(سر سید احمد خان اور برمودا ٹرینگل پہلا حصّہ )

برصغیر میں مجدد الف ثانی رح نے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں گم شدہ  اسلای تعلیمات کو ازسر نو زندہ کیا - اکبر کے بعد اس  کا پڑ پوتا اورنگزیب عالمگیر تخت نشین ہوا اورنگزیب عالمگیر کے پچاس سالہ دور اقتدار میں اسلام کی نشاط ثانیہ کا عمل بہت تیز ہوا ،  اورنگزیب عالمگیر کے  انتقال کے بعد  مخلوط ہندو تہذیب کے اثرات نے اپنا سر اٹھانا شروع کردیا - اس یلغار کو شاہ ولی الله نے اپنی اصلاحی دعوت اور لٹریچر کی بدولت روکا-  سولہویں صدی کے آغاز پر ہی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں تجارت کی غرض سے قدم رکھا ، بنگال میں ، کلکتہ اور دیگر علاقوں پر اپنا قبضہ جمانے کی کوششیں شروع کردیں ، سترھویں صدی کی ابتدا میں شاہ ولی الله کے خانوادے سے شاہ عبدا لعزیز کی شکل میں عظیم رہنما سامنے آئے ، جن کے مکتب سے دو عظیم مجاہدین شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید نے اصلاح معاشرہ کا بیڑا اٹھایا- بنگال میں نواب سراج الدولہ نے اور میسور میں سلطان ٹیپو نےایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کی  بھرپور مزاحمت کی ، مگر میر جعفر اور میر صادق کی سازشوں کی بدولت جنگ پلاسی میں سراج الدولہ اور  میسور میں سلطان ٹیپو کو شکست ہوئی  - اٹھارویں صدی میں سید احمد شید اور شاہ اسماعیل شہید نے مرہٹہ حکمرانوں کے خلاف جدوجہد شروع کی ، اور باقاعدہ فوج ترتیب دے کر جہاد کا آغاز کیا - سکھ راجہ رنجیت سنگھ ان کے مقابلے پر آیا -  ابتدائی معرکوں میں کامیابی ہوئی اور بالا کوٹ کے  آخری معرکے میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید ھوئے - 1857 میں انگریز فوج میں سور کی چربی والے کارتوسوں کے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے دیسی سپاہی انگریز فوج کے خلاف ہوگئے - اور ملک بھر بھی انگریز کے خلاف بغا وت پھوٹ پڑی - باغی سپاہی دلی آگئے اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنا رہنما بنا لیا -

جنرل بخت خان ، فیروز شاہ دلی میں ، جھانسی میں رانی لکشمی بائی ،  کانپور میں تا نیتا توپی  ، اودھ میں بیگم حضرت محل سب نے بغاوت کا علم بلند کردیا - ساڑھے چار ماہ یہ کشمکش جاری رہی ، لکشمی بائی ما ری گئی - حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی - انگریز اب دلی پر حملہ کرچکا تھا -   شا ہی قلعے کا    محاصرہ کرلیا گیا -  مرزا الہی بخش کی مخبری  اور ورغلانے پر  بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لینی پڑی - ہڈسن  نے  بادشاہ کو گرفتار کیا    - شاہی گرفتارشدگان میں شہزادے بھی شامل تھے -  بعد میں ان شہزادوں کے سر تن سے جدا کرکے بادشاہ کے سامنے لائے گئے -  بہادر شاہ ظفر کو ان کی بیگم سمیت   قلعے کی ایک  کوٹھری میں منتقل کردیا گیا -  جس کے بعد دلی کی تباہی و بربادی کی المناک    داستان  رقم ہونا شر وع  ہوئی-  اس موقع پر انگریز نے اس آزادی کی جدوجہد کو بدنام کرنے کیلئے لوگوں میں سے کچھ کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا تاکہ وہ اس  تحریک آزادی کو ہنگامہ اور غدر ثابت کرسکیں اور یوں انگریز باوجود ظلم کرنے کےبیگناہ  ثابت ہو سکے - اور ایسا ہی ہوا - آزادی کی اس تحریک کو غدر اور ہنگامہ تعبیر کیا گیا - انگریز فوج بد مست ہاتھی کی مانند ہندوستان میں قتل عام کرتی پھرتی تھی - پھانسیوں اور سزاؤں کا ایک سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا - اردو کے مایہ ناز شاعر مرزا غالب نے اپنے خطوط میں دلی کی تباہی کا بھرپور نقشہ کھینچا ہے - بالاخر ستائیس جنوری کو بادشاہ کو عدالت میں پیش کیا گیا -ایف جے ہیرٹ وکیل سرکار تھا جبکہ  بادشاہ کی جانب سے غلام عباس وکیل صفائی مقرر ہوئے-  اور جرح کے  بعد  بالآخر بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بغاوت کا ملزم قرار دیتے ہوئے عدالت نے   عمر قید کی سزا سنادی گئی ,بادشاہ کو جلاوطن کر کے رنگون  روانہ کردیا گیا -

