ڈرتا ہوں آئینے سے کہ------- نجیب ایوبی


 

کہتے ہیں کہ اگر کسی کو  کتا کاٹ لے ، تو  اس آدمی کی حالت  دن بدن بگڑنے لگتی ہے اور نہ صرف بگڑتی ہے بلکہ  اس کی  دماغی حالت بھی مشکوک ہوجاتی ہے -  ایسے  مریض کو پہلے تو سگ گزیدہ  کہتے  تھے - اس وقت تک ویکسین  ایجاد نہیں ہوئی تھی - خدا   جانے اب کیا  کہتے ہوں گے - سگ گزیدہ  کو پانی سے خوف آتا ہے -  پانی   دیکھ کر سگ گزیدہ اپنا  ذہنی توازن کھو بیٹھتا تھا

 


-  جب  چھوٹے  تھے اس وقت تک تو  کتے کے کا ٹے کا واحد علاج  یہی تھا  کہ  سگ گزیدہ کو  روزانہ  پیٹ  کے بیچوں بیچ  ایک انجکشن لگوانا پڑتا تھا - اور مکمل کورس چودہ دنوں پر محیط  ہوتا، غلطی ، سستی کی  یا  انجکشن کی عدم دستیابی  کی وجہہ  سے اگر ایک بھی دن کا وقفہ آتا  تو دوبارہ سے کورس وہیں سے سٹارٹ ہوتا  جہاں  ناغہ ہوا تھا  -  یعنی  چودہ دن مزید
 اس وقت   کتے سے زیادہ  چودہ انجکشن کا خوف  دماغ پر سوار رہتا -  سگ گزیدگی کے  مریض کے  اعزا ، اقرباء   مریض سے زیادہ  کاٹنے  والے  کتے  کی  نگرانی کرتے  ،  کیوں کہ  مشہور تھا کہ اگر  کتا  کبھی پاگل  ہو جائے  گا  تو   مریض  بھی پاگل ہوسکتا ہے - سگ گزیدہ  کی عیادت  کرنے اور   ملنے والے  جب مریض سے ملتے  تو کچھ اس طرح   گفتگو کرتے 
" کوئی مسلہ  نہیں  دوست ، جہاں  چار  انجکشن لگ گئے ہیں وہاں مزید با رہ  بھی لگ جائیں  گے ،  وقت گزرنے کا پتہ تھوڑی چلتا ہے"
" بھائی  میں ابھی راستے میں دیکھ کرآ رہا ہوں ، کتا  قصائی کی دکان  پر  ٹھیک ٹھاک   لیٹا ہوا تھا - ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
 "ویسے  میں نے اپنے  ماموں کو اس پر نظر رکھنے کو کہہ دیا ہے - جیسے  ہی  کوئی  ایسی ویسی خبر  ملے گی   آپ کو بتا دوں گا - اچھا اب میں چلتا ہوں "       
ویسے آپس کی بات ہے  ذہنی توازن کھونے کے لئے اب  کسی کتے سے کٹوانے  یا بھنبھوڑ وانے  کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہ گئی -  اس مقصد کے لئے  ٹی  وی چینلز   کے ٹاک شوز  اور حکمرانوں ،  سیاستدانوں کے تازہ  ترین بیانات بہت کافی  بلکہ  شافی   اور تیر بہدف نسخے ثابت  ہوۓ ہیں  -
