کراچی ٹرانسپورٹ مافیا : شفا ہما۔۔۔ کراچی

شہر کراچی میں سات دنوں میں سات المناک اموات کے باعث ٹرانسپورٹ کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔ بشریٰ زیدی کی المناک موت سے لے کر نجانے کتنے ہی لوگ شہر کراچی میں ٹریفک حادثات کا شکار ہوئے اور کتنی ہی سیاست ان اموات کی آڑ میں کی گئی۔ ایم کیو ایم کا عروج بشریٰ زیدی کی موت کے ردعمل کا نقطہ آغاز تھا۔ اس کی بناء پر شہر میں لسانی خلیج گہری کی گئی اور ایم کیو ایم مہاجر مڈل کلاس کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھری۔ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے لے کر 2013ء تک ایم کیو ایم چار سال کے سوا ہر حکومت میں شامل رہی۔ گورنر، میئر اور صوبائی و وفاقی وزراء کی فوجِ ظفر موج مہاجر مڈل کلاس کی نمائندہ بن کر ہر حکومت میں رہی لیکن اس دور میں شہر کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بجائے حل ہونے کے ابتر ہوتا چلا گیا۔ شہر میں پہلے مرحلے میں سرکلر ریلوے کا خاتمہ کیا گیا، اور اس کے بعد شہر کراچی کی سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی کے ٹی سی کو بند کردیا گیا۔ شہری نمائندے مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے اس شہر کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کو بند کرنے کے جرم میں برابر کے شریک رہے۔
پرویزمشرف کے دور میں ایک بار پھر بلدیاتی نظام حکومت بحال ہوا تو ناظم کراچی نعمت اللہ خان نے شہر کے انفرااسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کی بحالی کا بیڑا اٹھایا۔ ایک طرف کراچی پیکیج سے خطیر رقم حاصل کرکے شہر میں سڑکوں اور فلائی اوورز کا جال بچھایا تو دوسری جانب وفاقی حکومت کی توجہ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے سنگین مسئلے کی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہوئے۔ شہری حکومت نے براہِ راست ایک نئی بس سروس کی داغ بیل ڈالی اور جدید ترین گرین بسیں کراچی کی سڑکوں پر اٹھارہ ماہ کے قلیل عرصے میں رواں دواں ہوگئیں۔ ان بسوں کی امپورٹ اور ڈیوٹی کی معافی کے لیے ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی کوششوں کی بدولت نہ صرف وفاقی حکومت نے امپورٹ کی اجازت دی بلکہ ڈیوٹی بھی معاف کردی، جس کی بدولت شہر کراچی کے باسیوں کو ایک جدید، سہل الحصول اور برق رفتار ٹرانسپورٹ میسر ہوئی۔ اس منصوبے کو مختلف مراحل میں بڑھا کر شہر میں ایک ہزار بسوں کو سڑکوں پر رواں دواں کرنا تھا جوکہ میٹرو بس سروس سے کہیں بڑا اور لاگت میں انتہائی کم وسائل کا منصوبہ تھا۔ نعمت اللہ خان کی ہی توجہ پر سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ بنایا گیا اور اس کو بی او ٹی کی بنیاد پر بحال کرنے کے لیے ’جائیکا‘ نے دلچسپی ظاہر کی۔ نعمت اللہ خان کے دور میں منصوبہ سازی مکمل ہونے کے باوجود صوبائی حکومت (جس میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی شامل تھیں) سرکلر ریلوے کی زمین خالی کروانے میں ناکام رہی، اور یوں ’جائیکا‘ نے چھ سال مسلسل انتظار کے بعد اس منصوبے پر کام کرنے سے معذرت کرلی۔ کراچی کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ 25 یا 30 بسوں سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک مربوط منصوبے کی ضرورت ہے کہ جس میں لوپ روڈز، بسیں، سرکلر ریلوے اور لائٹ ٹرین کے منصوبے شامل ہونے چاہئیں۔ کراچی کا ماس ٹرانزٹ منصوبہ ابھی تک فائلوں میں پڑا سڑ رہا ہے، اس کو دوبارہ نکال کر عمل کے قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام تینوں حکومتوں وفاقی، صوبائی اور شہری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر اخلاصِ نیت کے ساتھ کام کا آغاز کریں۔ اسی طرح اس شہرِ ناپرساں کے عوام، میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے کو اس کی سنگیی کی طرح اٹھائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح اس شہر میں ایک لاش سے لے کر دوسری لاش گرنے کا عمل امن کہلاتا تھا، ٹرانسپورٹ کا یہ مسئلہ بھی خدانخواستہ کسی اور سنگین حادثے کے بعد ہی اٹھایا جائے۔

Comments