مرکزی حکومت کے ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ کا آغاز : ایک حقیقت ایک المیہ

 

263

قسط نمبر157
(پندرھواں حصہ)

پاکستان کی فوجی تیاریوں کا حال کچھ بہت حوصلہ افزا نہیں تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ ہماری حکومت کو ہندوستان کے عزائم کا اندازہ نہیں تھا، مگر اس کے باوجود حیرت اس بات پر ہے کہ مرکزی حکومت نے آنے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے کوئی خاص تیاری کیوں نہیں کی!
جس وقت ہماری مرکزی حکومت نے ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ کا آغاز کیا تھا اُس وقت مشرقی پاکستان میں ہماری کُل نفری محض 14 ڈویژن باقاعدہ فوج پر مشتمل تھی۔
جب صدر یحییٰ خان کے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کرنے پر شیخ مجیب بھڑک اٹھے اور مارچ 1971ء میں عدم تعاون کی تحریک شروع ہوگئی جس کی وجہ سے 25 مارچ 1971ء کو فوج نے ان کو گرفتار کرلیا اور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کردی، مکتی باہنی کے تربیت یافتہ غنڈے باقاعدہ حملے شروع کرچکے تھے۔ گرفتاری سے قبل شیخ مجیب الرحمان نے ریڈیو مشرقی پاکستان پر بنگالیوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ’’ہوسکتا ہے یہ میرا آخری پیغام ہو۔ آج بنگلہ دیش کی آزادی کا دن ہے۔ آپ جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں اپنی آزادی کے لیے لڑیں‘‘۔ تقریر کے آخر میں اس نے ’’جے بنگلہ‘‘ نعرہ لگایا۔ اس گرفتاری کے اگلے روز پاکستانی فوج سے بغاوت کرنے والے بنگالی لبریشن آرمی کے میجر ضیاء الرحمن نے اپنے سینئر پاک فوج کے بریگیڈیئر جنجوعہ کو بہانے سے بلوایا اور انہیں ان کے اہلِ خانہ سمیت سفاکانہ طریقے سے قتل کردیا، اس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں پر بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔
بغرضِ ملازمت راقم دو مرتبہ بنگلہ دیش کا دورہ کرچکا ہے۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے حالات کو جاننے اور سچائی تلاش کرنے کے لیے مجھے غیر جانب دار بن کر مکتی باہنی کے کمانڈرز اور فوج کے ان افسران سے معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا، اور بہت قریب سے جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت (جن میں سے تین رہنماؤں کو پھانسی دی جا چکی ہے) سے ملنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں مجھے یہ جاننے کا موقع ملا کہ وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے دولخت ہونے کا سانحہ پیش آیا؟ اور یہ بھی کہ کیا جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو اپنے اس فیصلے پر کوئی شرمندگی یا ندامت ہے جو انہوں نے پاک فوج کا ساتھ دے کر پاکستان بچانے کی آخری کوشش کی تھی؟
(اس ضمن میں اپنے ذاتی مشاہدات، ملاقاتوں اور انٹرویوز کو ان شاء اللہ آئندہ کی اقساط میں پیش کروں گا)
جناب قطب الدین عزیز نے اپنی کتاب Blood and Tears میں بے شمار واقعات لکھے ہیں۔ ان کا ذکر بھی آئندہ کریں گے۔ تاہم پھر بھی میں اس وقت ایک ایسے سچے واقعے کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا، جس کا تعلق ہمارے اپنے خاندان سے ہے۔
