عثمانیوں کی عظیم جدوجہد کا ایک کردار کوت العمارہ کے فاتح خلیل پاشا ۔۔۔

 





خلیل پاشا وہ عظیم کمانڈر ہیں جنہوں نے کبھی روس کے محاذ پر ، کبھی طرابلس کے صحراء میں تو کبھی عراق کی وادیوں میں سلطنت عثمانیہ کے دفاع کا فریضہ سرانجام دیا۔ ۔۔۔۔سلطنت عثمانیہ کی آخری فتح (کوت العمارہ) بھی خلیل پاشا کی مرہون منت ہے جہاں پر انہوں نے برطانیہ کا 300 سالہ غرور خاک میں ملا دیا تھا۔

ترک ٹی وی نے اس حوالے سے ایک قسط وار ڈرامہ ‘مھیمت’ بھی بنایا ہے جس میں خلیل پاشا کی جدوجہد اور کامیابی کی شاندار عکاسی کی گئی ہے

خلیل کوت (1881 - 20 اگست 1957) عثمانی نژاد ترک علاقائی گورنر اور فوجی کمانڈر تھا۔خلیل پاشا انور پاشا کے ماموں تھے جو پہلی جنگ عظیم کے دوران وزیر جنگ تھے۔ وہ کوت کے محاصرے میں برطانوی افواج کے خلاف اپنی فتح کے لئے مشہور ہے۔

کوت العمارہ تاریخی جنگ جیتنے والے سلطنت عثمانیہ کے ہیروز کی اصلی تصویر دیکھیں۔

 


نوٹ۔ اوپر والی فوٹو حقیقت ہے نیچے دو فوٹو کوت العمارہ ڈرامے کے ان ہیروز کے کردار کا ہے۔

 


یہ تاریخی فوٹو اس وقت لیا گیا جب برطانیہ نے شکشت تسلیم کر کے سلطنت عثمانیہ کو شہر حوالے کر دیا اور انگریزوں کے افسر کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے کمانڈر خلیل پاشا نے کہا کہ جاتے ہوے دوستانہ تصویر بناتے جایں۔

 

1905 میں فوجی اکیڈمی (اسٹاف کالج) قسطنطنیہ سےایک ممتاز کپتان(ترکی:ممتاز یوزباشی)کے طور پر گریجویشن کی۔



فارغ التحصیل ہونے کے بعد تین سال تک اس نے مقدونیہ میں تیسری فوج میں خدمات سر انجام دیں۔ جب سن 1908 میں آئینی دور بحال ہوا تو حکومت نے اسے شاہ کے خلاف عدم اعتمادکو منظم کرنے کے لئے ایران بھیجا جسے فارس نے آئینی انقلاب کے دوران منتخب کیا تھا۔ 13 اپریل 1909 کی فوجی بغاوت (1909) کے بعد ، اسے واپس بلالیا گیا اور وہ شاہی محافظوںکا کماندار بن گیا۔



ابتدائی طور پر وہ اس علاقے میں متحرک پیادہ پولیس کی کمان کرنے کے لئے سالونیکا میں تھا اور بلقان جنگ سے قبل باغیوں اور ڈاکوؤں سے لڑنے میں مصروف تھا۔ انہوں نے بلقان جنگ کے دوران ایک دستے کی بھی کمان کی۔ وہ 1911 میں اٹلی - ترکی جنگ کے دوران اطالوی حملے کے خلاف دفاعی انتظام کرنے کے لئے لیبیا (طرابلس) بھیجے گئے نوجوان افسران کےگروپ میں شامل تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے ، وہ وان میں پیادہ پولیس کے دستےکے کماندار کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔

جنگ عظیم اول



جب ترکی عالمی جنگ میں داخل ہوا تھا ، تب وہ قسطنطنیہ میں ہائی کمان میں کام کر رہا تھا۔ بعد میں انہوں نے روسی سرحد پر تیسری عثمانی فوج میں ڈویژنل کماندار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ، اس طرح روسیوں سے وابستہ آرمینیائیوں کے خلاف بھی کارروائیوں میں ملوث رہے۔ بعد میں ، وہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ،میسوپوٹیمیا ، اب عراق میں عثمانی افواج کے سینئر کمانداروں میں سے ایک تھا۔