بادشاہ بہادر شاہ ظفر   اسیری و جلاوطنی میں رنگون میں  انتقال فرما کر وہیں دفن ہوئے - اس کے بعد انگریز نے مسلمان مجاہدین و علماء کرام پر اپنا گھیرا تنگ کیا اور چن چن کر پھانسیوں پر لٹکانا شروع کیا -   ہزاروں علماء کرام کو پھانسی دی گئی اور  کالا پانی کی سزا سنائی گئی - اسی طرح امبیلا میں انگریز فوج نے مسلمانوں کو اپنے تسلط میں لینے کی کوشش کی تو مجاہدین نے شدید مزاحمت کی ،انگریز جنرل چیمبر لین  زخمی ہو ا  اور اس کی فوج نے پسپائی اختیار کی - جس کی سزا مولانا جعفر تھانیسری اور دیگر علماء کو کالا پانی کی صورت میں  بھگتنا پڑی -

ہندوستان  میں جنگ آزدی اپنے منطقی انجام کو پہنچی تب تک انیسویں صدی کا آغاز ہوچکا تھا - تحریک آزادی کے تمام کردار شہید  جاچکے تھے - جو علماء  بچ رہ گئے ان کو  کالا پانی کی سزا ہو چکی تھی - انسیویں  صدی  مسلمانوں اور ہندؤں کے لئے سیاسی شعور اور نئے سرے سے اپنے آپ کو مجتمع  کرنے  کا نقطۂ آغاز تھی - کئی رہنما اور بہت سی سیاسی تحاریک  کی ابتداء ہوئی - اسی دوران  پہلی جنگ عظیم لڑی گئی  جس کے اثرات سے ہندوستان بھی براہ راست متاثر ہوا -  

 