یہ آپ بیتی میرے قریبی عزیز عارف بھائی کی ہے جو اس قتلِ عام کے چشم دید گواہ ہیں اور آج کل امریکا میں مقیم ہیں، وہ اُس وقت نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ چٹاگانگ میں تھے، والد سرکاری ملازم تھے اور ان کی پوسٹنگ چٹاگانگ مشرقی پاکستان میں تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس رات جب میجر ضیاء الرحمان نے کچھ فوجیوں کو قتل کیا، پورے شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہم سرکاری کوارٹرز میں رہتے تھے، ہماری آبادی کی اکثریت غیر بنگالیوں پر مشتمل تھی، تاہم کچھ مکانات میں بنگالی خاندان بھی آباد تھے۔ ہمارے گھر والے سہمے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ابا جان جو عام حالات میں شام چھ بجے تک گھر آجاتے تھے، اس شام ابھی تک گھر نہیں لوٹے تھے۔ مغرب کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ ایسے میں غالباً سات بجے کا وقت ہوگا، دس پندرہ مسلح لڑکوں نے ہمارے محلے کو گھیرے میں لے لیا اور فائرنگ شروع کردی۔ ہم تمام گھر والے ایک کمرے میں جمع ہوگئے۔ اتنے میں مسلح لڑکوں نے غیر بنگالیوں کے دروازوں کو کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ ماں اور بہنیں دیوار پھاند کر پڑوس کے گھر میں کود گئیں اور میں تنہا اسی کوارٹر میں رہ گیا۔ کچھ دیر تک دروازہ بجتا رہا اور پھر وہ غنڈے دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور مجھے لاتیں اور گھونسے مارتے مارتے باہر میدان میں لے آئے۔ میں نے دیکھا کہ اس میدان میں 30، 35 لڑکے اور مرد جمع تھے اور سب کے سب ان وحشی درندوں کے آگے بے بس تھے۔ وہ ہم سب کو تشدد کا نشانہ بنارہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کہو ’’جے بنگلہ‘‘۔ ہم میں سے کسی نے ’’جے بنگلہ‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا۔ طیش میں آکر انھوں نے بندوق کے بٹ سے اندھادھند مارنا شروع کیا۔ اسی اثنا میں ایک فوجی ٹرک قریب سے گزرا اور ایک فوجی جیپ آتی دکھائی دی۔ فوج کی آمد پر گھبراہٹ کے عالم میں ان غنڈوں نے ہم سب پر فائر کھول دئیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاشیں گرنے لگیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے اپنے آپ کو بھی زخمیوں کی طرح ان لاشوں پر گرا لیا اور آنکھیں موند کر بے حس و حرکت ایک لاش کی طرح لیٹا رہا۔ فوجی ٹرک کے میدان تک آتے آتے یہ غنڈے فائرنگ کرتے ہوئے گلیوں میں بھاگ چکے تھے۔ اس حملے میں واحد زندہ بچ جانے والا فقط میں ہی تھا، میں نے اپنے اوپر ایک شہید کا جسم ڈالا ہوا تھا، میرا سارا بدن خون میں لت پت تھا۔ پاکستانی فوج کے جوانوں نے دیگر لاشوں کی طرح ایک لاش کی طرح مجھے بھی اٹھاکر اپنے ٹرک میں ڈالنے کی کوشش کی، کچھ زخمی تھے مگر اسپتال پہنچنے تک وہ بھی شہید ہوچکے تھے۔ جب مجھے یہ تسلی ہوگئی کہ یہ پاک فوج ہے تو میں نے انہیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور پاکستان زندہ باد کہنا شروع کیا۔ اُس وقت تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری امی اور بہنیں کس حال میں اور کہاں ہیں؟ ابو واپس زندہ سلامت پہنچے کہ نہیں؟ میں فوجی اسپتال کے ایک کیمپ میں تھا اور پھر دو دن بعد امی اور بہنوں کا معلوم ہوا کہ وہ خیریت سے ہیں، انھوں نے ایک بنگالی خاندان میں پناہ لی ہوئی ہے۔ ابو کو غنڈوں نے گھر آتے ہوئے راستے میں ہی شہید کردیا تھا۔ کچھ دن بعد ہم نے کسی نہ کسی طریقے سے رانگا ماٹی جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ پہاڑی علاقہ تھا اور قدرے محفوظ تھا۔ کچھ دن رانگا ماٹی میں گزار کر ہم ڈھاکا چلے آئے۔‘‘
بنگالی افسر میجر ضیاء الرحمان کی بغاوت اور قتل و غارت کے ساتھ ہی مارچ 1971ء میں چٹاگانگ آگ و خون میں نہا چکا تھا۔
غیر بنگالی آبادی میں قتل عام شروع ہوگیا تھا۔ فوجی چھاؤنیاں غیر محفوظ تھیں۔
