کا واحد مقصد ہمیں تو آج بھی یہی نظر آتا ہے کہ میٹر ریڈر ان کی ریڈنگ لے لے اور بلنگ ڈپارٹمنٹ والے اسے پڑھے بغیر ہی آپ کو بھاری بھرکم بل بھیج کر آپ کو بلبلانے اور بلبلاتے ہوئے بلنگ ڈپارٹمنٹ تک بھاگے چلے آنے پر مجبور کردیں۔ وہاں آکر آپ اپنی اس مجبوری کا کچھ فدیہ ادا کریں اور بل کو ’’بالاقساط‘‘ کروا کے چلے آئیں۔ جب انہیں یہی کرنا ہے تو میٹر ریڈر کو کیا مار آئی ہوئی ہے کہ وہ یہ لایعنی ریڈنگ لینے کے لیے گلی گلی اور مارا مارا پھرے؟ اپنی قلیل سی زندگی کی مہلت میں وہ کوئی اور ’’نفع بخش‘‘ کام کیوں نہ کرے؟ سو، کرہی رہا ہے۔ ہمارے شہر کراچی میں توبہت سے ’’نوگو ایریاز‘‘ ایسے بھی تھے کہ اگر میٹر ریڈر وہاں جاپہنچے تو مارا مارا نہیں پھرتا تھا، جان سے مارا جاتا تھا۔ نتیجہ یہ کہ ایسے علاقوں کا بل اب بھی اُن احمق صارفین سے وصول کیا جاتا ہے جو بل ادا کرنے کو اپنا قانونی، اخلاقی اور دینی فریضہ سمجھے بیٹھے ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُن کا بل بھی میٹر ریڈنگ دیکھ کر نہیں بنایا جاتا۔ ہر ماہ ایک فکس رقم کا بل بھیج دیا جاتا ہے کہ ’ہور بجلی چوپو!‘ مگر خیر ہم تو بات کر رہے ہیں سن ستر کی دہائی کی۔ برقِ رواں کے جو صارفین اپنے انرجی میٹرز کی برق رفتاری کی شکایت درج کراتے تھے، یا میٹر ریڈرز جن میٹرز کو سست رفتاری کا مریض پاتے تھے، وہ تمام میٹرز ہماری لیبارٹری میں پہنچا دیے جاتے تھے۔ یہاں ایک معیاری میٹر سے اُن کے چال چلن کا موازنہ کرنا بڑا دلچسپ کام تھا۔ لوگ بھی بڑے دلچسپ تھے۔ سائنسی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اعلیٰ ذوقِ ادب کے حامل، عمدہ حسِ مزاح رکھنے والے اور بات بات پر قہقہہ آور مگر شستہ اور شائستہ مذاق کرنے والے۔ جی چاہتا ہے کہ ہر شخص کا خاکہ لکھا جائے۔ ہر صبح گیارہ بجے ’’ٹی ٹائم‘‘ ہوجاتا اور خیر آباد کافی ہاؤس میں چائے اور سموسوں پر بہت دلکش اور دلدار نشست ہوا کرتی۔ اس نشست میں شرکت کے لیے تمام شرکا وقت کی مکمل پابندی کیا کرتے۔ وہ بھی جو دفتر پہنچنے کے لیے کبھی وقت کے پابند نہ ہوئے۔ ایک روشن چمکیلی صبح کا ذکر ہے کہ ’’ٹی ٹائم‘‘ میں میٹر ٹسٹنگ لیبارٹری کے احباب پہلی منزل پر واقع اپنے ’’شیشے کے گھر‘‘ سے نیچے اُترے اور اُس طویل صحن سے خراماں خراماں گزرنے لگے جس میں درجنوں پھلواریوں اور سرسبز و شاداب پودوں کی کیاریوں کے ساتھ سجی ہوئی اور زمانۂ قدیم کی بنی ہوئی یہ عجیب و غریب عمارتیں کھڑی تھیں۔ ان عمارتوں میں مختلف ورکشاپس تھیں۔ مکینکل شاپ، الیکٹریکل شاپ، مشین شاپ، مولڈنگ شاپ اور لیتھ شاپ وغیرہ وغیرہ۔ جب ہم اس طویل احاطے کے آخر میں واقع صدر دروازے کے قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مخبوط الحواس سے بزرگ احاطے میں داخل ہورہے ہیں۔ پتلون قمیص میں ملبوس، مگر قمیص پتلون سے باہر۔ سر پر سولا ہیٹ رکھے ہوئے اور کوٹ اپنے بائیں بازو پر دھرے ہوئے۔ پاؤں میں دو پٹی والی اسفنجی ہوائی چپل اور چہرے پر ویسے ہی تاثرات جیسے نئی نسل اور نئے زمانے سے شاکی اور نالاں رہنے والے بزرگوں کے چہرے پر اپنے نالائق اور ناخلف جانشینوں کے لیے ہمہ وقت رہا کرتے ہیں۔ موصوف منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے آرہے تھے۔ اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اور زمین پر نظریں گاڑے ہوئے۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ طول العمری کے سبب اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھنے والا یہ ’’روڈ ماسٹر‘‘ اندر کیسے چلا آیا؟ ابھی کوئی سیکورٹی گارڈ بھاگا بھاگا آئے گا اور بڑے میاں کو باہر کا راستہ دکھائے گا۔ مگر دیکھا کہ یہ خبطی بزرگ چلتے چلتے ایک ’شاپ‘ کے دروازے کے سامنے جاکر زمین پر اُکڑوں بیٹھ گئے اور مختلف چیزیں چننے لگے۔ جو چیزیں وہ چن رہے تھے اُن میں کیلیں تھیں نٹ بولٹ تھے، مختلف سائزوں کے کلپ تھے، چھوٹے چھوٹے ٹی۔آئرن تھے اور متنوع اقسام کے الیکٹرک وائرز۔ ہمیں تجسس ہوا کہ اب دیکھیے ان بڑے صاحب کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور ’’متوقع تماشا‘‘ دیکھنے کو رُک کر کھڑے ہو گئے۔ ہماری توقع کے عین مطابق۔۔۔ بلکہ توقع سے بڑھ کر۔۔۔ تماشا ہوا اور صرف سیکورٹی گارڈز ہی نہیں تقریباً ہر شاپ اور ہر ناپ کے لوگ مختلف سمتوں سے ان کی طرف دوڑ پڑے۔ ہم بھی یہ سوچ کر اُن کی طرف لپکے کہ اب ان کو پکڑ کر ڈانٹ ڈپٹ کی جائے گی۔ ’’سرکاری املاک‘‘ ان سے چھین لی جائیں گی اور انہیں بیک بینی و دوگوش احاطے سے نکال باہرکیا جائے گا۔۔۔ مگر یہ کیا؟ ۔۔۔ دوڑنے والے بے شک دوڑے مگر ہماری چشم حیرت نے ایک عجیب تماشا دیکھا۔ ہر سطح کا عملہ اور افسران اُنہیں جھک جھک کر سلام کر رہے ہیں۔ کچھ ندامت سے ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں اور کچھ اُن کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اس کام سے باز رکھنے کی کوششِ ناکام فرمارہے ہیں۔ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ حتیٰ کہ یہ خبر ’پاور ہاؤس‘ کے سربراہ یعنی چیف انجینئر صاحب تک بھی پہنچ گئی۔ وہ بھی اپنے ٹھنڈے ٹھار دفتر سے نکل کر باقاعدہ بھاگتے ہوئے ان کے پاس آن پہنچے اور شرمندگی سے بولے: ’’ارے ۔۔۔ ارے ۔۔۔ اُستاد آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اُستاد نے سوٹڈ بوٹڈ اور سوفیسٹی کیٹیڈ چیف انجینئر صاحب کی طرف ایک حقارت بھری نگاہ سے دیکھا۔ غصے میں اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور گویا پھٹ پڑے: ’’ارے بابا! یہ حلال کی کمائی ہے ۔۔۔ یہ کارپوریشن ہم نے بڑی محنت سے بنائی ہے ۔۔۔ یہ دولت ہے، دولت! ۔۔۔ جو تم نے مٹی میں ملا دی ہے کم بختو!‘‘ تمام حاضرین و ناظرین کو نیاز مندانہ، تابعدارانہ اور مؤدبانہ نادم ہوتے دیکھا تو ہم نے قریب ہی کھڑے فورمین صاحب سے پوچھا: ’’یہ وی آئی پی بزرگ کون ہیں؟‘‘ اُنہوں نے ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا: ’’تم اُستاد حسن علی کو نہیں جانتے؟‘‘ معلوم ہوا کہ یہ بزرگوں کے بزرگ اور اُستادوں کے اُستاد ہیں۔ کے ای ایس سی کے بڑے سے بڑے اور سینئر سے سینئر انجینئرز کے بھی اُستاد۔ پرانے لوگوں میں سے کوئی ماہر سے ماہر ڈگری ہولڈر انجینئر ایسا نہ ہوگا جس نے اُستاد حسن علی سے عملی تربیت حاصل نہ کی ہو۔ سب کے سب کسی نہ کسی فیلڈ میں ان کے شاگرد ہیں۔ ہمیں یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ ہم نے کہا: ’’مگر یہ خود تو اتنے قابل نظر نہیں آتے‘‘۔ پتا چلا کہ ’’چٹے اَن پڑھ‘‘ ہیں۔ مگر عملی میدان میں ماہر سے ماہر ترین انجینئروں سے زیادہ ماہر ہیں۔ بڑے سے بڑا فالٹ پہلی نظر میں پہچان لیتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل چالیس برس کی مدت ملازمت مکمل کرکے ریٹائر ہوئے ہیں۔ مگر ریٹائر ہونے کے بعد بھی تنخواہ کے لالچ کے بغیر روزانہ ڈیوٹی پر حاضر ہوجاتے تھے۔ انتظامیہ نے ہاتھ پاؤں جوڑ کر انہیں باز رکھا۔ اعزازی ’’سب انجینئر‘‘ کا عہدہ دے کردرخواست کی کہ آپ ہر روز نہ آیا کریں۔ آپ ہمارے ’’کنسلٹنٹ‘‘ رہیں گے۔ جب بھی ہم کسی مشکل میں پڑے آپ سے خود رابطہ کریں گے۔ اپنے عہدِ نوجوانی (بلکہ لڑکپن) میں یہ بھی صارفین کے گھر کے بٹن ’’آن۔آف‘‘ کرنے پر ملازم رکھے گئے تھے۔ مگر محنت مشقت سے ہر کام میں مہارت حاصل کر لی۔ دن کو دن سمجھا نہ رات کو رات جانا۔ چالیس برس کی مدت ملازمت میں اُنہوں نے صرف دو دن ’’آدھی چھٹی‘‘ کی ہے۔ جس روز اُن کا نکاح تھا اُس روز دوپہر کے بعد چھٹی لے کر اپنی بارات میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تھے۔ اور جس روز اُن کی لاڈلی بیٹی لحد کی گود میں سوگئی، اُس روز وہ بعد نمازِ ظہر ہونے والی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کے بعد دفتر آئے۔ اب ہمیں اس بات پر قطعاً تعجب نہیں تھا کہ بڑے بڑے افسران اِن کے ہاتھ کیوں چوم رہے ہیں۔ تعجب تو اس بات پر تھا کہ یہ لوگ ان کے دو پٹی کی اسفنجی ہوائی چپلوں میں پھنسے ہوئے پاؤں کیوں نہیں چومتے؟

Comments