اہل کراچی کی صحت کیلئے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں،حافظ نعیم

 


 
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن مقامی ہوٹل میں ’’ری بلڈ کراچی‘‘ صحت کی صورتحال پر مذاکرے سے خطاب کررہے ہیں‘ پینل ڈسکشن میں ڈاکٹر واسع شاکر، ڈاکٹر اقبال‘ راحت قریشی‘ سیموئیل اشرف‘ ڈاکٹر طارق رفیع‘ نائلہ طارق‘ ڈاکٹر ثاقب انصاری‘ ڈاکٹر عبدالمالک‘ اویس ربانی‘ اشرف ملک‘ عذرہ جمیل اور وقار بھٹی بھی خیالات کا اظہار کررہے ہیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ کراچی کے 3کروڑ سے زاید عوام کی صحت کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں،سندھ حکومت سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بھرتیوں میں مصروف ہے،کراچی قبضہ مافیا کے پیچھے نہیں چل سکتا، عوام باشعور ہیں، خوف زدہ سیاسی عناصر اسی خوف سے اداروں پر قبضہ کرتے ہیں، 51سال سے کراچی میں ایک جنرل اسپتال عوام کو نہیں دیا گیا، 173ارب روپے کے بجٹ میں سندھ حکومت تعمیری کام کرنے کے بجائے بغیر میرٹ کے نوکریاں بانٹ رہی ہے، نا اہل افراد کو کرپشن کے لیے تیار کیا جا رہا ہے،صوبائی اور وفاقی حکومت جھوٹ کی بنیاد پر چل رہی ہے، عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے بیدار ہونا ہو گا، جس دن عوام جماعت اسلامی کو مینڈیٹ دیں گے، عوام کی تقدیر بدل جائے گی،جماعت اسلامی صحت کے حوالے سے چارٹر بنائے گی اور اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کرے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے تحت چلائی جانے والی ’’ری بلڈ کراچی‘‘ مہم کے سلسلے میں ’’صحت کی صورتحال، چیلنجز اور مسائل کا حل‘‘کے زیر عنوان مقامی ہوٹل میں منعقدہ پینل ڈسکشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پینل ڈسکشن سے معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر واسع شاکر،معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی،معروف گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر راحت قریشی، انڈس اسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر سیموئیل اشرف، سابق وائس چانسلر جے ایس ایم یو پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع، الخدمت کی نائلہ طارق،چلڈرن اسپتال کے ڈاکٹر ثاقب انصاری، معروف ماہردماغ و اعصاب ڈاکٹر عبد المالک،ڈاکٹر عبد اللہ متقی،اویس ربانی، اشرف ملک، ڈاکٹر عذرہ جمیل، ڈاکٹر اعجاز جدون، وقار بھٹی اور دیگرنے خطاب کیا۔پروگرام میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ حافظ نعیم الرحمن نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اگر معاشرے میں اخلاقی قدریں پروان چڑھیں اور اللہ پر توکل ہو تو بہت ساری بیماریوں سے بچاجا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کے ٹیکسوں سے ہی یہ وسائل فراہم کرتی ہے، مگر وہ اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتی، آج ہر شعبے میں مافیاز سرگرم ہیں، عوام کو صحت کے وسائل فراہم کرنے پر وفاقی حکومت تیار ہے نہ صوبائی حکومت، سندھ حکومت این جی اوز کے پیچھے چھپ رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ این جی اوز حکومت کا کام نہیں کر سکتی، حکومت کرپشن کرتی ہے جبکہ این جی اوز اپنا کام کرتی ہیں، انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے حق کودلانے کے لیے سیاسی مہم چلائی جائے، عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا جائے، ہر شعبے کی ری بلڈ کانفرنس منعقد کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہر شعبے کے ماہرین موجود ہیں، سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں بھی ہمارے ماہرین نے اپنے فرائض بہ حسن خوبی سر انجام دیے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی نرسری لوکل باڈیز اور طلبہ یونین کے انتخابات ہیں، مگر