جنرل باجوہ غدار ہیں تو چھپ کر کیوں ملتے ہیں،تاحیات توسیع کی پیشکش کیوں کی،سربراہ آئی ایس آئی

 

راولپنڈی(خبرایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی ) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ساتھ غیرمتوقع ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کے فوج مخالف بیانیے، ارشد شریف قتل سمیت مختلف اہم نوعیت کے قومی امور پر تفصیلی گفتگو کی۔ڈی جی آئی ایس آئی نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ آرمی چیف غدار ہیں تو آپ آج بھی چھپ کر کیوں ملتے ہیں، تاحیات توسیع کی پیشکش کیوں کی؟ ماضی میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے؟ یہ نہیں ہو سکتا رات کے اندھیرے میں ملیں اور دن کی روشنی میں غدار کہیں۔آپ کی گفتگو میں کھلا تضاد ہے ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم نے تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے آرمی چیف کو غیرمعینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کی تھی جسے قبول نہیں کیا گیا، آرمی چیف کو میرے سامنے پرکشش پیشکش کی گئی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہ نے میڈیا سے براہ راست گفتگو کی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ میری واضح پالیسی ہے کہ میری تشہیر نہ کی جائے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، میرے ا دارے کے جوانوں پر جھوٹی تہمات لگائی گئیں اس لیے آیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ارشدشریف یہاں تھے تو ان کا ادارے سے رابطہ بھی تھا، جب وہ باہر گئے تب بھی انہوں نے رابطہ رکھا، ارشد شریف واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے ، ان کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، جب کے پی حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہماری تحقیق کے مطابق ایسا کچھ نہیں تھا۔ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ جھوٹ سے فتنہ و فسادکا خطرہ ہوتو سچ کاچپ رہنا نہیں بنتا، میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کے لیے سچ بولوں گا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، اس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنے کی مذمت کرنی چاہیے، بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھاکہ نیوٹرل، جانور، میر جعفریا میر صادق اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ ہم نے غیرقانونی کام سے انکار کیا،یہ فرد واحد یا صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں پورے ادارے کا تھا، ادارے کے غیر سیاسی رہنے پر بہت دن بحث ہوئی پھر یہ فیصلہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس سال مارچ سے ہم پربہت دباؤ ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے خودکو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے، جنرل باجوہ چاہتے تو اپنے آخری چھ سات مہینے سکون سے گزارسکتے تھے لیکن جنرل باجوہ نے فیصلہ ملک اور ادارے کے حق میں کیا، جنرل باجوہ اوران کے بچوں پرغلیظ تنقیدکی گئی۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ اْس وقت جو حکومت وقت تھی جو توسیع کو قانونی طور پر دینے کے مجاز تھے انہوں نے یہ پیشکش دی، اس وقت یہ پیشکش اس لیے کی گئی کہ تحریک عدم اعتماد اپنے عروج پر تھی۔لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ہمارا محاسبہ ضرورکریں لیکن پیمانہ رکھیں کہ میں ملک کے لیے درست کام کررہاہوں یا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2021 کے بعدکسی الیکشن میں فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا ثبوت ہے تو لائیں، جب ڈی جی آئی ایس آئی بنا تو مجھ سے پوچھاگیاکہ پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ کیا ہے، میں نے کہا معاشی مسائل، جس نے مجھ سے پوچھا تھا اس کے نزدیک پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ حزب اختلاف تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے، پاکستان کا دفاع اس لیے مضبوط ہے کہ اس کی ذمے داری 22 کروڑ عوام نے لی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے ہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتاہے، پاکستان نفرت کی وجہ سے دو ٹکڑے ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں ایک حق احتجاج کرنے کا بھی ہے، ہمیں کسی کے احتجاج، لانگ مارچ یا دھرنے پر اعتراض نہیں، جب زیادہ لوگ اکٹھے ہوں تو خطرہ ہوتاہے، ہمارافرض ہے کہ ہم سیکورٹی دیں، ہم باتیں نہیں کرتے کام کرتے ہیں۔