برصغیر میں اسلا م کے احیا اور آزادی کی تحریکیں, 1970 کے عام انتخابات - نتیجہ بربادی قسط 148 :: نجیب ایوبی ( چھٹا حصہ )

 1970 کے عام  انتخابات   - نتیجہ بربادی    ( چھٹا  حصہ )



 1970ء کے انتخابات بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پاکستان کے پہلے انتخابات تھے اور آج کی طرح اس بار بھی 

یہی کہا جارہا تھا کہ   "یہ ملکی تاریخ میں ہونے والے سب سے زیادہ منصفانہ  اور شفاف انتخابات ہوں گے۔قومی اسمبلی کی 

نشستوں کے لیے پولنگ 7 دسمبر، 1970ء جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے پولنگ 17 دسمبر کو ہوئی۔ اس وقت مغربی اور 

مشرقی پاکستان  کچے  دھاگے سے بندھے ہوئے تھے کس وقت یہ دھاگہ ٹوٹ جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا - انتخابات کا عمل  

یحیٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او)  30 مارچ 1970ء کے تحت ہوا ۔   جداگانہ طریقہ  انتخاب جس کی بنیاد پر 

پاکستان قائم ہوا تھا  ، ترک کر کے مخلوط طریق انتخاب کروائے گئے  اور اس کا  تمام تر فائدہ علیحدگی پسند قوتوں کو ہوا بھٹو اور 

مجیب الرحمن   سب سے زیادہ فائدے  میں ر ہے کیونکہ انہوں نے ہی  اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس    پر اصرار کیا 

تھا ۔  مزے کی بات یہ تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا جبکہ شیخ مجیب نے 

مغربی پاکستان کی نشستوں کے لئے اپنے دو امیدوار میدان میں اتارے تھے جماعت اسلامی نے  مشرقی اور مغربی پاکستان 

دونوں حصوں سے اپنے امیدوار کھڑے کئےتاکہ کسی بھی  طرح سے  وفاق کو   توڑنے کی سازش کو ناکام بنایا جاسکے  - جماعت 

اسلامی نے دستور ساز اسمبلی کے لئے   145 امیدوار میدان میں اتارے اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے لئے 241  

امیدوار عوام  کے سامنے پیش کئے-
 

 ملکی تاریخ کے سب سے طویل دورانئے  کی  جاری رہنے والی  یہ یہ انتخابی مہم    ایک سال تک جاری رہی - جس میں   پاکستان کی 

نظریاتی  کشمکش کو زیر بحث  بنایا گیا - جماعت  اسلامی کے علاوہ دو ایک پارٹیاں دو قومی نظریے کی  بنیاد  اور اسلامی نظام کے 

حوالے سے اپنی مہم کو آگے بڑھا رہی تھیں جماعت اسلامی چونکہ نظریہ پاکستان کی بات کرتی اور عوام میں یہ باور کراتی کہ 

سارے مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے ۔اسلام ہر ایک کے ساتھ انصاف اور مظلوموں کی دادرسی کی بات کرتا ہے یہی 

بات عوامی لیگ کو ناگوار گزرتی۔ اسلئے وہ جماعت اسلامی  جلسے کے جلوسوں میں  پرتشدد کارروائیاںکرتے اور جماعت کے 

کارکنوں کو  ڈراتے دھمکاتے۔مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے نظام تعلیم میں اس بات کا خیال ہی نہیں رکھا گیا پاکستان بنانے کا مقصد کیا 

تھا ۔پاکستان بنانے میں بنگالی آگے آگے تھے۔ نئی نسل کو کچھ پتہ نہیں تھا کیوں کہ ہمیں اس بارے میں پڑھایا نہیں گیا تھا۔ 

اسکول اور کالج کے نصاب میں زیادہ تر ہندو مصنفین کی  کتابیں  پڑھائی جاتیں ۔اسلئے بنگالی اکثریت کو پتہ نہیں تھا کہ پاکستان 

کیسے بنا اور پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا۔ حکمرانوں نے حصول پاکستان کے مقاصد بھلاکر  صرف اقتدار میں چمٹے رہنے کو اپنا 