قطب الدین عزیز اپنی کتابBlood and Tears لکھتے ہیں کہ ’’مارچ کے پہلے ہفتے میں صورت حال خاصی تشویش ناک ہوچکی تھی۔ عوامی لیگ نے غیر بنگالی اور بہاری آبادیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ ان بگڑتے حالات کی خبریں روکنے کے لیے فیڈرل انفارمیشن منسٹری کی خاص ہدایات جاری ہوچکی تھیں کہ کوئی بھی ایسی خبر شائع نہ کی جائے جس میں غیر بنگالیوں کی ہلاکت کا ذکر ہو۔ اسی طرح کا حکم مغربی پاکستان کے لیے بھی جاری کیا گیا تھا۔
کتاب کے پہلے باب میں وہ لکھتے ہیں کہ حالات تیزی کے ساتھ بگڑتے چلے گئے اور مارچ کے تیسرے ہفتے میں مشرقی پاکستان میں دہشت گردی کے شکار، خوف سے سہمے ہوئے 5000 افراد پر مشتمل خاندان کراچی پہنچے، مگر اس خبر کو چھاپنے کی جرأت کسی بھی اخبار کو نہیں تھی۔ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ ظاہر کرنا چاہ رہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں کوئی بھی پُرتشدد کارروائی نہیں ہورہی، اور سب کچھ نارمل ہے… غیر ملکی میڈیا مشرقی پاکستان کی خبریں جاری کررہا تھا، مگر مقامی پریس پر پابندی تھی کہ ان خبروں کی یہاں اشاعت نہیں ہونی چاہیے۔ daily christian science monitor اور daily milwaukee journal of march 14, 1971 کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’غیر ملکی ذرائع اس طرح کی خبریں رپورٹ کررہے تھے کہ ’’عوامی لیگ کے احتجاج کے دوران بہت بڑے پیمانے پر قتل عام، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کی وارداتیں ہورہی ہیں… ٹیلی فون کا نظام غیر فعال ہوچکا ہے اور آپس میں رابطے کی صورت ختم ہوکر رہ گئی ہے، رابطے کا واحد ذریعہ صرف اور صرف ائیر سروس ہے…‘‘ بدقسمتی سے ہزاروں مسلم خاندان جو ہجرت کرکے مشرقی پاکستان میں آباد ہوچکے تھے اُن کو ناراض بنگالیوں کی جانب سے بدترین قتل عام کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔‘‘
ان حالات میں بالآخر اپریل کے پہلے ہفتے میں مغربی پاکستان سے تازہ دم نفری مشرقی پاکستان بھیجی گئی جن میں 2 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز،5 بریگیڈ ہیڈکوارٹرز، ایک کمانڈو بٹالین اور بارہ انفنٹری بٹالین شامل تھیں۔ اور حیرت کی بات تھی کہ یہ اپنے بھاری ہتھیار یعنی توپیں وغیرہ مغربی پاکستان ہی میں چھوڑ آئے، جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس اضافی نفری کا مقصد جنگ نہیں بلکہ محدود آپریشن کے ذریعے باغیوں کی سرکوبی تھا۔
تین انفنٹری ڈویژن مشرقی پاکستان میں موجود تھی جن کے پاس نہ تو ضرورت کے مطابق بھاری اسلحہ تھا اور نہ ہی کور تھا۔ پاکستان کی یہ فوج نامکمل آلاتِ حرب لے کر محدود ساز و سامان، مگر ایک بہت بڑے جذبے کے ساتھ مشرقی پاکستان پہنچی تھی۔
ان حالات میں پاک فوج کے پاس دوسری جنگ عظیم کے فرسودہ قسم کے چند ٹینکوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ان ٹینکوں کا حال بھی یہ تھا کہ ان کو بلڈوزر کی مدد سے کھینچنا پڑتا تھا۔ پھر نرم اور گیلی زمین پر بھاری بھرکم ٹینکوں کے ساتھ کسی آپریشن میں جانا انتہائی دشوار تھا۔
مشرقی پاکستان میں پاک فضائیہ کی کُل طاقت 12 عدد ایف 86 طیارے تھے جن میں سے ایک ناقابلِ استعمال تھا۔ بحریہ کے پاس 4 جنگی کشتیاں تھیں جو جنگ کے مقصد سے نہیں بلکہ اسمگلنگ کی روک تھام اور شرپسندوں کے تعاقب کے لیے تھیں، ان میں سے بعض میں mm 50 اور کچھ میں mm 12.7 کی توپیں نصب تھیں، یہ کسی بھی طور پر جنگی آبدوزوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں تھیں۔
البتہ ہنگامی بنیادوں پر تشکیل دی جانے والی البدر، رضاکار، اسکاؤٹس وغیرہ پر مشتمل نیم عسکری ٹیم بہرحال موجود تھی جس کی تعداد 73 ہزار تھی۔
حوالہ جات: روزنامہ پاکستان۔ کالم نگار سید وجیہ الحسن بخاری۔ 20 جولائی 2016ء
معروف صحافی حامد میر
“Blood and Tears’۔ قطب الدین عزیز کی کتاب
البدر… مصنف پروفیسر سلیم منصور خالد