--------------------------------------------------------
  جنگ آزادی کے ناکام ہوجانے اور  مسلمان علماء و مجاہدین  پر جو عزیمت کے پہاڑ  توڑے گئے اس کی  اگر مکمل نہیں پھر بھی اچھی خاصی تفصیل  گزشتہ اقساط میں قارئین  کی نظر سے گزر چکی ہیں   -  علماء   کرا م کو کالا پانی کی سزائیں ،  سر عام پھانسیوں پر لٹکانے اور  جائدادیں ضبط کروانے کے بعد  علماء کرام  پر ایک عجیب و غریب وقت  بھی آیا - جس میں ہوسکتا ہے  حکمت یا مصلحتی  اعتبار سے علماء نے  مل جل کر اپنے لئے آسانی کا راستہ منتخب کیا ہو  ،   جیسے کہ  عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ -
رخصت   کے راستے سے میری مراد  علماء  کا  وہ فیصلہ ہے جس میں عتاب سے بچ جانے والے  علماء کرام   نے سیاسی میدان  " اوروں"  کے لئے  خالی چھوڑ دیا اور خود  مدارس اور  محض  دینوی خدمات کے لئے وقف ہوگئے -
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی    کو   انگریز  کی  گرفتاری سے بچنے کے لئے مکہ مکرمہ  جانا پڑا  جہاں سے آپ نے  اپنی دینی خدمات کو جاری رکھا - میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کوئی غلط فیصلہ تھا - اسی لئے    حکمت   کا لفظ استمعال کیا ہے - لیکن اس طرز عمل اور فیصلے  نے بعد میں آنے والے علماء و مشائخ کے لئے  جو راستہ دیکھایا  وہ  خانقا ہ  اور مدرسے  کے دروازے پر چھوڑ کر آتا تھا -  وہ سیاسی مقام جو  شاہ ولی الله  اور شاہ عبدالعزیز کو حاصل تھا  ،        1857  کے بعد  کے علماء کرام کے ہاتھ سےتقریبآ  نکل چکا تھا - سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی جدوجہد  اور پھر کچھ عرصہ  اسلامی حکومت  کا  نمونہ جو سرحدی علاقوں میں قائم ہوا ، اس جنگ کے بعد  اجتماعی اعتبار  سے قوت نافذہ تحلیل  ہوجانے سے مکمل طور پر ختم ہوگیا-
 مجموعی تاثر  یہ رہا کہ علماء کرام  اس عتاب سے بچنے کے لئے سیاسی میدان چھوڑ کر  دین کے مسائل اور فتوؤں کی تقسیم کے معاملات سنبھال کر ایک گوشے میں بیٹھ رہے - یہیں سے کسی نے دیوبند  مکتب فکر  کی مسند سنبھالی تو کوئی  سنت رسول کی ترویج و پیروی میں اتنا راسخ ہوا کہ ایک اور مکتب کی بنیاد رکھ دی جسے اب اہل حدیت مکتب  سے جانا پہچانا جاتا ہے -  وہ جہاد جس کی بنیاد  الله کے نظام کا قیام تھا  کہیں  پیچھے ہی رہ گیا تھا - اسی اجتہاد و مصلحت کوشی کے سبب  پوری کی پوری سیاسی کشمکش  ان ہاتھوں میں چلی گئی  جن کا اسلام ، جہاد اور  دین سے  کوئی گہرا اور  شعوری واسطہ نہیں تھا -
انیسویں صدی  ایسی ہی سیاسی صدی ہے جس میں  اسلام  اور سیاست  دو الگ الگ  اصطلاحوں  کے طور پر سامنے آئے - اسلام محض رسوم عبادیات اور پیدائش و تجہیز و تکفین کے مسائل  کا نام بن گیا -  جبکہ سیاست  نظام حکومت  چلانے اور بین القوامی  معاملات  کا نام بن کر رہ گئی-
انگریز چونکہ  ہندوستان  میں قدم  جمانے کے ساتھ  ہی اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ  آزادی کی تحریک کے اصل  روح رواں مسلمان ہیں ، اور اس تجزیے کے نتیجے میں  انہوں نے "  پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو "  کی پالیسی کو استمعال کیا - جس کے نتیجے میں  اسلام  کو  محض  رسوم عبادت کے مذھب تک  محدود کردیا گیا  جبکہ  مجدد الف ثانی رح سے لیکر  سید احمد شہید  علیہ رحمہ تک  اسلام  شعوری اعتبار سے  مکمل نظام حیات اور" دین "  کا درجہ و مقام رکھتا تھا -
" پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو "  کا پہلا  شکار مذہبی طبقہ ہی بنا ،  ثقافتی و  روایتی حوالے  سے ہندوستان کا مسلمان  مجاوری ، خان خوا ہی قبر پرستی کا  مزاج رکھتا تھا  چناچہ  بریلوی مکتبہ فکر نے اسی مزاج کو آگے بڑھایا - انگریزوں کی حمایت میں اس مکتب فکر  نے فتووں کا ا نبار  لگا دیا ، دوسری طرف  پوری کی پوری  جہادی فکر  مکتبہ دیوبند  کے بچاؤ اور پھیلاؤ میں اپنی توانائیاں صرف  کرنے میں مشغول ہو گئیں -  وہابی ، اہل حدیث ، بریلو ی  اور لکھنؤ  میں شیعت کو خوب مشتہر کیا گیا - ظاہر ہے ان تمام  مذہبی   تجربات  کے پیچھے وہی سوچ کار فرما تھی جو انگریز نے  لائن آف ایکشن  کے طور پر متعارف کروائی تھی  کہ "  پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو "
یہی نہیں بلکہ انگریز نے مسلمان اور ہندو تفریق پیدا کرنے کے لئے      1861 میں بنارس میں اردو اور ہندی تنا زع  کھڑا کیا - جس میں یو پی کا گورنر انتونی میکڈانلڈ  پیش پیش تھا - یوں مسلمان پہلے آپس کی مذہبی چپخلش میں الجھے پھر اردو، ھندی  کی کشمکش میں الجھ کر  انگریز  سے آزادی حاصل کرنے کے مقصد سے خاصی حد تک دور نکل گئے -
ان  حالات  میں    سر سید احمد خان  مسلمانوں  کے  اصلاحی رہنماء کے طور پر ابھرے - سر سید احمد خان  نے اپنے افکار و نظریات  سے جہاں ہندوستان میں اپنا مقام بنایا وہیں اپنے خلاف ایک بہت بڑا طبقہ اپنی مخالفت میں بھی کھڑا کردیا - ہماری  نصابی کتب میں تو سر سید احمد خان کی وہی تصویر پیش کی جاتی ہے جو نظامت تعلیمات  چاہتا تھا، سر سید کی شخصیت اور ان کی علمی خدمات اور ان سے اختلاف ، یہ ایک ایسا " برمودا ٹرینگل "  ( برمودا تثلیث )  ہے جس کو سمجھنے کے لئے  جب تک قاری کو جنگ آزادی   1857  سے پہلے اور بعد  کے ہندوستان کے حالات کا جاننا ازحد ضروری ہے - چناچہ اسی باریکی و مجبوری  کی وجہ سے  مضمون کی ابتداء ہی میں تفصیلی تمہید کا سہارا لیا ہے -
سر سید احمد خان کی شخصیت کے  اس مثلث  کو سمجھنے کے لئے ان کے کام اور نظریات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو  کچھ یوں شکل بنتی دکھائی دیتی ہے
* سر سید کا پہلا دور --- ابتداء سے 1857 کی جنگ آزادی تک
*  دوسرا دور -----1857 کی جنگ آزادی سے ان کے سفر انگلستان تک
*  تیسرا دور ----    1870 سے لیکر ان کی وفات تک
سر سید کے والد کا جب انتقال ہوا اس وقت آپ کی عمر اکیس سال تھی ، گھر کا بوجھ سر پر تھا ، لہٰذا ملازمت کا ارادہ کیا اور اپنے خالو کے جاکر کچھ کام سیکھنا شروع کیا - خالو ایسٹ انڈیا کمپنی میں صدر امین تھے جن کی سفارش کام آئی -اور ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی -1829 میں رابرٹ ہملٹن  کمشنر  آگرہ بنا تو اس نے سیشن کورٹ میں منشی کا عہدہ لگوادیا -  اس زمانے میں بھی  اس نوعیت کی ترقی کے لئے قابلیت کے ساتھ ساتھ کچھ   اضافی سہولیات بھی درکار ہوتی تھیں- بہر حال اس طرح انگریز کی قربت اور خداداد صلاحیتوں کی بناء پر سر سید کو  دیگر  لوگوں کی نسبت امتیازی مقام حاصل ہوتا  چلا  گیا-  


