خواتین کا ریکارڈ دھرنا - تاریخ رقم ہوگئی دھرنا پانچویں دن میں داخل ،ہزاروں خواتین کی شرکت- اب دھوکا دہی کی سیاست نہیں چلے گی; حافظ نعیم الرحمن

 


 
سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے میں ہزاروں خواتین شریک ہیں ‘ چھوٹی تصویر میں حافظ نعیم الرحمن خطاب کررہے ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی کا پیپلزپارٹی کے کالے بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا پانچویں روز میں داخل ہوگیا ،پیر کودھرنے میں شہر بھر سے خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی اور سندھ حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔دھرنے سے امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن اورنائب امیرکراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے خطاب کیا۔دھرنے میں جماعت اسلامی پاکستان حلقہ خواتین کی مرکزی جنرل سیکرٹری دردانہ صدیقی، ڈپٹی سیکرٹری عطیہ نثار، ناظمہ صوبہ سندھ رخشندہ منیب ،ناظمہ کراچی اسما سفیر،بزر گ خاتون رہنما امت الرقیب ودیگر خواتین ذمے داران نے بھی شرکت کی ۔خواتین کے ساتھ بچے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے ۔خواتین نے کالے بلدیاتی قانون کے خلاف اور کراچی کے حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کے حوالے سے مختلف پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج کے اس دھرنے میں مائیں ،بہنیں موجود ہیں اور اپنا حق لینے اور بچوں کے مستقبل کے لیے سراپا احتجاج ہیں ،خواتین کی بھرپور شرکت پر ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ، ضرورت پڑی تو خواتین کو دوبارہ بھی بلائیں گے ۔ پیپلزپارٹی کی طاقت سندھ کی اپوزیشن ہے ان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ نہیں بنا سکتے، ان کے کارکنوں کو کہتا ہوں اپنے حقوق کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔لاہور ،اسلام آباد ، پشاور ،ملتان میں تو میٹرو بسیں چل رہی ہیں لیکن کراچی میں گرین لائن بس کا صرف آزمائشی افتتاح کر کے چھوڑدیا گیا ،عوا م کو صرف 80بسوں اور جعلی پیکجز کی خیرات نہیں بلکہ 3 کروڑ سے زاید لوگوں کے لیے ان کا جائز اور قانونی حق چاہیے ۔ہم یہ حق لے کررہیں گے ۔پیپلزپارٹی کے وزرا ہم سے کہہ رہے ہیں کہ آ پ یہ جگہ چھوڑدیں اور دھرنا ختم کردیں ، ہم کہتے ہیں کہ آپ حکومت چھوڑدیں یا کالا بلدیاتی قانون واپس لیں اور عوام کو ان کا حق کراچی میں بااختیار شہری حکومت کا نظام دے دیں تو ہم اپنا احتجاج ختم کردیں گے ۔ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن عوام کے حقوق حاصل کیے بغیر کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے،خواتین فیکٹریوں میں ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرنے پر مجبور ہیں ، جہاں ان کے حقوق کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ،سندھ حکومت باتیں تو بہت کرتی ہے لیکن خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتی ۔انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی نے کالے بلدیاتی قانون کے خلاف عدالت میں بھی عوام کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیاہے اورسڑکوں پر بھی ۔ہم نے کالے بلدیاتی قانون کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی ہے ۔آئین کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی ، پیپلزپارٹی عددی اکثریت کی بنیاد پر آئین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتی ۔انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم دونوں اقتدار میں شریک رہی ہیں لیکن ان دونوں نے کراچی کو تباہ وبرباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ،کے ٹی سی بس سروس کا ایک بہت بڑا ادارہ تھا ان دونوں پارٹیوں نے مل کر ہی اسے تباہ کیا اور یہ ادارہ جب بند ہوا تو اس وقت ایم کیو ایم کا وزیر ٹرانسپورٹ تھا۔