(جاری ہے)


 

برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

502

قسط نمبر158
(سولہواں حصہ)
مکتی باہنی کی مدد کے لیے دو ونگ اور بھی تھے، جو’’آہ باہنی‘‘ اور ’’وشانتی باہنی‘‘ کہلاتے تھے۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ان تینوں فورسز کو بنگلہ دیشی فوج کے ساتھ بطور ریزرو فورس شامل کرلیا گیا۔ ان کو وہی مراعات ملتی تھیں جو ریگولر افواج کو ملتی ہیں۔
مارچ 1971ء کے پہلے ہفتے میں ہی تحریک عدم تعاون کے نام پر ایک طرح سے خانہ جنگی شروع ہوچکی تھی جس کے ذریعے شیخ مجیب صدر یحییٰ خان پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہ رہا تھا۔


مارچ میں ہی ڈھاکا کرکٹ اسٹیڈیم میں جو بیت المکرم مسجد کے عقب میں واقع ہے، غالباً انگلینڈ یا نیوزی لینڈ مابین پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے درمیان میچ کھیلا جارہا تھا۔ ایک عینی شاہد غلام مجتبیٰ صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ اور ان کے بڑے بھائی میچ دیکھنے اسٹیڈیم میں گئے ہوئے تھے (غلام مجتبیٰ اور ان کے اہلِ خانہ بمشکل تمام کسی نہ کسی طرح نیپال کے راستے مغربی پاکستان پہنچے)، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ انتخاب عالم ایک چھکا مار چکے تھے، دوسرا مارنے کے لیے جیسے ہی آگے بڑھے، اچانک اسٹیڈیم میں جے بنگلہ جے بنگلہ کے نعرے لگنے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شامیانے جلائے جانے لگے۔ کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اچانک کیا ہوگیا ہے۔ نعرے لگاتے ہوئے مشتعل بنگالی میدان میں جانا چاہتے تھے۔ بہت مشکل سے کھلاڑیوں کو بحفاظت نکال کر ان کے ہوٹل لے جایا گیا۔ اس طرح میچ منسوخ کرنا پڑا۔ انٹرنیشنل میڈیا نے فوری طور پر اس اہم خبر کو نشر کیا۔