اگرچہ سر سید کا وہ کام جس کی بنیاد پر وہ برصغیر کے بہت بڑے اصلاحی رہنما اور دانشور کہے جاتے ہیں  1857 کے بعد کا ہے - لیکن ان کا ابتدائی کام بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا - جس میں وہ آثار الصنادید جسیی وقیح کتاب شامل ہے -
سر سید احمد خان نے 1847 میں اپنے زمانے اور اس سے بھی بہت پہلے کے ماہرین علم و  فنون  سے متعلق ایک جامح  تذکرہ مرتب کیا - اگر سر سید ان مشاہیر کا تذکرہ نہ لکھتے تو آج کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہ ہوتا - اس تذکرے میں  119 عظیم ماہرین علم و فن کا ذکر ملتا ہے -1857 سے قبل سرسید  کسی حد تک  تنقید نگار کے طور پر بھی سامنے آئے انھوں نے اپنی مشکل طرز تحریر پر نظر ثا نی  بھی کی اور دیگر شعراء اور لکھنے والوں کو بھی سہل پسندی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی -
اور  اس سے سہل  پسندی سے ان کی مراد درحقیقت  " عقلیت پسندی"  تھی- یہ  اس دور کا وہی  " نیا پن " تھا جو  ان کے ہمعصر رفقاء کو سمجھ آگیا تھا -
1857 کی پوری کشمکش سر سید احمد خان کے سامنے کی بات تھی - اس عظیم جدوجہد  کی رد میں جب " اسباب بغاوت ہند "  سامنے آیی تب بہت سوں پر کچھ راز افشاء  ہونے شروع ہوئے - اور اس طرح سر سید نے انگریز سے حق دوستی نبھانے کی پاداش میں  اپنے ارد گرد  بہت سے مخالف  پیدا کرلئے -
حا نلآنکہ  1842 تک جب  وہ فتح پور سیکری میں منصفی کی نوکری پر تھے اس وقت تک خاصی  حد تک شاہ اسماعیل اور سید احمد شہید کی اصلاحی تحریک سے متاثر تھے اور ان کی تائید میں کئی مضامین لکھ  جن میں راہ سنت و رد بدعت بھی شامل ہیں -
لیکن  جنگ آزدی کے بعد کے حالات کا سرسید   پچھلے دور کے  سید احمد خان سے یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے - یہ جنگ آزادی  سر سید احمد خان کے  لئے ایک ٹرننگ پوا ئنٹ  ثا بت ہوئی - اس وقت کے سیاسی  قیادت کے قحط الرجال اور  جدید یت  اور عقلیت پسندی کے نعرے نے  سر سید  احمد خان کو ہندوستان کی سطح پر  ایک عظیم دانشور بنا دیا -
 سر سید جب " اسباب بغاوت ہند "  تحریر کرتے ہیں تو تمام تر جدوجہد کے سامنے  ہتھیاروں سے لیس ہوکر مجاہدین پر برستے دکھائی دئیے

