انٹرویو سا بق امیر جماعت اسلامی -سید منور حسن بشکریہ روزنامہ دنیا : اقبال خورشید

روزنامہ دنیا میں اقبال خورشید نے سید منور حسن کا خوبصورت انٹرویو کیا ہےانٹرویو پڑھنے کے قانل خاصے کی چہچیز پے کے لیے ہمارا کیا ہوا ایک انٹرویو، جسے بہ ہر حال ون منٹ میں پڑھنا ممک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کہانی کا آغاز 50 کی دہائی سے ہوتا ہے۔ یہ کراچی کا گورنمنٹ کالج ناظم آباد ہے۔ہم نصابی سرگرمیوں میںپیش پیش رہنے والے طلبا میںایک ایسا نوجوان بھی ہے، جو نہ صرف کرکٹ اور بیڈمنٹن کا زبردست کھلاڑی ہے، بلکہ قرا ¿ت،مباحثے اور گائیکی کے مقابلوں میں بھی پہلا انعام حاصل کر چکا ہے۔صلاحیتیں دیکھتے ہوئے جمعیت نے اُسے کالج یونین کے انتخابات میں اپنا امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا، مگرکچھ عرصے بعد اُسے لاابالی اور غیرسنجیدہ قرار دے کر نامزدگی منسوخ کر دی۔نوجوان جمعیت کے اس رویے سے اتنا مایوس ہوا کہ اس نے کالج میں لیفٹ کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈڑیشن (این ایس ایف) بنانے کا عہد کیا، اور پھر یہ کرکے دکھایا۔ یہ اُن صاحب کی کہانی کا ابتدائیہ ہے، جو مستقبل میں جماعت اسلامی کے امیر بننے والے تھے،ملکی سیاست پر ان مٹ نقوش چھوڑنے والے تھے۔ مگر اس سے قبل کہ سید منور حسن کی زندگی کے دیگر گوشوں پر بات ہو، مناسب ہے کہ ہم 50 کی دہائی میں لوٹ چلیں کہ کہانی کا وہ ہی ٹکڑا سب سے اہم ہے۔ اب ہوا یہ کہ ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ این ایس ایف انڈر گراﺅنڈ ہوگئی، اورچپ چاپ” اسٹوڈنٹس سرکل“ کے تحت کام کرنے لگی۔ سید منور حسن اس سرکل کے صدرہوگئے۔اس کے ڈرامیٹک کلب کی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے۔ اسی زمانے میں تنظیم نے فیصلہ کیا کہ جمعیت کے باصلاحیت ارکان کو این ایس ایف کا حصہ بنایا جائے۔ یعنی رائٹ والوں کو لیفٹسٹ بنادیا جائے۔ منور حسن اس مشن پر نکل پڑے۔ مباحثے ہوتے۔ لٹریچر کا تبادلہ کیا جاتا۔انھیں خبر نہیں تھی کہ دوسرا گروپ بھی اسی مشن پر نکلا ہے۔ جس جمعیت نے کچھ عرصے قبل انھیں لاابالی قرار دیا تھا، اب ان کی معترف ہوگئی تھی۔ جمعیت کے ایک رکن آصف صدیقی سے خاصی ملاقات رہتی تھی۔ انھوں نے ایک کتاب ”دعوت اسلامی اور اُس کے مطالبات“ پڑھنے کے لیے دی۔ اس کتاب نے سب تلپٹ کر دیا۔ذہنی اور فکری تبدیلیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سوچ بچار کے لیے نوشہرہ چلے گئے۔ ادھرسترہ بار اِس کتاب کا مطالعہ کیا۔ کراچی واپس آنے کے بعد بائیں بازو سے الگ ہوئے، اور 60ءمیں جمعیت کا حصہ بن گئے۔ آگے جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔انھوں نے اسلامی جمعیت طلبا کی رکنیت سے جماعت اسلامی کی امارت تک کا سفر طے کیا۔اس دوران کتنے ہی اہم موڑ آئے۔ان کی شعلہ بیانی اور دو ٹوک موقف نے مخالفین کوتو زچ کیاہی،حامیوں کے لیے بھی کچھ پریشانیاں پیدا کیں۔ البتہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ٹاک شوز میں غصہ ور معلوم ہونے والے یہ صاحب عام ملاقات میں بڑے ہی شائستہ ثابت ہوتے ہیں۔ طبیعت میں شگفتگی بھی ہے۔ کبھی کہتے ہیں، بھئی یہ آپ کا سوال ہے، یا سوال نامہ۔