ندیم انجم کے بقول میرے ادارے اور ایجنسی کا کسی جماعت کے ساتھ انا نہیں، جس جماعت کی آپ نے بات کی اس میں میرے ذاتی دوست دیگر جماعتوں سے زیادہ ہیں۔ایک سوال کے جواب میں آئی ایس آئی چیف کا کہنا تھاکہ جتنی بھی میٹنگز ہوئیں ہمارا مشورہ اوربیانیہ یہی تھاکہ آپ کو جوکرنا ہے آئین کے تحت کرناہے۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کے خلاف بات ہوئی تو وزیراعظم اور دیگر وزرا نے مذمت کی، یہ نہیں کہوں گا کہ حکومت دانستہ خاموش ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے پاکستان کے صحافی بہت خطرات کے باوجود اپناکام بہت اچھا کررہے ہیں، صحافیوں کو لفافہ کہنے کے خلاف ہوں، کوئی صحافی ایسا نہیں جسے میں بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔علاوہ ازیں ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل میں تھرڈ پارٹی ملوث ہو سکتی ہے، ارشد شریف کی وفات سے جڑے حقائق تک پہنچنا ضروری ہے کیونکہ اس حوالے سے اداروں، لیڈرشپ اور آرمی چیف پر بے بنیاد الزام تراشی کی گئی۔ارشد شریف کی موت پرجھوٹا بیانیہ بناکر لوگوں کو گمراہ کیا گیا، لفظ نیوٹرل کو گالی بنادیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ارشد شریف ایک نڈر صحافی تھے اور ایک شہید فوجی کے بھائی تھی، ارشد شریف کی موت انتہائی اندوہناک واقعہ ہے، دیکھنا ہو گا کہ مرحوم ارشد شریف کی موت کے حوالے سے اب تک کیا حقائق سامنے آئے ہیں۔ان کا کہنا تھا دیکھنا ہو گا کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے پر کس نے مجبور کیا، ہماری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر 5 اگست کو تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا، اس تھریٹ الرٹ سے سیکورٹی اداروں سے کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، کے پی حکومت نے ارشد شریف کو باچا خان ائرپورٹ تک مکمل پروٹوکول دیا۔ان کا کہنا تھا کہ تھریٹ الرٹ سے لگتا ہے کہ اس کا مقصد ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا، سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے بعد عماد یوسف کو کہا ارشد شریف کو باہر بھیج دیا جائے، ارشد شریف کی موت کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے، ان تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال کا ذکر بار بار آتا ہے، انہیں واپس پاکستان لایا جائے اور شامل تفتیش کیا جائے، ہم سب کو انکوائری کمیشن کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں، ماضی میں ہوئی غلطیوں کو پچھلے 20 سالوں سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں، ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ہم غداراور سارشی نہیں ہوسکتے کیونکہ ایک بہت مشہور اسکالر نے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو توڑنا ہے تو اس کی فوج کو کمزور کرنا ہو گا۔فوجی ترجمان نے کہا کہ ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کرسکتی ہے، ہم بطور ادارہ کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے۔مبینہ امریکی سازش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا سابق وزیراعظم نے سائفر پر کہا تھا کہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن پاکستانی سفیر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں اس وقت کے وزیراعظم سے سائفر کا خود ذکر کیا اور پھر 27 مارچ کو ایک خط لہرا دیا گیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی سیاستدان خود مسئلہ حل کریں لیکن ایسانہ ہو سکا، سائفر کے معاملے پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر سے متعلق من گھڑت کہانی سنائی گئی، آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے، ہم حقائق قوم کے سامنے لانا چاہتے تھے لیکن اْس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا، سائفر سے متعلق رجیم چینج آپریشن کا کہا گیا، پاکستانی فوج کو نشانہ بنایاگیا، ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا،سائفر پر جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا مرحوم ارشد شریف، دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے بھی سائفر پر بات کی، اس سب کے باوجود ہمارے دل میں ارشد شریف سے متعلق کوئی نفرت نہیں ہے، ہم نے کہا بغیر ثبوت من گھڑت الزامات ادارے پر نہ لگائے جائیں، میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل نے جھوٹے، سازشی بیانیے کے فروغ میں کردار ادا کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ بہت واضح ہے کسی کو ملک کو عدم استحکام سے دوچار نہیں کرنے دیں گے،پاکستان کا کوئی صحافی ایسا نہیں جسے بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔

Comments