صفورہ گوٹھ کراچی  میں  پچاس ہلاکتوں  کے بعد سندھ حکومت کی  انتہا ئی   قیادت   یعنی  ultimate leader ship "    وزیراعلی  سندھ "  علاقے کے  امن و امان مثالی قرار دیتے ہوۓ  کچھ  یوں فرماتے ہیں " اگر  امن و امان کا کوئی مسلۂ  ہوتا تو  سمندر  پر ہزاروں لوگ  کیوں  نہانے جاتے ؟ بولو  بولو -- گھوڑا رے گھوڑا --- سوچ سمجھ کر بات  کیا کرو ""
آپ نے اندازہ لگایا  کہ امن و امان  جانچنے  کا کتنا  شاندار  پیمانہ  دریافت کیا ہے  ہمارے پیارے  قائم علی شاہ  صاحب  نے -  پیمانوں سے  تو  شاہ  صاحب  کی   دیرینہ محبت اور وارفتگی   کسی سے ڈھکی چھپی  نہیں  ، البتہ   " کپپی " اور "خاش خش  کے ڈوڈوں " والی بات  بلا وجہہ ہی اڑائی گئی  ہے -  رہ گیا سمندر کے پانی میں ہزاروں افراد  کے نہا نے  کا معاملہ  تو  اس میں بھی کوئی  ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ شاہ  صاحب نے  بالکل بجا فرمایا  کہ اگر  نقص امن کا مسلۂ  ہوتا تو لوگ اتنی بری تعداد میں سمندر پر نہانے  کیسے جاتے ؟؟؟
اب کراچی  میں  ہر کوئی سگ گزیدہ تھوڑی ہے  کہ اس کو پانی سے کوئی خوف محسوس  ہو ؟  ویسے بھی   شہر میں "عالی  نسلی کتوں"  کی موومنٹ  پرسخت توجہ دی جارہی  ہے - کوئی بھی"  نسلی ، اصلی "   تنہا گھومتا پھرتا نظر ہی نہیں آتا - ہاں اس پر یاد آیا  کہ  جائے وقوعہ  پر     ان کا کانوائے  پچاس سے زیادہ   لینڈ کروزر   اور قریبا  اتنی ہی  نیلی، خاکی  پروٹوکول  گاڑیوں پر مشتمل تھا -
دس پندرہ منٹ  کی پریس بریفنگ  ، مرنے والوں کے لئے   امدادی چیک کا اعلان اور پھر ٹائیں ٹائیں  فش !
تھر  میں   چار سو سے زیادہ  معصوم بچے  غذا کی قلت سے   مر جائیں -  کوئی مسلۂ  نہیں -  وزیر خوراک  اور لائیو سٹاک "  فرماتے ہیں کہ  غذا کی کوئی قلت نہیں ، گودام  بھرے ہوۓ  ہیں - "  وہ   کون سے گودام کی بات کر رہے تھے   یہ وضاحت طلب  بات ہے -  پھر  بہت شور شرابے  کے بعد  تھر  میں غذا  کے  چند  ٹرک روانہ کئے گئے، چینلز   نے  پریس کانفرنس  لائیو   دکھائی ، فوٹو  سیشن  ہوا --  گندم سے  بھرے ٹرک  روانہ ہوۓ  ،  زیرو پائنٹ  سے آگے نکلتے  ہوۓ  تو بہت سوں نے دیکھا ، مگر نوری آباد  سے الٹے ہاتھ پر مڑ کر کہاں  گئے  ؟ کوئی نہیں جانتا - البتہ   کسی   "پاپا زاری ( صحافی ) نے رپورٹ دی  کہ گندم  کے تھیلوں  میں بالو  ریت  بھری ہوئی  تھی -  فارم ہاؤس   پر   بچا دی گئی  ہے - خیر  بعد  میں یہ بھی  معلوم ہوگیا کہ فارم ہاؤس  کس کی ملکیت  تھا -