1915 میں ، وہ جنوبی عراق میں کوت پر قبضہ کرنے،جنرل ٹاؤنشینڈ ، 481 افسران اور 13،300 فوجی قیدیوں کوگرفتارکرنے والی افواج کا کمانڈر تھا۔ اس کامیاب مہم کے بعد ، انھیں ترقی دے کر جنرل بنا دیا گیا۔ وہ بغداد صوبہ (موجودہ عراق اور کویت مشترکہ) کا گورنر مقرر ہوا تھا اور 19 اپریل 1916 میں جنگ کے خاتمے تک چھٹی فوج کے کماندار بھی رہے تھے۔



- 19 اپریل 1916 کے عراق میں آپریشنل -کمان کا گھیراؤ اور 143 دن کا محاصرہ، اور بالآخر 29 اپریل 1916 کو برطانوی مہم فوجوں کا ہتھیار ڈالنا۔ان کی حکمت عملی کی سب سے بڑی کامیابی تھی ۔ تاہم ، اس کامیابی کا سہرا اس کےسینیئر آفیسر اور پیشرو چھٹی عثمانی فوج کے کماندار ، جرمن فیلڈ مارشل کولمار فریئرر وان ڈیر گولٹز کو بھی دیا جاتا ہے ، جو 10 دن پہلے ہی فوت ہوچکا تھا۔



1917 میں ، خلیل پاشا کو وزیر دفاع انور پاشا نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی کچھ فوجیں فارس مہم کیلئے روانہ کریں یہ وہاں کی برطانوی حمایت یافتہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ناکام کوشش تھی۔ اس کی وجہ سےان کی بغداد کا دفاع کرنے کی صلاحیت محدود ہو گئی اور یہ سقوط بغداد کا باعث بنا ۔ اور عراق کے محاذ پر تازہ برطانوی افواج نے قبضہ کر لیا ۔

بعد کے سال



برطانوی قابض فوج نےانہیں قسطنطنیہ میں جیل بھیج دیا تھا ، لیکن وہ فرار ہوکر ماسکو فرار ہوگیا۔ انقرہ حکومت اور سوویت قیادت کے مابین طے شدہ معاہدہ ماسکو (1921) کی شرائط کے مطابق ، وہ روس کی طرف سےترکی کو باتومی شہر روس کے حوالے کرنے پرمعاوضے کے طور پرلینن کا بھیجا گیاخام سونالے کر انقرہ پہنچا۔ چونکہ اس وقت انہیں ترکی میں انہیں قیام کی اجازت نہیں تھی ، لہذا وہ پہلے ماسکو اور پھر برلن چلے گئے ۔



انہیں 1923 میں جمہوریہ ترکی کے اعلان کے بعد ترکی واپس آنےکی اجازت ملی ۔ ان کا انتقال 1957 میں استنبول میں ہوا ۔





کوت العمارہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع ایک قصبہ ہے جو دجلہ و شط العرب کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ بصرہ سے 350 اور بغداد سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران 1915ء میں یہاں سلطنت عثمانیہ اور سلطنت برطانیہ کے درمیان ایک زبردست جنگ لڑی گئی جو تاریخ میں محاصرۂ کوت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اُس وقت قصبے کی آبادی 6 ہزار 500 تھی جبکہ موجودہ آبادی 4 لاکھ ہے۔

اس جنگ جیتنے کا سہرہ غازی لیفٹینٹ  علی جو ایمانی طاقت جزبہ شہادت وطن کی محبت میں سرشار بہت تیز زہن جاسوس تھا جو دشمن کے ہیڈ کواٹر سے معلومات نکلوا لیتا تھا اس نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر پہلے چھوٹے چھوٹے حملے کر کہ انگریزوں کی کمر توڑی پھر شہر کے اندر سے چھپ کر انگریزوں کو کمزور کرتا رہا اور کمانڈر خلیل پاشا شہر کے باہر محاصرہ کیا ہوا تھا انگریزوں کی باہر سے آنے والی امداد اور فوجی تباہ کر ڈالے اس طرح جب انگریزوں نے دیکھا کہ ہم بھوک سے مرجایں گے تو کمانڈر خلیل پاشا سے ایگریمنٹ کیا ہم شہر آپ کے حوالے کرتے ہیں اور ہمیں واپس برطانیہ جانے دیا جاے اس طرح تاریخی فتح حاصل ہوی الحمدﷲ.

لیفٹینٹ  علی کا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ہزاروں فوجیوں کو جہنم واصل کر کے فتح حاصل کرنی یہ ان کی ایمان کی طاقت تھی۔


Comments