چٹاگانگ چھائونی میں بغاوت اور پاکستان آرمی کے کرنل جنجوعہ کے قتل کے بعد خانہ جنگی کا سماں تھا، مشتعل باغی فوجی چھاؤنی کے رہائشی علاقے میں پھیل چکے تھے۔ کچھ دیر میں ہی ان مسلح بنگالی فوجیوں نے غیر بنگالی فوجیوں کی خواتین کو ایک جگہ جمع کیا اور ان خواتین کی بے حرمتی کی انتہا کرتے ہوئے انہیں برہنہ حالت میں چھاؤنی میں گھمایا۔
قطب الدین عزیز لکھتے ہیں کہ’’4 مارچ سے 10 مارچ تک ہنگاموں کی صورتِ حال یہ تھی کہ مشتعل ہجوم نے جس کی قیادت عوامی لیگی جنگجوؤں ’’مکتی باہنی‘‘ کے ہاتھوں میں تھی، بے شمار غیر بنگالی تاجروں کی دکانوں کو آگ لگا دی تھی اور انہیں اغوا کرلیا تھا، جنہیں بھاری بھتہ لے کر چھوڑا گیا۔ ڈھاکا کی مرکزی جیل ٹوٹ چکی تھی۔ 341 انتہائی خطرناک قیدی جیل سے فرار ہوچکے تھے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا، اور یہ مشتعل طلبہ سلیم اللہ مسلم ہال میں برٹش کونسل آفس کو جلانے کی کوشش کررہے تھے۔ بروقت پاک فوج کی کارروائی سے مسلح نوجوان بھاگ کھڑے ہوئے مگر جاتے جاتے انہوں نے گن پوائنٹ پر متعدد جیپیں، گاڑیاں اور مائیکرو ویگنز اپنے قبضے میں لے لیں جو غیر بنگالیوں کی تھیں۔ غیر بنگالیوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے ڈھاکا ریلوے اسٹیشن میں پناہ لی‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’مارچ کے وسط میں جب جنرل یحییٰ خان اور شیخ مجیب کے مابین مذاکرات کا ’’ڈنگ ڈونگ‘‘ جاری تھا اُس وقت عوامی لیگ متوازی انتظامیہ بناکر اپنے لوگوں کو تربیت دلوا رہی تھی۔ متعدد تربیتی کیمپ ڈھاکا میں کھولے جاچکے تھے۔ عوامی لیگی غنڈوں نے ڈھاکا چھاؤنی تک غذائی ترسیل بند کردی تھی اور شیخ مجیب نے 23 مارچ کو پاکستان کے قومی دن کے بجائے یوم مزاحمت کا اعلان کیا۔ بزور طاقت و غنڈہ گردی پاکستان کا قومی پرچم ہر جگہ سے اتارا جانے لگا اور اس کی جگہ بنگلہ دیش کے پرچم کو آویزاں کیا جاتا رہا، جس محبِ وطن نے ایسا کرنے سے انکار کیا اُس کو جان سے مار دیا گیا۔‘‘

