اگرچہ سر سید کا وہ کام جس کی بنیاد پر وہ برصغیر کے بہت بڑے اصلاحی رہنما اور دانشور کہے جاتے ہیں 1857 کے بعد کا ہے - لیکن ان کا ابتدائی کام بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا - جس میں وہ آثار الصنادید جسیی وقیح کتاب شامل ہے -
سر سید احمد خان نے 1847 میں اپنے زمانے اور اس سے بھی بہت پہلے کے ماہرین علم و فنون سے متعلق ایک جامح تذکرہ مرتب کیا - اگر سر سید ان مشاہیر کا تذکرہ نہ لکھتے تو آج کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہ ہوتا - اس تذکرے میں 119 عظیم ماہرین علم و فن کا ذکر ملتا ہے -1857 سے قبل سرسید کسی حد تک تنقید نگار کے طور پر بھی سامنے آئے انھوں نے اپنی مشکل طرز تحریر پر نظر ثا نی بھی کی اور دیگر شعراء اور لکھنے والوں کو بھی سہل پسندی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی -
اور اس سے سہل پسندی سے ان کی مراد درحقیقت " عقلیت پسندی" تھی- یہ اس دور کا وہی " نیا پن " تھا جو ان کے ہمعصر رفقاء کو سمجھ آگیا تھا -
1857 کی پوری کشمکش سر سید احمد خان کے سامنے کی بات تھی - اس عظیم جدوجہد کی رد میں جب " اسباب بغاوت ہند " سامنے آیی تب بہت سوں پر کچھ راز افشاء ہونے شروع ہوئے - اور اس طرح سر سید نے انگریز سے حق دوستی نبھانے کی پاداش میں اپنے ارد گرد بہت سے مخالف پیدا کرلئے -
حا نلآنکہ 1842 تک جب وہ فتح پور سیکری میں منصفی کی نوکری پر تھے اس وقت تک خاصی حد تک شاہ اسماعیل اور سید احمد شہید کی اصلاحی تحریک سے متاثر تھے اور ان کی تائید میں کئی مضامین لکھ جن میں راہ سنت و رد بدعت بھی شامل ہیں -
لیکن جنگ آزدی کے بعد کے حالات کا سرسید پچھلے دور کے سید احمد خان سے یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے - یہ جنگ آزادی سر سید احمد خان کے لئے ایک ٹرننگ پوا ئنٹ ثا بت ہوئی - اس وقت کے سیاسی قیادت کے قحط الرجال اور جدید یت اور عقلیت پسندی کے نعرے نے سر سید احمد خان کو ہندوستان کی سطح پر ایک عظیم دانشور بنا دیا -
سر سید جب " اسباب بغاوت ہند " تحریر کرتے ہیں تو تمام تر جدوجہد کے سامنے ہتھیاروں سے لیس ہوکر مجاہدین پر برستے دکھائی دئیے
۔1857 کی جنگ آزادی مسلمانان برصغیر کی طرف سے فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کی شاندار تاریخ ہے۔ مسلمانان برصغیر اس پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کے سب سے مضبوط ترین اور ظالم ترین استعمار سے ٹکر لی اور اسے ہلا کررکھ دیا۔ ایسی قربانیوں کے تسلسل سے ہی ہم نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، لیکن سرسید صاحب اس جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں
" " جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:۔(مقالات سرسید، صفحہ 41)۔
انگریز سرکار کے متعلق سرسید صاحب کے دلی خیالات خود انکی زبانی سنتے ہیں :۔
" میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو گورنامنٹ (فرنگی)کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنامنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت ذیادہ ہے اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اسے سے ذیاہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگون پر ظاہر کرے ، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے ؟ اور اس نےاس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میں صرف کی ہے ؟" ۔
(مقالات سرسید، صفحہ 44)
پھر خود ہی لکتھے ہیں کہ" اس کے عوض سرکار نے میری بڑی قدر دانی کی عہدہ صدر الصدوری پر ترقی دی اور علاوہ اس کے دو سو روپیہ ماہواری پنشن مجھ کو اور میرے بڑے بیٹے کو عنایت فرمائے -اور خلعت پانچ پارچہ اور تین رقم جواہر ایک شمشیر عمدہ قیمتی ہزار روپے کا اور ہزار روپے نقد واسطے مدد خرچ کے مرحمت فرمایا -
(مقالات سر سید صفحہ 48) اس کے ساتھ ایک سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے جس پر جان کرائی کرافٹ ولسن صاحب کے دستخط بطور سند بھی موجود ہے- "
انگلش گورنمنٹ سے محبت و یگانگت اور رفاقت و خیر خواہی کا سلسلہ قائم کروانے کے لیے خاں صاحب عمر بھر کوشاں رہے۔ 1857 کا یادگار واقعہ رونما ہوا جس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر تمام محب وطن ہندوستانیوں نے ملی فریضہ سمجھ کر جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اس موقع پر خاں صاحب کا رویہ لائق مطالعہ ہے۔ ادھر مجاہدین مسلط سامراج کے خلاف زندگی موت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے تھے، ادھر ہمارے مصلح قوم اس کو " غدر" قرار دیتے ہوئے کیا کارگزاری سنا تے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
