(مقدمہ انبالہ - ابھی چنگاری باقی تھی1863 ) : بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی)‎ قسط نمبر 24‎


علماء کرام اور مجاہدین آزادی سے ہولناک انتقام کے باوجود انگریز کی کینہ پروری اور بدلے کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو پائی تھی ، آزادی کی جنگ کے شعلے حانلآنکہ بجھ چکے تھے پھر بھی کہیں نہ کہیں خاکستر سے کوئی چنگاری نکلتی اور شعلہ بن جانے کو بیتاب ہوجاتی - اسی طرح کا ایک واقعہ 1863 کے آخر میں جنوبی ہںدوستان کی سرحد کے قریب پیش آیا ( یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے افغانستان میں لگتا تھا لیکن چونکہ سرحدیں اتنی واضح نہیں تھیں ) جب انگریز قابض فوج نے وہاں کی مسلمان آبادی پر اپنا تسلط جمانے اور مجاہدین کی سرکوبی کی غرض سے ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کئے ، انگریز کا سارا غصہ درحقیقت اس لئے تھا کہ ماضی میں ان علاقوں میں مولوی حضرات نے اسلام کی سربلندی کی خاطر علم جہاد بلند کیا تھا - حوالہ تھا سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی تحریک مجاہدین - چناچہ انگریز کی اس کاروائی کا بھرپور جواب بھی دیا گیا - انگریز فوج کا سپہ سالار جنرل چیمبرلین تھا - امبیلا تک تو جنرل اپنی فوج کو نہایت اطمینان تک لے آیا کسی قسم کی قابل ذکر مزاحمت نہیں ہوئی - مگر جب انگریز افواج امبیلے کی خطرناک گھاٹی میں داخل ہوئیں تب اسے شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا- افغانستان میں انگریز کی مداخلت بے جا دیکھ کر مسلمان مجاہدین کا خون جوش مارا اور ان مظلوموں کی مدد اور داد رسی کے لئے مولوی عبدالغفوراخوند زادہ سوات اپنے مریدوں سمیت انگریز کے مقابل آگئے - ادھر افغان عوام بھی انگریز فوج پر پل پڑیں ، اب حالت یہ تھی کہ مجاہدین کی سرکوبی کے لئے جو سپاہ انگریز نے بھیجی تھی اس کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے - ادھر مجا ھدین جو جذبہ جہاد سے سرشار تھے خوب جم کر لڑے ، یہ جنگ کوئی ڈھائی ماہ تک جاری رہی - ہرنئے دن اس جنگ میں تیزی آتی جارہی تھی - انگریز فوج ایک جگہ محصور تھی - پورے پنجاب سے انگریز نے اپنی مدد کے لئے نفری منگوالی تھی معرکہ اتنا شدید تھا کہ جنرل چیمبرلین شدید زخمی حالت میں واپس لوٹنے پر مجبور ہوا - سات ہزار سے زیادہ افراد اس خونی معرکے میں کام آئے - بلا شبہ سید احمد شہید صاحب کے جہاد کے بعد اس معرکے کو سب سے بڑا معرکہ کہا جاسکتا ہے - فرق صرف اتنا تھا کہ سید صاحب نے مرہٹوں اور سکھ سرداروں کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا اور اس جگہ مقابل براہ راست انگریز قابض سرکار تھی - اس واقعے کو انگریز کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتا تھا چناچہ انکوا ئری کروائی گئی کہ معلوم کیا جائے کہ اس جہاد اور مزاحمت کے پیچھے کن لوگوں کا عمل دخل ہے - مخبروں نے کھوج لگا کر بتایا کہ اس جنگ میں ہندوستان میں تھانیسر کا نمبر دار جعفر تھانیسر ملوث ہے جو روپے پیسے سے مجاہدین