ادھر  تھر  میں روزانہ   دودھ  ، پانی  اور غذا  سے محروم  بچے اپنی زند گی  ہا ر رہے  تھے  ، دوسری جانب   موہنجوڈارو   پر  کروڑوں روپے  کا اسٹیج   سجایا  جارہا  تھا ، " سندھ  دھرتی   جی ثقافت، آساں جو  قیمتی اثاثو  آهی "    سندھ  --دھت تیرے کی ثقافت -- ہمارا قیمتی اثاثہ !    اور پھر تین چار دنوں تک   سندھ کی ثقافت  کو  خوب چوما  چا ٹا  گیا - ستاروں  سے سندھ  دھرتی کی مانگ بھری گئی -  سندھ کی عزت  یعنی  اجرک   کی انڈرویئر ، اسکرٹ اور  جھانگئے   ڈریس  ڈیزائنرز سے بنوا ئے گئے اور  سپر ڈوپر  ماڈل  پر چڑھائے  گئے - سب نے سب کچھ دیکھا -  منہ سے کچھ نہ بول پائے - اک بوتل تھی بغل  میں اور ہاتھ  میں تھے جام !  جام پر  لاڑکانہ کے جام  اور  سندھ کے جام  یاد  آجائیں  تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں -  جام صاحب    کس پائے  کے رسیا  تھے  کون نہیں جانتا -  اپنے  دنوں میں  جب ہسپتال میں  زیر علاج  تھے ، ھمارے ایک اخباری دوست  جن کا شعبہ اس وقت کرائم  رپورٹنگ  تھا ،   ان کی عیادت  کے لئے  ہسپتال پہنچے  ، خیر خیریت  سلام علیک  کے بعد   جب رخصت  چاہی  تو جام صاحب نے انتہائی  گلوگیر آواز میں کہا " بابا   جاتے جاتے  ڈانکٹر  کو بولو  کہ   تھوڑی  دیر  کے واسطے   " عورت نرس " کو بھی  بھیج دیا کرو ، میں ابھی مرا  تھوڑی  ہوں "   
جام  صادق  گزر گئے -  دھن کے پکے اور جذبوں میں صادق  تھے - امانت  کا کبھی پاس نہیں رکھا -  ان کی اولاد بھی   بابا  کے پاس  اپنے  " قیمتی اثاثے "  رکھواتے ہوۓ  خوف کھاتے تھے - خوف نہ کھاتے تو  آخر  کیا کرتے  --ورنہ   "  بابا " کھا  جاتے !
جام صاحب   کے دنیا سے کوچ  کرنے سے چند   لمحوں قبل  ہسپتال میں ان کے چنے والوں کی لائین  لگی ہوئی تھی - ہر کوئی  ایک دوسرے سے پہلے  ان کا آٹو گراف  لینے کے چکر میں تھا - کوئی  زمین کی فائل  پر دستخط کروارہا تھا - تو کوئی  پرمٹ  کی پرچی پر  لرزتا ہوا  قلم چلوا رھا تھا-  جام صاحب   نے آخری ہچکی سے پہلے پہلے  سب کو فارغ کردیا  ، عورت نرس کو بھی !
لاہور  کوئی جائے  اور  ٹکسالی محلے میں فضل دین کے پائے  نہ کھائے  یہ کیسے ہوسکتا ہے -  محرم  میں ہمارا بھی اتفاق ہوا - ساتھی  مجبور کرکے  وہاں لے گئے ، پائے  بہت شاندار تھے -  اس کے بعد  محلے کی سیر کا پروگرام بن گیا ، محرم کی وجہہ سے دیگر امور سلطنت ٹکسال  معطل  تھے - چناچہ طے  پایا  کہ محض چہل قدمی کرکے  پائے  ہضم کے جائیں - جو دوستوں کا مشورہ -  چند قدم آگے اونچائی پر چڑھتے ہی ایک  بہت بری حویلی دکھائی دی - پرانے  جاننے والے نے بتایا کہ یہ خلیفہ نزیر  ( سا بق اداکار )  کی حویلی ہے - وہ یہاں کا  خلیفہ کہلاتا تھا - مرنے کے بعد  اب اس کی اولاد   نے روایات کو زندہ رکھا ہوا ہے -  اس سے ملحقہ  ایک مزار  بھی ہے جہاں باقائدہ  عرس منایا جاتا ہے ، خلیفہ جی کا -  اس پر لال پیلے جھنڈے  لگے تھے  اور اگربتیاں بھی جلائی ہوویں  تھیں -  اس سے ذرا اوپر  پتلی سی  سرک تھی  ، کافی رش  