مقصد بنا لیا تھا۔بنگال سے حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کو اقتدار ملا بھی تو انھیں جلد ہی فارغ کردیا گیا۔سول 

سروس میں اہم عہدے پر زیادہ تر مغربی پاکستان کے لوگ تعینات تھے ۔یہاں تک کہ فوج میں بھی بھرتی کا معیار  قد 6 فٹ  

اور سینہ   36 انچ   رکھا گیا کیونکہ بنگالیوں میں اکثریت  کاسینہ 32انچ اور قد چھوٹے تھے  لہٰذا فوج میں بھی ان کے لئے 

دروازے تقریباً بند تھے۔ ان سب باتوں نے محرومی اور نا انصافی کو جنم دیا ہندئوں نے بھی نفرت پھیلانے میں بھر پور کردار 

ادا کیا۔
 

 جماعت اسلامی   کے مقابلے پر  پیپلز پارٹی اسلامی سوشل ا زم   کا نعرہ لے کر  آئی  تھی  اور عوامی لیگ  اشتراکیت اور لسانیت کی بنیاد 

پر انتخابی مہم چلا رہی تھی  - دینی  جماعتوں میں جمیعت  علمائے اسلا م  (ہزار وی  گروپ )   بھی سوشل ا زم سے متاثر تھا  

مولانا عبد الحمید خان بھاشانی  کی جماعت  جماعت نیشنل عوامی پارٹی علیحدگی پسندوں کے ساتھ مل  کر   علیحدگی کے ایجنڈے پر 

عمل پیرا تھی - اگرچہ مولانا بھاشانی کی ہمدردیاں  ابتداء سیاست میں کانگرس کے ساتھ تھیں لیکن  وہ جلد ہی کانگریسی لیڈروں 

سے مایوس ہو کر  مسلم لیگ  میں شامل ہوئے  -    بعد  میں  علیحدگی کی تحریک میں شیخ مجیب  کے ساتھ  ملکر  پاکستان کے خلاف
 

کا م کرنے لگے ، یہ بتانا بھی  ضروری ہے  1970 میں  مشرقی پاکستان میں باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں 



باغیوں کا جو پہلا جتھا فرار ہو کر  ہندوستان گیا تھا  اس میں مولانا  بھاشانی بھی شامل تھے۔  بنگلہ دیش بننے کے  بعد واپس آ گئے اور

سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔
   

عوامی لیگ مشرقی پاکستان   کی مقبول ترین جماعت تھی جس نے  انتخابات سے قبل ہی  چھ نکات کے ذریعے  علیحدگی کا پیغا م  دینا 

شروع کردیا تھا  عوامی لیگ  کی ہر شہر میں اکثریت میں موجود تھی۔    جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں  لوگ آتے اور مغربی 

پاکستان کے خلاف کھل کر اظہار خیال کرتے - جماعت اسلامی کے  امیدوار بھی   ان ہی کے علاقوں میں جلسے کرتے  واحد 

جماعت اسلامی تھی جو اپنے جلسوں میں نظریہ پاکستان کی  بات کرتی تھی عوامی لیگ  کے 6 نکات   عوامی لیگ کے جلسوں 

میں  گرما گرم موضوع  ہوتا تھا  اس کے ساتھ ہی ساتھ  بنگالیوں کے  احساس محرومی  کو بنیاد بناتے ہوئے   تقا ریر کی جاتیں  ۔مشرقی 

پاکستان میں چونکہ ہندو کافی تعداد میں تھے عوامی لیگ کو انکی پوری حمایت حاصل تھی اور پھر  ایک الزام یہ بھی تھا کہ پڑوسی 

ملک کے حساس ادارے کے ایجنٹ بھی عوامی لیگ میں ہوتے تھے۔
 

 اسلا م اور سوشل ازم کی بنیاد پر  جاری اس مہم میں  ایک وقت ایسا بھی آیا جب  دونوں جانب سے  بھرپور قوت

کا مظا ہرہ  کیا گیا  

-   سیکولر اور اشتراکی  جماعتوں کی جانب سے  19 اپریل 1970 کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی گئی -     