   ۔1857 کی جنگ آزادی مسلمانان برصغیر کی طرف سے فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کی شاندار تاریخ ہے۔ مسلمانان برصغیر اس پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کے سب سے مضبوط ترین اور ظالم ترین استعمار سے ٹکر لی اور اسے ہلا کررکھ دیا۔ ایسی  قربانیوں کے تسلسل سے ہی ہم نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، لیکن سرسید صاحب اس جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں
" " جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے  پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں  مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:۔(مقالات سرسید، صفحہ 41)۔
انگریز سرکار کے متعلق  سرسید صاحب کے  دلی خیالات خود انکی زبانی سنتے ہیں :۔

" میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو گورنامنٹ  (فرنگی)کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنامنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت ذیادہ ہے اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اسے سے ذیاہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر  مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگون پر ظاہر کرے ، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے ؟ اور اس نےاس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میں صرف کی ہے ؟" ۔
(مقالات سرسید، صفحہ 44)
 پھر خود ہی لکتھے ہیں کہ" اس کے عوض سرکار نے میری بڑی قدر دانی کی عہدہ صدر الصدوری  پر ترقی دی اور علاوہ اس کے دو سو روپیہ ماہواری پنشن مجھ کو اور میرے بڑے بیٹے کو عنایت فرمائے -اور خلعت پانچ پارچہ اور تین رقم جواہر ایک شمشیر عمدہ قیمتی ہزار روپے کا اور ہزار روپے نقد واسطے مدد خرچ کے مرحمت فرمایا -
(مقالات سر سید صفحہ  48) اس کے ساتھ ایک سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے جس پر جان کرائی کرافٹ ولسن  صاحب کے دستخط بطور سند   بھی موجود ہے- "
انگلش گورنمنٹ سے محبت و یگانگت اور رفاقت و خیر خواہی کا سلسلہ قائم کروانے کے لیے خاں صاحب عمر بھر کوشاں رہے۔ 1857 کا یادگار واقعہ رونما ہوا  جس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر  تمام   محب وطن ہندوستانیوں نے ملی فریضہ سمجھ کر جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اس موقع پر خاں صاحب کا رویہ لائق مطالعہ ہے۔ ادھر مجاہدین  مسلط  سامراج کے خلاف زندگی موت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے تھے، ادھر ہمارے مصلح قوم اس کو " غدر" قرار دیتے ہوئے کیا کارگزاری سنا تے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

" جب غدر ہوا، میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتا سرکشی میرٹھ  کی خبر  بخنور میں پہنچی۔ اول تو ہم نے جھوٹ جانا، مگر یقین ہو اتو اسی وقت سے میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ۔ ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا"۔
اسی وفاداری کے حوالے سے اپنی جوانمردی کا ایک واقعہ رقم کرتے ہیں  دیکھئے
" جب دفعتا 29 نمبر کی کمپنی سہارن پور سے بجنور میں آگئی ۔ میں اس وقت ممدوح کے پاس نہ تھا۔ دفعتا  میں نے سنا کہ باغی فوج آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ میں اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو لڑکا صغیر سن تھا ، میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی : " میں  تو مرنے جاتا ہوں۔، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دینا"۔ مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے ، مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا" ۔
(مقالات سرسید، صفحہ 47)