" جب غدر ہوا، میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتا سرکشی میرٹھ کی خبر بخنور میں پہنچی۔ اول تو ہم نے جھوٹ جانا، مگر یقین ہو اتو اسی وقت سے میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ۔ ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا"۔
اسی وفاداری کے حوالے سے اپنی جوانمردی کا ایک واقعہ رقم کرتے ہیں دیکھئے
" جب دفعتا 29 نمبر کی کمپنی سہارن پور سے بجنور میں آگئی ۔ میں اس وقت ممدوح کے پاس نہ تھا۔ دفعتا میں نے سنا کہ باغی فوج آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ میں اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو لڑکا صغیر سن تھا ، میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی : " میں تو مرنے جاتا ہوں۔، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دینا"۔ مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے ، مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا" ۔
(مقالات سرسید، صفحہ 47)
ہماری نام نہاد روشن خیال" برادری" کے ہم خیال افراد کی ایک بڑی علامت جہاد کا انکار ہے۔ کیونکہ جہاد یا اس سے متعلق کوئی چیز انگریز سرکار کو کسی قیمت گوارہ نہیں ۔ خان صاحب اسی مشن پر اس فریضے کی تردید میں اپنے ہم عصر کذاب اکبر مرزا قادیانی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ فرماتے ہیں :۔
" ایک بڑا الزام جو ان لوگوں نے مسلمانوں کی طرف نہایت بے جا لگایا، وہ مسئلہ جہاد کا ہے حالانکہ کجا جہاد اور کجا بغاوت۔ میں نہیں دیکھتا کہ اس تمام ہنگامہ میں کوئی خدا پرست آدمی یا کوئی سچ مچ کا مولوی شریک ہوا ہو۔ بجز ایک شخص کے۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس پر کیا آفت پڑی ؟ شاید اس کی سمجھ میں غلطی پڑی کیونکہ خطا ہونا انسان سے کچھ بعید نہیں۔ جہاد کا مسئلہ مسلمانوں میں دغا اور بے ایمانی اور غدر اور بے رحمی نہیں ہے۔ جیسے کہ اس ہنگامہ میں ہوا۔ کوئی شخص بھی اس ہنگامہ مفسدی اور بے ایمانی اور بے رحمی اور خدا کے رسول کے احکام کی نافرمانی کو جہاد نہیں کہہ سکتا"۔
(مقالات سرسید، صفحہ 93، 94)
جہاد اور مجاہدین کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے، جہاد آزادی میں علمائے کرام اور مجاہدعوام کی قربانیوں کی نفی کرنے اور جہاد کے فلسفے کو داغدار کرنے کے بعد وہ مسلمانان ہند کو انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں :۔
" ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے تمام ہندوستان پر دو طرح حکومت پائی ۔ یا یہ سبب غلبہ اور فتح یابموجب عہدوپیمان تمام مسلمان ہندوستان کے ان کی رعیت ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ نے انکو امن دیا اور تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ کے امن میں آئے۔ تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ سے اور ہماری گورنمنٹ بھی تمام مسلمانوں سے مطمئن ہوئی کہ وہ ہماری رعیت اور تابعدار ہوکر رہتے ہیں۔ پھر کس طرح مذہب کے بموجب ہندوستان مسلمان گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ غدر اور بغاوت کرسکتے تھے کیونکہ شرائط جہاد میں سے پہلی ہی شرط ہے کہ جن لوگوں پر جہاد کیا جائے ان میں اور جہاد کرنے والوں میں امن اور کوئی عہد نہ ہو " (مقالات سرسید، صفحہ 94)۔
اس حد تک آگے بڑھ کر بات کرنے میں سر سید احمد خان نے واقعی بہت دل گردے کا کام کیا ہے - اپنی تحریر "لائل محمڈنز آف انڈیا" میں یہاں تک کہہ گئے " کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے غدار وطن اور قوم دشمن افراد پیدا ہونے بند ہوگئے اور میر جعفر اور صادق جیسے محب وطن اور اقوام کے بہی خواہ پیدا ہو رہے ہیں جو سرکار برطانیہ کے وفادار ہیں ، بلکہ اس کے راج کو مستحکم کرنے والے ہیں
( بحوالہ :-شمیم احمد مصنف زاویہ نظر صفحہ 33)
اس عظیم مفکر کی یہ سوچ یہ تمام خیالات اس وقت کے ہیں جب جنگ آزادی 1857 کی آگ پوری طرح ٹھنڈی بھی نہیں ہو پائی تھی -
یہ تو محض ان کے سیاسی و اصلاحی خیالات کی ایک جھلک ہے جو ان کی ہی تحریروں مقالات و اقتباسات پر مشتمل ہے ، عصری علوم کی تعلیم و رغبت اور اسلامی عقائد پر رکیک حملوں کے حوالے سے سر سید احمد خان نے نہایت دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کیا -
(جاری ہے )
Comments
Post a Comment