پیوٹن نے نیوکلیئر فورس کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دے دیا; خبر ایجنسیاں

 




ماسکو/کیف/واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک+ خبرایجنسیاں) روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول رکھنے والی یونٹ (نیوکلیئر فورس) کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دے دیا۔برطانوی میڈیا کے مطابق روسی صدر نے نیٹو کے رکن ممالک کی جانب سے جارحانہ بیانات اور معاشی پابندیوں کے ردعمل میں روسی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ روسی جوہری اسلحے سے لیس یونٹ کو تیار رکھیں۔رپورٹ کے مطابق روسی صدر کی جانب سے یہ حکم اعلیٰ سطح کی میٹنگ کے بعد دیا گیا ہے۔سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں پیوٹن کا کہنا تھا کہ نیٹو کے اہم رکن ممالک کی جانب سے ہمارے ملک کے خلاف جارحانہ بیانات کا سلسلہ جاری ہے اس لیے میں نے وزیر دفاع اور آرمی چیف کو حکم دیا ہے کہ وہ نیوکلیئر فورس کو تیار رکھیں۔ان کا مزیدکہنا تھا کہ مغربی ممالک اقتصادی میدان میں ہمارے ملک کے خلاف غیر دوستانہ اقدامات کر رہے ہیں ۔نیویارک پوسٹ کے مطابق پوٹن کی جانب سے روسی نیوکلیئر فورسز کو دی گئی یہ ہدایت روس کے جوہری ہتھیاروں کی لانچنگ کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی ہے۔ روسی صدر کی مذکورہ بالا ہدایت سے خدشہ ہے کہ روس اور یوکرین کا تنازع ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ادھر یورپی یونین نے بھی یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب روسی صدر ولادمیر پوٹن کی نیوکلیئر فورسز کو تیار رہنے کی ہدایت پر نیٹو اور امریکا کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ برطانوی خبررساں ادسارے کے مطابق وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان میں روسی نیوکلیئر فورسز کو ہائی الرٹ کرنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا روس کے انرجی سیکٹر پر پابندی عاید کرنے پر غور کررہا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھومیس گرین فیلڈ نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کے ایک پروگرام میں کہا کہ پوٹن کے اقدامات نے تنازع کو مزید بڑھا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین اور روس کے مابین مذاکرات کا امریکا خیر مقدم کرتا ہے تاہم روس کا اپنی نیک نیتی کو ثابت کرنا ابھی باقی ہے۔نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹنبرگ نے سی این این سے گفتگو میں کہا کہ روس کی جانب سے یہ اقدام خطرے کا حامل ہے اور پیوٹن کا یہ اقدام انتہائی غیر ذمے دارانہ ہے۔ یوکرین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پیوٹن کا نیوکلیئر فورسز کو ہائی الرٹ کرنا دراصل مذاکرات سے قبل کیف کو دباؤ میں لانا ہے لیکن کیف دباؤ میں آنے والا نہیں۔یوکرینی وزیرخارجہ سے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے رابطہ کرکے جنگ رکوانے کے لیے درخواست کردی ہے جب کہ عالمی عدالت انصاف میں بھی روس کے خلاف درخواست دائر کردی ہے۔ ادھر ترکی نے روس یوکرین تنازع حل کرانے میں ثالثی کی پیشکش کی ہے ۔ علاوہ ازیں قبل ازیں روسی فوج کے ٹینک، گاڑیاں اور اہلکار یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل ہوگئے اور سڑکوں پر لڑائی جارہی ہے۔یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے روس کے 4ہزار 300فوجیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق روسی فوج نے یوکرین کے جنوبی شہر خیرسن اور جنوب مشرقی شہر برڈیانسک کا بھی محاصرہ کرلیا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے دفترسے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی افواج نے خارکیف میں ایک گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا جب کہ دارالحکومت کیف کے ایک ائرپورٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔روسی فوج کے شہر میں داخل ہونے پر خارکیف کے علاقائی انتظامیہ کے چیئرمین اولے سائنی گوبوف نے فیس بک پوسٹ میں کہا کہ یوکرین کی افواج دشمن کو ختم کر رہی ہیں اور اب بھی سڑکوں پر لڑائی جا رہی ہے۔روس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی فوج دارالحکومت کیف میں پارلیمنٹ سے محض 9 کلومیٹر کی دوری پر ہیں جب کہ دونوں جانب سے جنگ میں ہلاکتوں سے متعلق متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔مزید برآں اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کی نائب کمشنر کیلی کلیمنٹس نے کہا کہ جنگ کے طویل عرصہ جاری رہنے کی صورت میں یوکرائنی مہاجرین کی تعداد 40 لاکھ یا اس سے بھی زاید ہو سکتی ہے، اب تک ایک لاکھ 20ہزار یوکرائنی شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر قریبی ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ یوکرین مہاجرین کی فلاح و بہبود اور نگہداشت کے لیے جلد ہی ایک بلین ڈالر کی امداد اور عطیات کی اپیل کرنے والا ہے۔ اس امداد سے یوکریی مہاجرین کی اگلے 3ماہ تک کی ضروریات پوری کرنا آسان ہو جائے گا۔

Comments