کبھی وہ واقعہ سناتے ہیں، جب ایک صاحب نے پیر الٰہی بخش کا تعارف کرواتے ہوئے کہہ دیا: ”اِن سے ملیں، یہ ہیں پیر الٰہی بخش کالونی!“ عائشہ منزل کے نزدیک واقع اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں اُن سے ملاقات ہوئی۔60 کی دہائی میں جب مولانا مودودی کی خواہش پر یہ اکیڈمی قائم ہوئی، تو منور صاحب ہی اس کے اولین ریسرچ اسسٹنٹ تھے۔ یہاں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ گرتی صحت کے باوجوداب بھی باقاعدگی سے آتے ہیں۔ یہیں برسوں قبل اُن سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اُس وقت پروفیسر غفور احمد حیات تھے۔ابتداً جس کمرے میںانٹرویو ہوناطے پایا، اس کی میز کتابوں اور فائلوں سے بھری ہوئی تھی۔ کسی نے مشورہ دیا کہ پروفیسر غفور کے کمرے میں بیٹھا جائے۔ منور صاحب نے اتفاق کیا، ہمیں دیکھ کر مسکرائے: ” اچھا ہے، وہاں صفائی کے نمبر بھی مل جائیں گے۔“ اس بار ملے، تو پہلے موجودہ مصروفیات زیر بحث آئیں۔ کہنے لگے، جماعت اسلامی کا کارکن گھر تو نہیں بیٹھ سکتا، اور کارکن بھی وہ، جو ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے۔” صحت نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اسی وجہ سے میں نے اسٹیپ ڈاﺅن کیا تھا۔مجھے پارکنسن (ایک اعصابی مرض) کی بیماری ہوگئی ہے۔یہ یادداشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کمزوری ہوجاتی ہے، نیند بے تحاشہ آتی ہے۔ کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ البتہ جب میں اس بیماری کے دیگر مریضوںکو دیکھتا ہوں، تو خود کو اُن سے بہتر پاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے، چل پھر رہا ہوں۔“ یہاں کچھ دیر ٹھہر کر اُن کے حالات زندگی پر نظر ڈال لی جائے: سید منور حسن 5 اگست 1941 کو قرول باغ، دہلی میں پیدا ہوئے۔فسادات کا زمانہ یاد ہے۔ اُن کے خاندان نے پرانے قلعے میں پناہ لی۔ ادھر بے سروسامانی کی حالت میں ایک ماہ رہے۔ پھربذریعہ ٹرین پاکستان پہنچے۔ جیکب لائنز مسکن بنا۔اُن کی والدہ اصغری بیگم مسلم لیگ کی سرگرم رکن تھیں۔ والد،سید اخلاق حسن شعبہ ¿ تدریس سے وابستہ تھے، جو پاکستان آنے کے بعد سندھ مدرسة الاسلام سے جڑ گئے تھے۔ہجرت کے ہولناک تجربے کی وجہ سے والد کو چپ لگ تھی۔ لٹے پٹے کراچی آئے تھے۔ خاصے مسائل رہے۔ چار برس میں پندرہ مکان تبدیل کیے۔پھرناظم آباد میں اپنا مکان بنایا۔ایک بہن چار بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ گھر کی خواتین سے ہجرت کی کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔ اس تجربے نے شرارتوں سے دور رکھا۔زیادہ پڑھاکو نہیں تھے،مگر امتحانات اچھے نمبروں سے پاس کر لیتے۔گورنمنٹ سیکنڈری اسکول، ناظم آباد سے 56ءمیںمیٹرک، گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے 60ءمیں گریجویشن کیا۔ایک برس لا کالج میں رہے۔ پھرجامعہ کراچی کے شعبہ ¿ عمرانیات پہنچے۔63ءمیں ماسٹرز کیا۔بعد میں اسلامک اسٹڈیز میں بھی ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ یونیورسٹی پہنچنے تک این ایس ایف چھوڑ کر جمعیت کا حصہ بن چکے تھے۔62ءمیں مولانا مودودی سے بھی ملاقات ہوگئی ۔ جامعہ کراچی میں خاصے سرگرم ہے۔یونیورسٹی کے ناظم منتخب ہوئے۔ پھر کراچی کی سطح پر یہ عہدہ سنبھالا۔اِس دوران مشرقی پاکستان کے دورے کیے۔ایوب مخالف تحریکوںمیں حصہ لیا۔”کنونشن لیگ“کے پہلے جلسے کو ناکام بنانے کی ذمے داری اُنھیں ہی سونپی گئی تھی۔ 64ءمیں وہ ملکی سطح پر جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔پہلی گرفتار ی بھی اسی برس ہوئی۔اب وہ ہمیں”اینٹی تاشقند موومنٹ“ میں نظر آتے ہیں۔ 65ءمیں شہر بدری کا تجربہ بھی کر لیا۔ 67ءمیں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ 73ءمیں اپوزیشن جماعتیں ”یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ“(یو ڈی ایف) کی پرچم تلے اکٹھی ہوئیں،جس کے صدر پیرپگارا تھے۔ اُسے منظم کرنے میں منور صاحب کابھی کردار رہا۔ 77ءکے انتخابات میں یہ جماعت ”پاکستان نیشنل الائنس“ میں تبدیل ہوگئی، جس کے ٹکٹ پر سید منور حسن ملیر سے کھڑے ہوئے۔ ریکارڈ ووٹ لیے، مگر الیکشن میں کامیابی اسمبلی کے بجائے جیل لے گئی کہ دھاندلی کے خلاف تحریک شروع ہوگئی تھی۔ کچھ عرصے بعد مارشل لا لگ گیا۔88ءمیں وہ امیر جماعت اسلامی، کراچی مقرر ہوئے۔ 93ءمیں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اپریل 2009 میں امیر جماعت اسلامی کا عہدہ سنبھالا۔مارچ 2014میں سراج الحق صاحب کے منتخب ہونے تک ذمے داریاں نبھائیں۔جماعت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا،جب موجودہ امیر پر ارکان نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب اُن کی پالیسیاں بنیں۔ البتہ جماعت کے عہدے داروں کا موقف ہے کہ وہ اپنی صحت کی وجہ سے پہلے ہی معذرت کر چکے تھے، مگر مجلس شوریٰ کے اصرار پر الیکشن میں حصہ لیا۔ ہم نے کہا، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ آپ کے دور امارت میں جماعت کو نقصان پہنچا۔ بولے،”جماعت اسلامی ایک نظریاتی پارٹی ہے۔ آپ مجھ سے توناراض ہوسکتے ہیں، جماعت اسلامی سے ناراض نہیں ہوسکتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میںنے جماعت کو خراب کر دیا۔ اب جماعت اسلامی اتنی تو گئی گزری نہیں ہے کہ میری کوششوں سے خراب ہوجائے۔بہت سے لوگ، جو اب جماعت کا حصہ نہیں، مگر خیرخواہ ہیں، مجھ سے ملتے ہیں، کھل کر اختلاف کرتے ہیں۔ اور میں اُنھیں یہ حق دیتا ہوں۔“ حالات زندگی کے بعد سیاسی فیصلوں پر بات نکلی: کلیدی عہدوں پر فائز رہے،کئی اہم فیصلے کیے، کیا کسی پر افسوس ہے؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،” فیصلے خلا میں نہیں ہوتے، معروضی حالات کاتجزیہ کرکے فیصلے ہوتے ہیں۔اور تجزیوں میں اختلاف ہوسکتا ہے۔“ اسی تناظر میںجماعت کا ضیاءالحق کی کابینہ میں شرکت کا فیصلہ زیر بحث آیا۔اُن کے مطابق اس کابینہ میں جماعت اسلامی نہیں،’ ’پی این اے“ شریک ہوئی تھی۔ اگرچہ ان سمیت چند ارکان اِس کے خلاف تھے، تاہم مرکزی فیصلے کو تسلیم کیا گیا۔بولے،”ایجنڈا یہ تھا کہ حکومت سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کروایا جائے۔ 78ءمیں الیکشن کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا،تو’ پی این اے‘ حکومت سے باہر آگئی۔