Skip to main content

فارمولہ کرکٹ پاکستان کو مہنگی پڑ گئی: سمیع چوہدری کا کالم

 


  • مصنف, سمیع چوہدری
  • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دنیا بھر کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ایک طے شدہ روٹین کے تحت چلتی ہے۔ بیٹنگ سائیڈ پاور پلے میں دائرے کے اندر فیلڈنگ کا فائدہ اٹھاتی ہے، مڈل اوورز میں اننگز کو مستحکم کیا جاتا ہے اور ڈیتھ اوورز میں کشتیاں جلا دی جاتی ہیں کہ بڑے سے بڑا ہدف تشکیل دیا جا سکے۔

یہ فارمولہ لگ بھگ پوری دنیا میں اسی طرح سے چلتا ہے اور اکثر کنڈیشنز میں بار آور بھی ثابت ہوتا ہے۔ مگر میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کی جیومیٹری اس فارمولے کے برعکس ہے اور یہاں کسی بھی بیٹنگ ٹیم کے لیے یہ اپروچ تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی۔

جو پلیٹ فارم پاکستانی ٹاپ آرڈر نے ترتیب دیا تھا، وہاں سے بآسانی مجموعہ 165 رنز تک دھکیلا جا سکتا تھا بشرطیکہ حواس مجتمع رکھے جاتے اور وسیع و عریض گراؤنڈ میں اندھا دھند بلا چلانے کی بجائے وہ دانشمندانہ کرکٹ کھیلی جاتی جو شان مسعود نے کھیلی۔

شان مسعود

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

شان مسعود کی اننگز اس گراؤنڈ کی جیومیٹری کے عین مطابق تھی

شان مسعود کی اننگز اس گراؤنڈ کی جیومیٹری کے عین مطابق تھی۔ انھوں نے باؤنڈریز پر غیر ضروری توجہ کھپانے کی بجائے فیلڈ کی گہری پاکٹس کا استعمال کیا اور وکٹوں کے بیچ دوڑ دوڑ کر سکور بورڈ کو ایسی تقویت بخشی کہ بٹلر بارہا سر جھٹکتے نظر آئے۔

اس پچ پر یہ نہایت ضروری تھا کہ شان مسعود، بابر یا رضوان میں سے کوئی ایک عین آخر تک کریز پر موجود رہتا اور دوسرے اینڈ سے جارحیت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جاتی۔ شان نے بہت اچھا کھیلا مگر یہاں انھیں آخری گیند تک اپنی ٹیم اننگز کے ہمراہ رہنا تھا۔

یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سیم کرّن ڈیٹتھ اوورز کے مشاق ترین بولر ہیں۔ پاکستانی تھنک ٹینک کو یقینی طور پر معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ ڈیتھ اوورز میں پچ کے اندر گیند ڈالتے ہیں اور میلبرن جیسی پچ پر انھیں اپنے قد سے کہیں زیادہ باؤنس ملنے والا تھا جس کے خلاف اونچے شاٹ کھیلنا خودکشی کے مترادف تھا۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگر پاکستانی تھنک ٹینک کی یہاں پلاننگ یہ تھی کہ حالات و واقعات سے قطع نظر ڈیتھ اوورز میں صرف باؤنڈریز کا پیچھا کرنا ہے تو یہ بے حد ناقص ثابت ہوئی۔ شان مسعود نے جو پیمانہ مقرر کیا تھا، اگر آخری اوور تک اسی کی پیروی کی جاتی تو یہ ٹرافی پاکستان سے بہت دور نہیں تھی۔

بابر اعظم کو اپنی قیادت کے انداز میں بھی اب کچھ انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ابھی تک وہ ایک ایسے کپتان کے طور پر ابھرے ہیں جو ڈریسنگ روم سے ایک طے شدہ سوچ لے کر نکلتا ہے اور گراؤنڈ میں حالات کے جبر کے باوجود اپنے فارمولے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔

پاکستانی بولنگ سے یہاں کوئی بھی گلہ ناقابلِ جواز ہو گا کہ اس کم مارجن کے میچ کو بھی کھینچ تان کر نہ صرف آخر تک لے گئی بلکہ مڈل اوورز میں پاکستان کی بالادستی بھی برقرار رکھی۔ مگر بابر اعظم سے بہت بڑی تزویراتی غلطی یہ ہوئی کہ نسیم شاہ کو پہلے اوور میں بٹلر کے سامنے مہنگا ثابت ہونے کے باوجود پاور پلے میں دوبارہ اوور دے دیا گیا اور پاور پلے میں میچ کا توازن بگڑ گیا۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کی بیٹنگ کے دوران بھی بابر سے ایسی ہی غلطیاں سرزد ہوئیں اور پڑھی لکھی ترتیب کے مطابق افتخار احمد کو پانچویں نمبر پہ بھیج دیا گیا حالانکہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ وہاں عادل رشید کی لیگ سپن کے خلاف محمد نواز بہت موثر ثابت ہو سکتے تھے اور افتخار احمد بعد ازاں ڈیتھ اوورز میں پیس کے خلاف اپنا تاثر قائم کر سکتے تھے۔

بعینہ شاہین آفریدی کو بیٹنگ آرڈر میں نیچے دھکیل کر محمد وسیم کو اوپر بھیج دیا گیا۔ حالانکہ انڈیا کے خلاف اسی پچ پر شاہین آفریدی کے رنز ہی تھے جو پاکستانی مجموعے کو اس قابل کر پائے تھے کہ میچ آخری اوور تک زندہ رہا۔

پاکستان کی یہ بھی بدقسمتی رہی کہ شاہین آفریدی عین ضرورت کے وقت انجرڈ ہو گئے۔ ان کے دو اوورز اگر وہاں انگلش بیٹنگ میں کوئی دراڑ ڈال جاتے تو پہلے سے ہی دباؤ میں سہمی انگلش اننگز مدافعت پر مجبور ہو جاتی اور پاکستان کوئی معجزہ برپا کر پاتا۔

لیکن حتمی حقیقت یہی ہے کہ اگر پاکستانی بیٹنگ اننگز کے آخری لمحات میں اپنے حواس مجتمع رکھ پاتی اور فارمولہ کرکٹ کی بجائے میلبرن کی پچ کے تقاضے نبھا جاتی تو پاکستان کی ٹی ٹونٹی کرکٹ کا ایک نیا باب شروع ہو سکتا تھا لیکن انگلینڈ کی ڈیتھ بولنگ اور پاکستان کی فارمولہ بیٹنگ نے ون ڈے چیمپئنز کو ہی ٹی ٹونٹی کا تاج بھی ہدیہ کر ڈالا۔

Comments