’’2 مارچ کو سینٹرل اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی دعوت پر شیخ مجیب نے ایک احتجاجی جلسے میں شرکت کی اور پہلی مرتبہ سرزمینِ پاکستان میں بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرایا گیا، پاکستان کے قومی پرچم کو نذرِ آتش کیا گیا، اور رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم کو بطور قومی ترانہ پڑھا گیا۔‘‘ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صدیق سالک شہید)
5 مارچ کو ایک اعلیٰ فوجی افسر اسلام آباد پہنچے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب میں ایوانِ صدر میں داخل ہوا تو برآمدے میں صدر یحییٰ خان، جنرل حمید خان اور مسٹر بھٹو شراب پی رہے تھے۔ میں نے آتے ہی مشرقی پاکستان کی پریشان کن صورت حال کے بارے میں کچھ کہنا شروع کیا تو مسٹر بھٹو شراب کا جام اٹھائے ساتھ والے کمرے میں چلے گئے۔ میں شکستہ روح اور گرفتہ دل کے ساتھ وہاں سے اٹھا۔ ڈھاکا میں خون بہہ رہا تھا اور بھٹو، حمید، یحییٰ رنگ رلیوں میں غرقاب تھے۔‘‘
(جنرل فرمان علی۔ یادداشتیں، اردو ڈائجسٹ مئی 1978ء)
عملاً بغاوت کا آغاز ہوچکا تھا اور سرکاری ملازمین نے دفاتر جانا بند کردیا تھا۔ کارخانے، ملیں، بینک، ریل گاڑیاں اور اسٹیمروں تک کا نظام متاثر تھا۔ عوامی لیگی غنڈے دندناتے پھر رہے تھے۔ جو اُن سے تعاون نہ کرتا اسے ٹھکانے لگادیتے۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے صوبے کے بنگالی چیف سیکریٹری نے 3 مارچ کو سول امور کے انچارج جنرل راؤ فرمان علی خان کو کہا کہ ’’فوج کو شہر میں طلب کرلیں‘‘۔ راؤ فرمان نے جواب میں کہا کہ ’’اس سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔ آپ قانون نافذ کرنے کے لیے سول اداروں کا تعاون مانگ لیں‘‘۔ لیکن چیف سیکریٹری نے جو عوامی لیگ کے حامی کی حیثیت سے مشہور تھا، اصرار کیا کہ فوج کے بغیر حالات کنٹرول نہیں ہوسکتے۔ اس پر راؤ فرمان علی خان نے کہا کہ ’’مجیب سے پوچھو‘‘۔ جواب میں سیکریٹری نے کہا ’’میں ان کی منظوری سے یہ بات کررہا ہوں۔‘‘
اس طرح شہر میں فوج طلب کرلی گئی، اور یوں عوامی لیگ کو ’’گرم احتجاج‘‘ کی اشتراکی تکنیک بروئے کار لانے کا موقع فراہم ہوگیا۔