“متحدہ مجلس عمل کے قیام کو انھوں نے ہمیشہ مثبت فیصلہ گردانا، مگر جب 2013 کے الیکشن میںمولانا فضل الرحمان کی جانب سے متحدہ مجلس عمل کا نام برتا گیا، تو اسے غیراخلاقی ٹھہرایا۔ 92-93 میں جماعت اسلامی کے ہم نواءگروپس کی جانب سے ”پاکستان اسلامک فرنٹ“ کے قیام کا خیال پیش کیا۔ اِس ضمن میں منور صاحب کا کردار مرکزی رہا۔مقصد جماعت کا منشور تبدیل کیے بغیر ممبر شپ کے مرحلے کو سہل بنانا تھا۔اس کی اٹھان تو خوب تھی، مگر قبل ازوقت انتخابات نے اسے غیرموثر کر دیا۔ہم پوچھاکیے، کیا اس تجربے کو دہرایا جاسکتا ہے؟ کہنے لگے،”اس کا امکان ہے۔ ہماری تیاری اس دائرے میں بھی ہے۔ 93ءمیں دو برس پہلے الیکشن ہوگئے تھے،ہم پوری طرح تیارنہیں تھے۔پھر اس وقت جماعت کے لوگ اس کے عہدے دار بن گئے تھے۔ یہ ہمارا مقصد نہیں تھا۔ہمارا مقصد تویہ تھا کہ زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو آگے بڑھایا جائے، جو جماعت کے منشور سے اتفاق کرتے ہوں۔اور ایسے لوگ اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ “ سراج الحق کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو متحدہ مجلس عمل کے قیام کے اختیارات سونپے کا معاملہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے، متحدہ مجلس عمل سمیت کسی بھی سیاسی اتحاد کی باتیں ابھی قبل از وقت ہیں ۔جب الیکشن قریب آئیں گے، تو گرما گرمی ہوگی، تب اندازہ ہوگا کہ کس نے کتنا ہم ورک کیا ہے۔جب پوچھا کہ کیا سراج الحق صاحب آپ سے مشورے کرتے ہیں، تو جواب اثبات میں دیا۔ کہنے لگے،غیررسمی گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے، پھر مجلس شوریٰ کے اجلاس میں بھی بات ہوتی ہے۔ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح سمت جارہے ہیں۔” خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی حکومت ہے۔ اس دوران غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، غلطیاں بھی ہوئیں، مگر عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنھوں نے ان غلط فہمیوں کو بڑھنے نہیں دیا۔“ پاناما کیس پربھی با ت ہوئی۔ بہ قول ان کے، پاکستانی عدلیہ آج سے پہلے کبھی پامانا کیس جیسی آزمائش سے نہیں گزری۔ ”ہم نے انھیں بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ البتہ عدالت نے بڑی کامیابی سے آگ کو ٹھنڈا کیا، اور لوگ کہنے لگے کہ جو بھی فیصلہ آئے گا،ہمیں قبول ہوگا۔ البتہ مجھے لگتا ہے کہ اِسے من و عن قبول نہیں کیا جائے گا۔ لوگ سڑک پر آنے کی تیاری کریں گے۔ اور یہ فیصلہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔“ زندگی کے دیگر گوشے بھی زیر بحث آئے: وہ دن ذہن میں محفوظ، جب جمشید روڈ سے قائد اعظم کا جنازہ گزرا تھا۔ان کے بہ قول،”مجھے اچھی طرح یاد ہے،ہر شخص کا چہرہ آنسوﺅں سے تر تھا۔“سقوط ڈھاکا سے متعلق موقف ہے کہ مشرقی پاکستان کو علیحدگی کے اندھیروں میں دھکیلاگیا۔ ایوب دور میںوہاںاحساس محرومی بڑھی، پھر جو جماعت انتخابات جیتی، اسے اقتدار دینے کے بجائے فوج کشی کر دی گی۔ 74ءمیں اُن کی شادی ہوئی۔ ان کی بیگم عائشہ منور بھی جماعت کے پلیٹ فورم سے سیاست میں متحرک رہیں۔ خواتین ونگ کو منظم کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔ نو برس جماعت اسلامی کی خواتین ونگ کی سیکریٹری جنرل رہیں۔