ہماری نام نہاد  روشن خیال" برادری" کے ہم خیال افراد  کی ایک بڑی علامت جہاد کا انکار ہے۔ کیونکہ جہاد یا اس سے متعلق کوئی چیز انگریز سرکار کو کسی قیمت گوارہ نہیں ۔ خان صاحب اسی مشن پر  اس فریضے   کی تردید میں اپنے ہم عصر کذاب اکبر مرزا قادیانی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ فرماتے ہیں :۔

" ایک بڑا الزام جو ان لوگوں نے مسلمانوں کی طرف نہایت بے جا لگایا، وہ مسئلہ جہاد کا ہے حالانکہ کجا جہاد اور کجا بغاوت۔ میں نہیں دیکھتا کہ اس تمام ہنگامہ میں کوئی خدا پرست آدمی یا کوئی سچ مچ کا مولوی شریک ہوا ہو۔ بجز ایک شخص کے۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس پر کیا آفت پڑی ؟  شاید اس کی سمجھ میں غلطی پڑی کیونکہ خطا ہونا انسان سے کچھ بعید نہیں۔ جہاد کا مسئلہ مسلمانوں میں دغا اور بے ایمانی اور غدر اور بے رحمی نہیں ہے۔ جیسے کہ اس ہنگامہ میں ہوا۔ کوئی شخص بھی اس ہنگامہ مفسدی اور بے ایمانی اور بے رحمی اور خدا کے رسول کے احکام کی نافرمانی کو جہاد نہیں کہہ سکتا"۔
(مقالات سرسید، صفحہ 93، 94)

جہاد اور مجاہدین کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے، جہاد آزادی میں علمائے کرام اور مجاہدعوام کی قربانیوں کی نفی کرنے اور جہاد کے فلسفے کو داغدار کرنے کے بعد وہ مسلمانان ہند کو انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے کی تلقین کرتے   ہیں۔ فرماتے ہیں :۔

" ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے تمام ہندوستان پر دو طرح حکومت پائی ۔ یا یہ سبب غلبہ اور فتح یابموجب عہدوپیمان تمام مسلمان ہندوستان کے ان کی رعیت ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ نے انکو امن دیا اور تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ کے امن میں آئے۔ تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ سے اور ہماری گورنمنٹ بھی تمام مسلمانوں سے مطمئن ہوئی کہ وہ ہماری رعیت اور تابعدار ہوکر رہتے ہیں۔ پھر کس طرح مذہب کے بموجب ہندوستان مسلمان گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ غدر اور بغاوت کرسکتے تھے کیونکہ شرائط جہاد میں سے پہلی ہی شرط ہے کہ جن لوگوں پر جہاد کیا جائے ان میں اور جہاد کرنے والوں میں امن اور کوئی عہد نہ ہو "   (مقالات سرسید، صفحہ 94)۔

اس حد تک  آگے بڑھ کر بات کرنے میں  سر سید احمد خان نے  واقعی بہت دل گردے کا کام کیا ہے - اپنی تحریر   "لائل محمڈنز آف انڈیا" میں یہاں تک کہہ  گئے " کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے غدار وطن اور قوم دشمن افراد پیدا ہونے بند ہوگئے اور میر جعفر اور صادق جیسے محب وطن اور اقوام کے بہی خواہ پیدا ہو رہے ہیں جو سرکار برطانیہ کے وفادار ہیں ، بلکہ اس کے راج کو مستحکم کرنے والے ہیں
( بحوالہ :-شمیم احمد مصنف زاویہ نظر صفحہ 33)
 اس عظیم  مفکر کی یہ سوچ یہ تمام خیالات  اس وقت کے ہیں جب جنگ آزادی 1857 کی آگ پوری طرح ٹھنڈی بھی نہیں ہو پائی تھی -
یہ تو محض ان کے سیاسی و اصلاحی خیالات کی ایک جھلک  ہے جو ان کی ہی تحریروں  مقالات و اقتباسات پر مشتمل ہے ، عصری علوم کی تعلیم و رغبت اور اسلامی عقائد پر رکیک حملوں  کے حوالے سے  سر سید احمد خان نے   نہایت دلیری  سے اپنے خیالات کا اظہار کیا -
(جاری ہے )

Comments