جیسے ہی اس 

ہڑتال کا اعلان ہوا ، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید ابو الاعلی مودودی نے اس کو  ناکام بنانے کی اپیل کردی

انھوں نے 

قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ " کسی بھی صورت میں اس ہڑتال کو   کامیاب  نہ ہونے دیا جائے  ' کیونکہ اس 

کا مقصد  صرف 

یہ بات ثابت کرنا ہے کہ  سوشلسٹ   جب چھین پورے ملک کو بند کرسکتے ہیں ، اور ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے

دیں گے "     

جماعت  اسلامی  نے بھرپور عوامی رابطے کے   ذریعے اس ہڑتال کو ناکام بنایا جس کے بعد  امیر جماعت اسلامی

نے قوم کو 

مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنے عزم و شعور اور متحدہ ارادے   کا بھرپور مظاہرہ کیا  اور ملک کے

دونوں بازوؤں 

میں  اس ہڑتال کو قطعی  ناکام کردیا  -اس ملک میں اسلا م کے  حامیوں اور مخالفین  کے درمیاں اصل مسئلہ یہ ہے

کہ  اس ملک کو 

دار الاسلام  بن کر رہنا ہے  یا مارکس اور لینن کی امت کا ملک  بن جانا " -
 

اس ہڑتال کے جواب میں مولانا نے تجویز کیا کہ  اسلا م پسندوں کو بھی چاہیے کہ  وہ اسلامی نظام کے حق میں  طاقت کا مظا ہرہ 

کریں - چنانچہ 31   مئی   کو " یوم شوکت اسلا م منانے کا اعلان کیا گیا -    31 مئی 1970 کو مشرقی و مغربی 

پاکستان میں بھرپور اسلامی قوت اور شوکت کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا -    لاہور سے لیکر چٹا گانگ تک  اور کراچی سے لیکر خبر 

تک   تمام چھوٹے بڑے شہر " پاکستان کا مطلب کیا - لا الہ الا اللہ " کی تکبیر سے گونج رہے تھے ا ن جلسوں  ،مظاہروں 

اور جلوسوں سے یہ بات  کھل کر سامنے آگئی کہ  پاکستان کے باشندے اسلم کے  علاوہ  کسی بھی نظام کو قبول نہیں کریں گے   

لاہور کے یوم شوکت اسلا م  جلوس کی قیادت مولانا  سید ابو اعلی  مودودی اور کراچی کے جلوس کی قیادت  میں طفیل محمد نے کی -  

اور بڑے جلسوں سے خطاب کیا
 

     اس قوت کےاظہار نے عا لمی استعماری قوتوں اور  اسلام بیزار ملکی  مشنری کو جماعت اسلامی کے خلاف  کھڑا کردیا - اور 

اسطرح عا لمی قوتیں جماعت اسلامی کے حوالے سے  متحرک ہوگئیں میڈیا پر جماعت اسلامی کی سرگرمیوں  کو روک دیا گیا  

اور  جماعت اسلامی کے اکابرین کے خلاف  پروپیگنڈہ  مہم شروع کردی گئی -   

 

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق  63 فيصد پاکستانيوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کيا اور مجموعی طور پر 22 سياسی جماعتوں 

نے انتخابات ميں حصہ ليا۔ رجسٹرڈ ووٹرز  کی کل تعداد 56,941,500  تھی، جن ميں سے 31,211,220 کا 

تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور 25,730,280 کا تعلق مغربی پاکستان سے۔ ان انتخابات ميں 1,579 اميدواروں 

نے قومی اسمبلی کی 300 نشستوں کے ليے اليکشن میں حصہ لیا۔
 

 عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی تین سو تیرہ نشستوں میں سے 167 نشستیں حاصل کر کے  

میدان مار لیا ،اور  اس طرح یہ واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی جسے حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہوا  تو مغربی پاکستان 

میں سب حیران رہ گئے کہ اب کیا ہوگا؟
 

(جاری ہے )

Comments

  1. Salam, plz lets know other parts as 1 to 5, 7 to 10 and all

    ReplyDelete

Post a Comment