خدا نے ایک بیٹے، ایک بیٹی سے نوازا۔ منور حسن رسول اﷲ ﷺ کوآئیڈیل شخصیت قرار دیتے ہیں۔ حیات طیبہ پر لکھی جانے والی کتب مطالعے میں رہتی ہیں۔کسی زمانے میں کتابیں”کور ٹو کور“ پڑھا کرتے تھے۔ اب اتنا وقت میسر نہیں۔ اخبارات باقاعدگی سے پڑھتے ہیں، ٹی وی کم دیکھتے ہیں، مگر دیکھتے ضرور ہیں۔شلوار قمیص کو آرام دہ پاتے ہیں۔ کھانے میں پسند ناپسند کا جھنجھٹ نہیں۔ غالب اور اقبال کا کلام مطالعے میں رہتا ہے۔ نثر میں مولانا مودودی کے مداح ہیں۔کبھی اے آر خاتون کے ناول دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے، جن سے دہلی کا تمدن جھلکتا تھا۔اسلامی جمعیت طلبا کا رکن بننا اُن کی زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ مولانا مودودی کی وفات سے کرب ناک یادیں جڑی ہیں۔ بکس آئٹمز ٭ اسلامی دنیا میں قیادت کا شدید بحران ہے امت مسلمہ کے اتحاد کی خواہش تو ظاہر کی جاتی ہے، مگر ہرگزرتے دن کے ساتھ فرقہ ورانہ تقسیم بڑھ رہی ہے، عرب دنیا تقسیم ہوچکی ہے۔ اس موضوع پر ان کی رائے جاننا چاہی، تو کہنے لگے،”عوام الناس بے قصور ہیں۔ انھیں تو میں جس طرف گائیڈ کروں گا، وہ اسی طرف جائیں گے۔ یعنی قصور میرا اور مجھے جیسے لوگوں کا ہے، یعنی قیادت کا ہے۔ مسلم دنیا میں اِس وقت قیادت کا شدید بحران ہے۔اختلافات لسانی ہوں، جغرافیائی یامذہبی، اس کا سبب حکمرانوں کی پالیسیاں ہیں۔“ مستقبل میں اُنھیں بگاڑ میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اسلامی فوج سے متعلق پائے جانے والے ابہام سے شاکی ہیں۔ ٭کل کا میچ کون جیتا؟ کرکٹ میں اُنھیں خاصی دلچسپی ہے۔جب ہم ملے، پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ون ڈے سیریز جاری تھی۔ رات گئے دوسرے ون ڈے کا نتیجہ آیا تھا۔ منور صاحب وہ میچ پورا نہیں دیکھ سکے تھے۔ جب ہم نے بتایا کہ پاکستان74 رنز سے جیت گیا، تو بولے،”ہاں، جتنا دیکھا تھا، اس سے یہی محسوس ہورہا تھا۔“ بابر اعظم کی سنچری کی تعریف کی۔ ہم نے سوچا، موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے پسندیدہ کھلاڑیوں کے بارے میں پوچھ لیں۔ انھوں نے عبدالحفیظ کاردار کا نام لیا، جن کی قیادت میں پہلی بارپاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز گئی تھی۔ اس سیریز کی یادیں ذہن میں محفوظ۔ ”پانچویں ٹیسٹ میں کاردار نے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ ہم یہ میچ جیتیں گے، اور جیت کر دکھایا۔ اسی طرح پہلی دفعہ ٹیم انگلینڈ گئی، تو وہاں پاکستان نے ٹیسٹ جیتا۔ اب تو فکسنگ کا سلسلہ شروع ہوگیاہے، اس میں ایڈمنسٹریشن کا تو قصور ہے، مگر اس کے لیے کھلاڑیوں کی اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے۔ اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔اگر آدمی ایک ڈسپلن سے گزرے، تو اس میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔“ ٭پاکستانی لیفٹ پر ایک بھاری قرض ہے! نظریاتی جدوجہد کے زمانے کی یادیں ذہن میں محفوظ ہیں، جب لیفٹ اور رائٹ ؛ دونوں گروپس میں باکردار اور مطالعے کے شائق لوگ ہوا کرتے تھے۔ دن بھر یونیورسٹی میں جھگڑا رہتا۔ شام میں سب ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے۔ ”جب تک ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نظریاتی کشمکش تھی، باکردار اور مخلص لوگ سامنے آئے۔ یہ زمانہ 50 اور 60 کی دہائی کا ہے۔ اور چھوٹے دائرے میں 70 کی دہائی کا۔گذشتہ چار عشروں میں نظریاتی پارٹیوں میں بہت ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ سوویت یونین ٹوٹا۔ پاکستانی لیفٹ پر یہ بھاری قرض ہے کہ لوگوں کو سوویت یونین ٹوٹنے کے اسباب بتائے۔آخر کمیونسٹ پارٹی نے اپنے خلاف قراردار منظور کر لی، ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی،آخر کیوں؟“ منورصاحب کے مطابق فقط خود کو لبرل کہہ دینا کافی نہیں۔پاکستان کے لبرل طبقات نے اپنے افکار، نظریات اور قیادت سے متعلق واضح موقف پیش نہیں کیا،جس کی وجہ سے ابہام رہا، اورنظریاتی کشمکش جنم نہیں لے سکی۔ ٭کیا ایم کیو ایم میں مائنس ون ہوگیا ہے؟ ملکی حالات زیر بحث آئے، تو کہنے لگے، ” آج سے پہلے ملک پر کبھی اتنا نازک وقت نہیں آیا ۔ کوئی خم ٹھونک کر نہیں کہہ سکتا کہ حالات کہاں جارہے ہیں۔ اب توکراچی میں بیٹھا شخص بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ اصلی ایم کیو ایم کون سی ہے؟یہی معاملہ دیگر جگہوں پر ہے۔ یعنی ملک میں غیریقینی صورتحال ہے۔Political Moves نتیجہ خیز نہیںر ہیں، فقط نعرے بازی ہے۔لیڈر شپ کا معاملہ مکھی پر مکھی مارنا نہیں۔ یہ کہنا تو بڑاآسان ہے کہ آپ نے حالات خراب کیے ۔ قیادت کی ذمے داری تویہ ہے کہ مسائل سے نکلنے کے راستے دکھائے، امید پیدا کرے۔“اگلا سوال ایم کیو ایم ہی سے متعلق تھا۔ پوچھا، کیامائنس ون ہوچکا ہے؟ کہنے لگے،” اس کے لیے دیکھناپڑے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرح اپنی ٹیم اتارتا ہے۔ کس طرح اِن گروپس کو ہینڈل کرتا ہے۔ صولت مرزا کو آپ نے پھانسی دے دی، ٹھیک ہے۔ مگر جن لوگوں نے اس سے یہ کام کروایا تھا، انھیں چھوڑ دیا۔ اس طرح کے اقدامات سے لوگوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اب تک اندازہ نہیں ہوا کہ کن باتوں سے عوام خوش ہوتے ہیں، کن سے ناراض۔“ ٭ آپ بہت سخت گیر ہوگئے تھے! عام خیال ہے کہ امیر جماعت اسلامی بننے کے بعد، بالخصوص آخر کے دنوں میں وہ بہت سخت گیر ہوگئے تھے۔ جب اس بابت سوال کیا، تو ہنسنے لگے۔”بھئی، اس پر تو صرف ہنسا جاسکتا ہے۔میں نے زندگی میں کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔جب کبھی بات کی، صحیح کو صحیح، غلط کو غلط کہا۔سب سے بڑا مسئلہ تو بہ ظاہر وہ تھا، جس پر آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری کی۔دیکھیں، اس معاملے پر کسی نے مجھ سے تو بات کی نہیں ۔ آئی ایس پی آر کو مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی۔ اگر میں نے اتنی بڑی غلطی کی تھی، جو وہ بتا رہے تھے، تب تو اور ضروری ہوجاتا ہے۔“ جب ہم نے پوچھا کہ کیا وہ پاکستانی فوجیوں کو شہید نہیںسمجھتے، تو بولے، ”میرے بیان میں کہیں یہ نہیںتھا ۔ میں نے یہ کہا تھا کہ اہل علم اور علمائے کرام کو فتویٰ دینا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی نے شرارتاً اس بات کو اچھالا۔شاید ناسمجھی کی وجہ سے ایسا ہوگیا۔“

Comments