عوام کو جن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے ان سے خواتین بھی براہ راست متاثر ہوتی ہیں ، شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور طالبات کو روزانہ شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، حکومت کے بار بار کے اعلانات اور دعوؤں کے باوجود شہر میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوا ، نہ سندھ حکومت نے کچھ کیا اور نہ ہی وفاقی حکومت نے اپنی ذمے داری اد اکی۔انہوں نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ عوام کی فلاح کے لیے ایسا بلدیاتی نظام قائم کریں جس میں بلدیاتی اداروں کو تمام مالی ،انتظامی و سیاسی اختیارات دیے جائیں لیکن موجودہ جبری نافذ کردہ بلدیاتی قانون میں یہ اختیارات نہیں دیے گئے، اس لیے یہ قانون آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ،ہم وزیر اعلیٰ سندھ سے سوال کرتے ہیں کہ بتائیں کس طرح آئین کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں ۔ 2013ء میں ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے ساتھ اقتدار میں شریک تھی ،گورنر بھی ان کا تھا ،ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے مل کر وہ بلدیاتی قانون پاس کیا جس میں کراچی کے شہری ادارے اور اسپتال سب سندھ حکومت نے اپنے ماتحت کرلیے ،ایم کیو ایم نومبر 2014ء تک حکومت میں شامل رہی لیکن اس نے بلدیاتی اداروں کی اس حق تلفی کے خلاف کوئی احتجا ج نہیں کیا ۔ یہ دونوں پارٹیاں آج بھی عوام کو دھوکا دے رہی ہیں لیکن اب دھوکا دہی کی سیاست نہیں چلے گی ۔جماعت اسلامی بھرپور احتجاج اور مزاحمت جاری رکھے گی ۔انہوں نے کہاکہ 14سال سے ملک میں وڈیرہ شاہی نظام مسلط ہے ، ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں ہے ،کراچی ہو یا اندرون سندھ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے مظلوم ومحروم عوام کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم لسانیت اور عصبیت کی سیاست کررہی ہیں اور عوام کو لڑانے کی سازش کی جارہی ہے ۔وڈیرہ شاہی نظام کے ذریعے دیہی علاقوں کے عوام کو محکوم بنایا گیا ان کا استحصال کیا گیا اور اب اسی وڈیرہ شاہی نظام کے بل پر شہری علاقوں پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، دیہی عوام کو اس حد تک محکوم بنایا ہوا ہے کہ وہ اپنے شادی بیاہ بھی وڈیروں اور جاگیرداروں کی مرضی کے بغیر نہیں کر پاتے ، پیپلزپارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ جمہوریت پسند اور عوام میں مقبول پارٹی ہے ، اگر ایسا ہے تو وہ میئر کا براہ راست انتخاب کیوں نہیں کراتی اور کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام کے لیے بااختیار شہری حکومت کا نظام کیوں نہیں دیتی ۔پیپلزپارٹی جمہوریت کی بات کرتی ہے لیکن اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے پر تیار نہیں ، یہ پارٹی موروثی سیاست اور وراثت کی بنیاد پر چل رہی ہے ، پارٹی کے اندر کوئی جمہوریت نہیں ،پیپلزپارٹی طلبہ تنظیموں پر سے بھی پابندی نہیں اٹھاتی کیوں کہ یہ عوامی بیداری اور سیاسی شعور کو کچلنا چاہتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کے تھری منصوبہ مکمل کر کے کراچی کے لیے اضافی پانی کا بندوبست کیا اور کے فور منصوبہ پیش کیا لیکن افسوس ان کے بعد آنے والے سٹی ناظم اور سندھ حکومت نے اسے مسلسل التوا میں رکھا اور آج تک یہ مکمل نہیں ہوپا یا۔کے الیکٹرک کراچی میں ایک مافیا بن چکا ہے، بد قسمتی سے موجودہ حکومت بھی اس کی سرپرستی کررہی ہے اور مسلسل بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے ۔دوسری جانب امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق 7 جنوری بروز جمعہ کو دھرنے میں شرکت کریں گے اور شرکا سے خصوصی خطاب اور آئندہ کے لائحہ عمل کااعلان کریں گے۔

Comments