تھا - سوگواری  جلوس  نکل رہا تھا - خواتین  اور آدمیوں نے کالے لباس زیب تن کے ہوۓ  تھے - ایک سفید براق  گھوڑا  جس  کی با گیں   ایک خوبصورت نوجوان نے تھام رکھی تھیں -   اس وقت کی  نمبر ایک اداکارہ  اس نوجوان کے ساتھ  احترام کے ساتھ  دوپٹہ  سنبھالتے  گھوڑے کے قریب چلتی جاتی اور کبھی اس پر ہاتھ پھر کر اپنے پورے بدن  سے مس کرتی اور پھر اس نوجوان کو بھی لگاتی --  معلوم ہوا کہ  وہ نوجوان  " جام " صاحب  کی آخری اولاد  تھا - جس نے" بابا " کی  سلطنت ٹھکرا کر   ٹکسالی سلطنت  کو اپنا مسکن  بنا لیا تھا ---
کھیل کی دنیا  اور سیاست  کی دنیا ان میں کوئی بہت زیادہ فرق ہے نہیں - بس انیس بیس ہوگا - کھیل  میں ایکشن - تھرل - ڈرامہ - رومانس - سسپنس - جھگڑا - اور پیسہ   ہے تو  کون سی چیز   سیاست میں نہیں ؟؟
کھیل  کی دنیا میں کرس گیل  ہے ، ہماری سیاست  میں  بابر غوری ، کھیل  میں  ثانیا مرزا - ہماری سیاست میں شرمیلا - وہاں اگر "پیلے" تھا تو ہماری سیاست میں ارباب کس کس کا ذکر کریں یہاں تو لائنیں لگی ہیں -
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  جب کھیل  میں" ڈوپ ٹیسٹ"  ہوسکتا ہے تو ہماری سیاست میں اس قانون کو کیوں لاگو نہیں کیا جاتا -  غریب مسکین ایک عہدہ بار  پینے اور طاقت  کا انجکشن لگوانے  والے  کھلاڑی  کو جو  ملک وقوم  کے واسطے اپنی جان کی بازی لگارہا ہوتا ہے  اس کو ایک  " ڈوپ ٹیسٹ " کے مثبت نتیجے کے سانے آنے پر کھیلنے پر پابندی  -- ظلم ہے سرا سر  ظلم !
 ہماری سیاست  میں  جس  کے جو منہ میں آتا ہے  بولتا چلا جائے -- ان کے منہ  فٹھے  منہ کی بدبو  سے ،   چال ڈھال سے - تقریر  سے ، بیان سے، نشست و برخاست  سے ، تخلیے میں  ، مجلس میں ، ایوانوں میں  ، بازاروں ، عدالتوں ، محکموں ، اور  اوطاقوں  میں کھلی کچہریوں اور چھپی  محفلوں  میں ہرہر  جگہ   سے  تعفن  ابل رہا ہے -  کوئی ان کا ڈوپ ٹیسٹ  کیوں نہیں لیتا ؟   ان کے خوں اور پیشاب کے نمونے   نکالو -- کسی   61،    62  قانون  کی ضرورت نہیں پڑے  گی
ان سے کلمہ سننے ، نماز   پڑھوانے  ،  دعائے قنوت اور آیت الا لکرسی   کی ضرورت  نہیں -  ان سیاہ ست دانوں  کو  کسی مستند  لیبارٹری میں بھیجو  ، ان کا سمپل  کشید کرو اور پھر رپورٹ آنے پر  لال حویلی ، ماڈل ٹا ون،  فیصل آباد کے گھنٹہ گھر ،  جاتی امراء ، رائے ونڈ ، اور             
ڈاؤن  اسٹریٹ  ، مکا  چوک ،  اور   رتو ڈیرو   کے سامنے  ان کی مثبت ڈوپ رپورٹ کے ساتھ  چودہ چودہ  چکر لگواؤ -- کتے  کے کا ٹے کا علاج  سگ گزیدہ  کے لئے  ہوتا ہے  مگر ان سیاہ ست دانوں  ڈسے  ہوۓ  لوگوں کے علاج کے لئے  مریض کو تکلیف  نہ دو  ، بلکہ  موذی  جانور  کو  انجکشن لگاو--- یہی  علاج ہے  اس مرض کا 
 مرزا غالب  نے  تو  بہت پہلے کہہ  دیا تھا ، مگر  میری  اور غالب کی سنتا کون ہے ؟؟؟
              
   پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
   ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں


Comments