ان حالات میں جزوی ایکشن لینا پڑا۔ ڈھاکا، سلہٹ، رنگ پور اور کھلنا میں پاک فوج نے کرفیو لگاکر حالات کو قابو کرنے کی کوشش کی، مگر شدت پسندوں کو جب اور جہاں موقع ملتا وہ اپنی کارروائی ڈال دیتے تھے۔
آرمی ایکشن کی ابتدا شیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری سے ہوئی، جبکہ دوسرے عوامی لیگی رہنما ہندوستان فرار ہوچکے تھے۔ بھٹو نے وقت کی نزاکت کو بھانپتے اور میدان خالی دیکھ کر بیان دیا کہ ’’پاکستان کے بحران کو منتخب نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں‘‘، اور پھر اس نے جنرل یحییٰ سے چھے گھنٹے طویل ملاقات کی، اور اس ملاقات میں پیپلز پارٹی کو اقتدار حوالے کرنے کا مطالبہ دہرایا۔
6 مارچ کو جنرل یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو بلانے کا اعلان کیا۔ اگلے دن 7 مارچ کو شیخ مجیب نے ڈھاکا ریس گراؤنڈ میں چار مطالبات پیش کیے اور فوری طور پر مارشل لا اٹھانے اور فوج کے بیرکوں میں واپس جانے کا مطالبہ پیش کیا۔ اس جلسے کی کارروائی ڈھاکا ریڈیو اسٹیشن سے براہِ راست نشر ہوتی رہی۔
14 مارچ کو بھٹو نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر کسی آئینی مفاہمت سے قبل اقتدار منتقل کرنا ہے تو پھر مشرقی پاکستان میں اقتدار عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو سونپ دیا جائے۔‘‘
15 مارچ کو جنرل یحییٰ سخت ترین حفاظتی انتظامات میں ڈھاکا پہنچا تاکہ اس آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے جو اس نے خود بھڑکائی تھی۔ یحییٰ خان اور مجیب کے درمیان مذاکرات جاری تھے، اس دوران یحییٰ خان بھٹو سے بھی مسلسل رابطے میں رہا۔ جلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار اور قتل و غارت گری برابر جاری رہی، یہاں تک کہ 21 مارچ آگئی، آج کے دن یحییٰ کے طلب کرنے پر بھٹو اپنے رفقا کے ساتھ ڈھاکا پہنچے، جہاں جنرل جہاں زیب ارباب نے ان کا استقبال کیا اور اپنی حفاظت میں قیام گاہ تک پہنچایا۔ شام کو دو گھنٹے تک یحییٰ اور بھٹو میں تنہائی میں ملاقات ہوتی رہی۔
کہنے والوں کا کہنا ہے کہ ڈھاکا میں مذاکرات کے دوران ہی یحییٰ خان اور بھٹو کے درمیان ’’آرمی ایکشن‘‘ پر اتفاقِ رائے ہوگیا تھا۔ اس طرح جنرل ٹکا خان کو اس خوں ریز اندھے آرمی ایکشن کی کمان سونپی گئی۔ یحییٰ خان طیارے میں سوار ہوئے اور مغربی پاکستان چلے گئے۔ اس پراسرار روانگی کے فوری بعد مسٹر بھٹو نے تجاہلِ عارفانہ سے کا م لیتے ہوئے شیخ مجیب کو فون کیا اور کہا کہ ’’میں مذاکرات کے لیے تمہارے گھر آرہا ہوں‘‘۔ جواب میں شیخ مجیب نے کہا کہ ’’مذاکرات کس سے ہوں گے؟ تمہارا باپ (یحییٰ خان) تو یہاں سے جاچکا ہے!‘‘
(جنرل ٹکا خان۔ انٹرویو جنگ لاہور۔ 22 جولائی 1983ء)
26 مارچ کو مسٹر بھٹو نے شیخ مجیب کو غدار اور عوامی لیگ کو خلافِ قانون قرار دیئے جانے اور مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کی تائید کرتے ہوئے کہا ’’خدا کا شکر ہے کہ… پاکستان بچ گیا‘‘۔
(روزنامہ مساوات اور روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ 27 مارچ 1971ء)
اُدھر مشرقی پاکستان میں اسٹیشنوں، قصبوں، شہروں، شاہراہوں پر قاتلوں اور غنڈوں کا راج تھا۔ غیر بنگالی مسلمانوں کا لہو دریاؤں کا پانی سرخ کررہا تھا۔ مقتل سجے ہوئے تھے اور انسانوں کو محاورتاً نہیں، فی الحقیقت سڑکوں پر لٹا لٹا کر ذبح کیا جارہا تھا۔ لندن کے اخبار سنڈے ٹائمز کے رپورٹر نے 2 مئی 1971ء کو لکھا کہ ’’مکتی باہنی کے غنڈوں نے چٹاگانگ میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک افسر کی ادھیڑ عمر ماں کو قتل کردیا، پھر اس کے دو معصوم بچوں کے سر کاٹ ڈالے، ان دونوں معصوموں کے کٹے ہوئے سروں کو مقتولہ ماں کی برہنہ لاش پر ڈال دیا۔ بہت سی غیر بنگالی مقتولہ کنواری لڑکیوں کے جسموں میں سے بنگلہ دیش کے پرچم نکالے گئے جنہیں مکتی باہنی کے وحشیوں نے ان کے جسموں میں ٹھونس کر قتل کردیا تھا۔‘‘
اس قتل عام میں مظلوم بہاری ماؤں کو اپنے بچوں کا لہو پلایا گیا۔ قتل سے پہلے افراد کے ہاتھوں قبریں کھدوائی گئیں۔ سراج گنج شہر میں چار سو خواتین اور بچوں کو ایک بڑے ہال میں پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔
حوالہ جات: (Blood and Tears قطب الدین عزیز)
(’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘۔صدیق سالک شہید)
(البدر۔ مصنف پروفیسر سلیم منصور خالد)
(جنرل فرمان علی۔ یادداشتیں، اردو ڈائجسٹ، مئی 1978ء)
(جنرل ٹکا خان۔ انٹرویو جنگ لاہور۔ 22 جولائی 1983ء)
(روزنامہ مساوات اور روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ 27 مارچ 1971ء)
(جاری ہے)


 

 

Comments