حکومت جمہوریت کی نرسریز پر پابندیاں عاید کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی قبضہ مافیا کے پیچھے نہیں چل سکتا، عوام باشعور ہیں، خوف زدہ سیاسی عناصر اسی خوف سے اداروں پر قبضہ کرتے ہیں، 51سال سے کراچی میں ایک جنرل اسپتال عوام کو نہیں دیا گیا، 173ارب روپے کے بجٹ میں سندھ حکومت تعمیری کام کرنے کے بجائے بغیر میرٹ کے نوکریاں بانٹ رہی ہے، نا اہل افراد کو کرپشن کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، شہر میں تعصب کی سیاست اور اس بنیاد پر بھرتیاں سراسر ظلم و زیادتی ہے،کراچی کے شہریوں کے ساتھ تعصب برتا جارہاہے، ایجوکیشن، ہیلتھ اور بلدیاتی اداروں میں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بھرتیاں کی جا رہی ہیں، اس تعصب کے خلاف مشترکہ آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم ہیلتھ کے حوالے سے چارٹر بنائیں گے اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ جب گیس، پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہو تو عوام پر اس کے کیا ذہنی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں، حکمرانوں کو اس کا قطعاً کوئی اندازہ نہیں ہے ،صوبائی اور وفاقی حکومت جھوٹ کی بنیاد پر چل رہی ہے، عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے بیدار ہونا ہو گا، جس دن عوام جماعت اسلامی کو مینڈیٹ دیں گے، عوام کی تقدیر بدل جائے گی۔ ڈاکٹر راحت قریشی نے کہا کہ لوگوں کے پاس صحت کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے، انہیں نہیں پتا کہ صحت کا کوئی مسئلہ ہو تو کہاں جانا ہے۔ڈاکٹر حکیم جوکھیونے کہا کہ ہمارا صحت کا سسٹم زبوں حالی کا شکار ہے، پبلک ہیلتھ کے حوالے سے ان گنت مسائل ہیں۔عاصم بشیر نے کہا کہ صحت کے مسائل کا گہرا تعلق غذائوں سے ہے بدقسمتی سے فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے کافی مسائل ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں فوڈ کے حوالے سے سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں ، غذائوں کی کوالٹی چیک نہیں کی جارہی ہے،فوڈ کوالٹی اور مانیٹرنگ کے حوالے سے کوئی کا م نہیں ہو رہا ہے ، نہ کراچی میں سوشل رجسٹری ہے اور نہ دیگر شہروں میں، عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اچھی صحت کے لیے ذہنی اورنفسیاتی صحت بھی ناگزیر ہے۔ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ صحت متاثر ہو تو اس کا اثر پورے جسم پر پڑتا ہے، کیلا ، لوبیا اور دہی سے سیروٹو نن بنتے ہیں جس سے ڈپریشن نہیں ہو تا، موڈ کا براہ راست تعلق فوڈ سے ہے، ہمیں یہ پتا ہی نہیں کہ کراچی میں کتنے نفسیاتی مریض ہیں، ایک جامع سروے ہونا چاہیے، صحت کا تعلق ہمارے رویے سے بھی ہے، جناح اسپتال میں 690مریض آتے ہیں مگر اس تناسب سے ڈاکٹرز موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرتی بیماریاں مسلسل بڑھ رہی ہیں، اگر ہم اپنا کام عبادت سمجھ کر کریں تو کئی معاشرتی مسائل ختم ہو سکتے ہیں،ہمارا صحت کا شعبہ 9بجے سے5بجے تک آپریٹ ہو رہا ہے اس کے بعد ایمرجنسی ہوتی ہے تو عوام کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے حوالے سے کئی مسائل نیند کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں، صحت مند معاشرے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، این جی اوز اور صحافیوں کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ کراچی کو گزشتہ 30سا ل سے نظر انداز کیاجا رہا ہے ایسی صورتحال میں جماعت اسلامی کی ری بلڈ کراچی مہم قابل تعریف ہے، انہوں نے کہا کہ کراچی کی10فیصد آبادی دماغی امراض کا شکار ہے، آبادی کے ایک فیصد افراد کو مرگی لاحق ہے، 70سے 100لوگ کراچی میں فالج کا شکار ہوجاتے ہیں، ریاست کا بنیادی کام صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے، کراچی میں 8سرکاری اسپتال ہیں مگر کہیں بھی اسٹیٹ آف دی آرٹ صورتحال نہیں ہے نہ ہی ذہنی علاج ہو رہا ہے، کراچی میں ذہنی امراض کے علاج کا معقول بندو بست نہیں ہے ، نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر ملازمت نہ ملنا بھی نوجوانوں میں ذہنی امراض کو فروغ دے رہا ہے۔