کو انگریز سرکار کے خلاف جنگ پر اکسا رہا ہے - پھر کیا تھا مولوی جعفر تھانیسری کے خلاف ایک خفیہ پلان ترتیب دیا گیا کہ کسی نہ کسی طرح اس خطرناک مجرم اور آج کی زبان میں " سہولت کار " کو گرفتار کیا جائے - یہاں سے مولوی جعفر تھانیسری کی داستان عزیمت شروع ہوتی ہے - جس کا پورا تذکرہ قارئین کرام " تواریخ عجائب -کالا پانی " میں ملا حظہ کرسکتے ہیں - مولوی جعفر تھانیسری کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر کالا پانی کی سزا ہوئی عرصہ بیس سال انڈمان میں قید و بند کی تکالیف برداشت کیں اور اللہ کے حکم سے دوبارہ وطن آئے - شاید الله نے اس لئے زندہ رکھا تھا کہ وہ وہاں کے مظالم اور مصائب کا احوال دنیا کو بتا سکیں ، وگرنہ جو بھی وہاں گیا زندہ لوٹ کر نہیں آسکا - جعفر تھانیسری صاحب اپنی کتاب میں گرفتاری کا احوال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " جب سپرنٹنڈنٹ پولیس گرفتاری کا وارنٹ لیکر علاقے ( انبالے ) میں آیا تو اس نے مجھے وہاں نہ پاکر شہر میں آفت مچا دی ،سینکڑوں گھروں کی تلاشی ہوئی ،پچاسوں مرد و عورت پکڑے گئے - بوڑھی والدہ ،بھائی محمد سعید جس کی عمر صرف تیرہ سال تھی اس کی بیوی کو قید کرکے سخت ترین اذیت اور سزا دی گئی- دیگر خواتین کا بھی یہی حال تھا ان پر بھی سخت ترین سزائیں ، مارپیٹ اور اذیتیں دی گئیں کہ بیان کرتے ہوئے دل لرزتا اٹھتا اور کانپ کانپ جاتا تھا " جعفر تھانیسری کی کتاب میں غداروں پر نوازشوں کے عنوان سے بھی کچھ انکشافات ملتے ہیں ، مثلا " ہم نے دیکھا کہ اس مقدمے میں ( مجاہدین کے مقدمے انبالہ کا ذکر ) بڑے بڑے صاحب لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے آیین اور قانون کو طاق نسیان کردیا مثلا اشری پرشاد نے اپنے فائدے کے لئے اس مقدمے کو رسی سے سانپ اور رائی سے پہاڑ بنادیا اور ہمیں نپولین اور مہدی سوڈانی جیسا انگریز دشمن ثابت کر کے اپنا مطلب نکالا - چناچہ اس کو ادنیٰ عہدے سے ترقی دے کر ڈپٹی کلکٹر بنا دیا گیا ، زمینیں جاگیریں بھی عطا کی گییں - اسی طرح غزن خان نے اپنے بیٹے کے حوالے سے ایک فرضی قصہ گھر کر انگریز سے دو گاؤں جاگیر کے حاصل کرلئے - 1863 کے اخیر سے دس برس تک ہندوستان کے مسلمانوں پر قیامت برپا رہی - مسلمان خوف کے مارے گھر بار چھوڑ کر عرب ممالک میں ہجرت پر مجبور ہوگئے -خو د غرض خوشامدیوں اور ہمارے دشمنوں نے دل بھر کر اپنے ارمان پورے کئیے -دس برس تک اخباروں میں یہی قصۂ موضوع سخن بنا رہا -برسوں اس دارو گیر کے لئے ایک محکمہ بنا رہا جس کا کام صرف یہ ہوتا کہ جس کو چاہا پکڑ لیا جو چاہے رشوت لی ، اور جس غریب نے رشوت دینے سے انکار کی ایس کے خلاف گواہیاں کھڑی کرکے عمر قید کی سزا کروادی -" مقدمہ انبالہ کا ذکر بھی ضروری ہے جس میں مجاہدین اور علماء کرام پر مقدمہ چلا کر ان سب کو پابند سلاسل کیا گیا اور کالا پانی کی سزا کے لئے بھیجا گیا . اس مقدمے میں مولانا محمد جعفر کے علاوہ پٹنہ کے مولانا یحییٰ علی ،مولانا عبدالرحیم ،حسن بن منگھو ،انبالہ کے شیخ محمد شفیع ، عبدالکریم ، تھانیسر کے حسنی بن محمد بخش ،میاں عبدالغفار ،قاضی محمد جان ،عبدالغفور اور الہی بخش بن کریم بخش انبالے والے شامل تھے - چار ماہ تک یہ مقدمہ چلا ، تمام ملزمان قید میں شدید ترین مظالم بردا شت کرتے رہے ، کیئ ایک کو انفرادی طور پر ایک دوسرے کے خلاف گو ا ہی دینے پر جان بخشی کی پیشکش ہوئی ،مگر کسی ایک نے بھی ایک دوسرے کے خلاف گواہی پر آماد گی پر ہامی نہیں بھری - ہان یہ ضرور ہوا کہ گھر کے لوگوں کو شدید ترین تشدد کنے کے بعد بطور گواہ ملزمان کے خلاف کھڑا کیا گیا - بالآخر مقدمے کا فیصلہ بھی آگیا " سب سے پہلےجعفر تھانیسری کو مخاطب کرکے کہا گیا ک تم بہت عقلمند ذ ہین اور قانون دان ہو ،اپنے شہر کے نمبر دار اور رئیس ہو تم نے اپنی ساری عقلمندی اور قانون دانی کو سرکار کی مخلفت میں خرچ کیا -تمہارے ذریعے سرکار کے دشمنوں کو آدمی اور پیسہ دیا جاتا تھا -تم نے انکار بحث سے کام لیا ، سرکار کی خیر خواہی کا ذ رہ برابر بھی خیال نہیں کیا - لہٰذا تمہیں پھانسی دی جائے گی اور تمام جائیداد ضبط کی جائے گی - تمہاری لاش بھی وارثوں کے حوالے نہیں کی جائے گی بلکہ نہایت ذلت کے ساتھ جیل کے گورستان میں گاڑ دی جائے گی - آخر میں یہ بھی کہا کہ میں تمہیں پھانسی پر لٹکتا دیکھ کر بہت خوش ہوں گا " مولانا لکھتے ہیں کہ سزا سنائے جانے کے بعد ہم تین مرکزی مجرموں کو جیل میں علیحدہ علیحدہ کال کوٹھریوں میں منتقل کردیا گیا - کوٹھری اتنی چھوٹی تھی کہ بمشکل ایک آدمی پیر لمبے کر کے لیٹ سکتا تھا ، کوٹھری کیا تھی جہنم کا ایک نمونہ لگتی تھی - الله کا کرنا یہ ہوا کہ شام میں ہی جیل میں حکم آگیا کہ پھانسی کے ملزمان کو رات میں کھلے آسمان کے نیچے سلایا جائے - جیل کے سپاہیوں نے ہمیں بتایا کہ تینوں ملزمان کے لئے نے ریشمی رومال تیار کردے گئے ہیں جن سے تم لوگوں کو پھانسی دی جائے گی - اگلی صبح باقائدہ منظوری کے لئے پھانسی کی درخوا ست توثیق کے لئے پنجاب کے محکمہ چیف کورٹ بھیجی گئی - اسی دوران ہمارے وکیل بھی چیف کورٹ پہنچ چکے تھے جہاں انھوں نے سزا کے خلاف اپیل کردی - اور یوں ہماری پھانسی کچھ دنوں کے لئے ٹل گئی - پھانسی کا تلنا تھا کہ ہمارا تماشہ بن گیا ، راز انگریز میم اور صاحب حضرات ہم کو جیل میں دیکھنے آتے کہ کون ملزمان ہیں جن کو اس دھوم دھڑکے سے پھانسی پر لٹکانے کا ارادہ کیا گیا ہے - ایک موقع ایسا بھی اے اکہ ہم تین ملزمان رات کو ایک ساتھ بیٹھے تھے ( بقیہ چودہ ملزمان دوسری کوٹھریوں میں تھے ) کہ سپاہیوں میں سے ایک سپاہی آیا اس نے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ لوگ کسی طرح فرارکا ارادہ کریں ، ہم آپ کا بندوبست کردیں گے ، ہمیں غفلت برتنے کے جرم میں تھوڑی بہت سزا ہوگی وہ ہم بھگتنے کو تیار ہیں لیکن آپ لوگوں کی جانیں تو بچ جائیں گے -ہم نے ان کا شکریہ د کیا اور ان کے جذبے کی تعریف کی - ان ہی راتوں میں سے کسی ایک رات الله تعالی نے خواب میں دکھایا کہ ہم کو پھانسی نہیں ہوگی بلکہ ہم کالا پانی منتقل ہو جائیں گے - اس خواب سے بہت اطمینان نصیب ہوا - اور پھر اس خوا ب کے دو ماہ بعد ہی تعبیر بھی مل گئی کہ ہماری سزا میں تخفیف کردی گئی اور ہم تینوں کو کالا پانی کی سزا سنائی گئی - اس کے بعد کمشنر صاحب بذات خود جیل آئے اور ہم سے مخاطب ہوکر کہا کہ تم لوگ موت کو بہت عزیز رکھتے ہو ، لہٰذا ہم تم کو تمہارے پسند کی سزا نہیں دے سکتا . تم کو کالا پانی بھیجے گا تاکہ تم زندہ لاش بن کر زندہ رہو - اس حکم کے ساتھ ہی ہم کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ شامل کر کے ان کی بیرکوں میں بھیج دیا گیا ، مگر ظلم یہ ہوا کہ ہمارے بال داڑھی سب کچھ موندھ کر صاف کردیا گیا - مولانا یحیی کا حال تو یہ تھا کہ چہرے پر ہاتھ پھیرتے اور نیچے گرے ہوئے داڑھی کے بالوں کو ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا تے اور کہتے جاتے کہ " افسوس نہ کر ، تو خدا کی راہ میں پکڑی گئی اور اسی کی راہ میں کاٹی گئی " ایک عجیب و غریب واقعه : مولانا بتاتے ہیں کہ انتہائی حیرت انگیز معاملہ یہ ہوا کہ جو پھانسی کا پھندا ہمیں پھانسی کے لئے بطور خاص تیار کروایا گیا تھا وہ کسی دوسرے انگریز کے گلے میں فٹ ہوا ، اسی دوران ایک انگریز قیدی نے اپنے انگریز ساتھ کو قتل کیا تھا جس کو اس الزام میں موت کی سزا سنائی گئی ، الله کا کرنا یہ ہوا کہ میرے نام کا پھندا انگریز قیدی کے گلے میں ڈالا گیا - سزا میں چونکہ جائیداد کی ضبطی کا حکم بھی تھا ، چناچہ میرے گھر والوں کے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ میری بیوی اور شیر خوار بچی کو ہاتھ سے پکڑ کر گھر سے با ھر نکا ل دیا گیا - دہلی کے اتنے علماء اور اہل کمال شہید ہوئے کہ علامہ حالی نے اس کو ”دہلی مرحوم“ کا نام دے دیاتھا، حالی نے ایک پورا مرثیہ ہی دہلی کا لکھ ڈالا، چنداشعار پیش ہیں
تذکرہ دہلیٔ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
داستاں گل کی خزاں میں نہ سنا اے بلبل
ہنستے ہنستے ہمیں ظالم نہ رلانا ہرگز
ڈھونڈھتا ہے دل شوریدہ بہانے مطرب
دردانگیز غزل کوئی نہ گانا ہرگز
صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز
موجزن دل میں ہیں یاں خون کے دریا اے چشم
دیکھنا ابر سے آنکھیں نہ چرانا ہرگز
لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
ہم کو گر تو نے رلایا تو رلایا اے چرخ
ہم پہ غیروں کو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگز
کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز
شاعری مر چکی اب زندہ نہ ہوگی ہرگز
یاد کر کر کے اسے جی نہ کڑھانا ہرگز
غالبؔ و شیفتہؔ و نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانا ہرگز
مومنؔ و علویؔ و صہبائیؔ و ممنونؔ کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز
کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز
داغؔ‌ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانا ہرگز
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانہ ہرگز
بزم ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز
  (    جاری ہے  )


Comments