ڈاکٹر سیموئیل اشرف نے کہا کہ بچوں کا کینسر بھی اب عام ہوتا جارہا ہے، کینسر کا فوڈ کوالٹی سے بڑا گہرا تعلق ہے، کینسر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا علاج مریض کی استطاعت سے باہر ہو تا ہے، اس کے علاوہ ہمارے پاس ریڈیو تھراپی کی اتنی مشینیں نہیں ہیں جتنے مریض ہیں۔ ریاست نہ صحت کی پالیسی بناتی ہے نہ وسائل فراہم کرتی ہے اور نہ اس کے اندر عزم ہے کہ صحت کے مسائل حل ہوں، اچھی حکومت کے قیام سے ہی صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے، ملک میں صحت کے حوالے سے این جی اوز کا کردار نا قابل فراموش ہے، ایس آئی یوٹی، انڈس، الخدمت کی سرگرمیاں قابل فخر ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام این جی اوز مل کر کا م کریں۔ اچھے اورٹرینڈہیومن ریسورس کی ملک میں کمی ہے۔محمدوقار بھٹی نے کہا کہ حکومت کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی صحت کے شعبوں کو نظر انداز کیا ہے ۔ شہر میں ہیلتھ کا انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے، صحت کے مسائل کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس ہونی چاہیے۔ڈاکٹر نائلہ طارق نے کہا کہ ہمارے یہاں اسٹینڈرڈ کی کوئی پالیسی نہیں ہے، کہیں کووڈ کاٹیسٹ ہزار روپے میں ہو رہا ہے،کہیں کوئی 10 ہزار میں کررہا ہے،ڈائیگنوسٹک کے شعبے میں کوالٹی کا فقدان ہے۔ اشرف ملک نے کہا کہ یہ بات تو طے ہے کہ صحت حکومت کی ذمے داری ہے، پاکستان میں ہر سال 50ہزار سے ایک لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بیماریوں کا علاج اپنی جیب سے کرتے ہیں، صحت کی مد میں حکومت خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہے ، صوبے کی صورتحال وفاق سے بھی بدتر ہے، صحت کے نظام کی بہتری کے لیے پرائمری ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر عذرا جمیل نے کہا کہ ملک میں اتائیت بھی فروغ پارہی ہے، صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے مڈوائف سسٹم کو مضبوط بنانا ہو گا۔پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع نے کہا کہ بنیادی چیلنج یہ ہے کہ ہمارے پاس عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے وسائل نہیں۔ علاج کا آغاز ہی پر یوینشن سے ہو تا ہے جو کہ نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مرض اور مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اگر ہم پریوینشن پر توجہ دیں گے تو آدھی بیماری ایسے ہی ختم ہو جائے گی، ہمارے پاس اس وقت جو وسائل ہیں وہ انڈر پریشر ہیں، کراچی میں 4ہزار ڈاکٹرز بنتے ہیں، 50فیصد بچیاں عملی زندگی میں پریکٹس نہیں کرتیں، صحت کی پالیسی سازوہ ہیں جن کو معلوم ہی نہیں کہ صحت کے مسائل کیا ہیں، صحت کے مسائل کے حل کے لیے حکومت کے پاس سیاسی آمادگی نہیں ہے۔ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ ہم گزشتہ 20سال سے تھیلے سیمیا پریوینشن پر کام کر رہے ہیں، ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تھیلے سیمیاکے مریض بچوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں ہر سال 5سے 6ہزار بچے تھیلے سیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں، شادی سے قبل تھیلے سیمیا کا ٹیسٹ کرا کے ہی اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر منہاج قدوائی نے کہا کہ 2011ء میں صحت کا شعبہ صوبوں کے حوالے کر دیا گیا مگر ہیلتھ ورک کو اس حوالے سے ٹرینڈ نہیں کیاگیا، کراچی کے ہیلتھ اور ایجوکیشن کے مسائل کے حل کے لیے کور کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے۔

Comments