سینیٹ انتخابات کا ’’تماشا‘‘۔ - سلمان عابد -

 



ان انتخابات کو بنیاد بنا کر داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر ہماری سیاسی ساکھ پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں

سینیٹ کے ارکان سمیت چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے سینیٹ انتخابات تھے جن میں بے پناہ سیاسی تنائو میں شدت دیکھنے کو ملی۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں یہ جنگ ذاتیات پر مبنی جنگ بن گئی تھی جس سے سیاسی ماحول میں خاصی تلخی دیکھنے کو ملی۔ ان انتخابات کے بعد بھی حسبِ روایت انتخابی نتائج قبول نہ کرنے کی جو ہماری سیاسی تاریخ ہے، وہی دیکھنے کو ملی۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے بقول چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں ان کے امیدواروں کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی گٹھ جوڑ نے ہرایا ہے۔ اسی نکتے کو بنیاد بناکر پی ڈی ایم چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کو چیلنج کررہی ہے۔
سینیٹ کے موجودہ انتخابات ہر لحاظ سے پاکستان کی سیاست، جمہوریت، قانون اور ایک مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات کو بنیاد بنا کر داخلی و خارجی دونوں محاذوں پر ہماری سیاسی ساکھ پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان انتخابات کی سیاسی ساکھ پر سب سے زیادہ سوالات خود وزیراعظم عمران خان نے ہر فورم پر اٹھائے، اور ان کے بقول سینیٹ کے انتخاب کو سیاسی منڈی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ انتخابات میں کرپشن، اقرباپروری، پیسوں کے بے دریغ استعمال اور ووٹوں کی خرید و فروخت جیسے معاملات کی وجہ سے پہلے ہی ہمارا مجموعی انتخابی نظام اپنی ساکھ کھوبیٹھا ہے۔ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں جن میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی جماعتیں شامل ہیں، سینیٹ انتخابات کے موجودہ طریقہ کار کو چیلنج کرتی رہی ہیں۔ ان کے بقول شفافیت کے لیے خفیہ بیلٹ کے مقابلے میں اوپن بیلٹ کے تحت انتخاب ہونا چاہیے۔


وزیراعظم عمران خان نے اوپن بیلٹ کی حمایت کے لیے حزبِ اختلاف سے رجوع کیا، مگر بداعتمادی کی وجہ سے وہ اس اہم معاملے میں سیاسی حمایت حاصل نہیں کرسکے۔ حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور ایک صدارتی آرڈیننس جو عدالتی فیصلے سے مشروط تھا، جاری کیا۔ مگر کیونکہ سپریم کورٹ آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں رکھتی، اس لیے اُس نے یہ معاملہ دوبارہ حکومت اور پارلیمنٹ کو ہی بھیج دیا کہ وہ خود آئینی ترمیم کا راستہ اختیار کریں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو تجویز کیا کہ وہ ان انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے جو بھی قدم اٹھانا چاہے، اٹھا سکتا ہے، کیونکہ وہ ایک خودمختار ادارہ ہے اور انتخابات کی شفافیت اس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے موجودہ انتخابات میں وقت کی کمی کی وجہ سے وہ کچھ نہ کیا جو عدالت نے اُسے تجویز کیا، یا حکومت ووٹوں کی سیکریسی کے بارے میں کرنا چاہتی تھی۔
اعلیٰ اور بڑی ملکی سیاسی قیادت اور ملک کی اعلیٰ سیاسی اشرافیہ یا اہلِ دانش کے بقول سینیٹ جیسے ادارے میں انتخابات کے نام پر میلہ منڈی جمہوریت کی توہین ہے۔ دوسرے ملکوں میں سینیٹ کے انتخابات کا جو طریقہ ہے وہ ایک اعلیٰ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے، جبکہ ہمارے جیسے معاشرے جہاں جمہوری اقدار پر کئی طرح کے سنجیدہ سوالات ہیں، وہاں اخلاقی بنیادوں پر جمہوریت کو چلانا آسان کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ایوانِ بالا اپنا وقار کھوچکا ہے۔ حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود خفیہ رائے شماری کا طریقۂ کار تبدیل کروانے اور اسمبلی میں نمائندگی کے اعتبار سے سینیٹ کی نشستوں کی تقسیم کا طریقہ تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں حزبِ اختلاف خفیہ رائے شماری اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں اوپن بیلٹ کی حمایت کرتی نظر آئی، جس سے اُس کا سیاسی تضاد نمایاں ہوتا ہے۔


سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر جیت، اور اس کے بعد اُن کی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں شکست یا ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر مولانا غفور حیدری کی شکست ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ان غلطیوں کو زیادہ شدت سے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی قوتیں خود ہی اس پورے سیاسی نظام کو تماشا بنا رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کا مؤقف ہے کہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اُس کو عددی برتری حاصل تھی جسے اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔ لیکن اسی اصول کے تحت خود یوسف رضا گیلانی کی جیت کیسے ہوئی اس کا جواب بھی پی ڈی ایم کو دینا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ کہنا کہ جو مخالف ووٹ ہمیں ملے وہ ضمیر کی آواز ہیں، اور جو ہمارے مخالف کو ملے وہ خرید وفروخت ہے، کھلا تضاد ہے۔ سیاسی نظام کی بنیادی خوبی سیاسی ساکھ اور شفافیت پر مبنی اس کا نظام ہوتا ہے۔ اگر یہ نظام شفافیت کھو دے تو اس کے نتیجے میں بدعنوانی پر مبنی سیاسی نظام جنم لیتا ہے جس کا سامنا اِس وقت پاکستان کی سیاست، جمہوریت اور ریاست کو ہے۔


سینیٹ کے حالیہ انتخابات سے ہماری ریاست، حکومت، سیاسی جماعتوں، اہلِ دانش کے بڑے طبقے اور رائے عامہ تشکیل دینے والے اداروں کو بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔ سینیٹ سمیت انتخابی اصلاحات سیاسی، انتظامی، قانونی اور اخلاقی تبدیلیوں کا تقاضا کرتی ہیں۔ مسئلہ محض ارکانِ سینیٹ کا نہیں بلکہ اُس مجموعی سیاسی قیادت کا ہے جو خود جرائم پر مبنی ایسے اقدامات کی حمایت کرتی نظر آتی ہے جو جمہوریت، سیاست اور قانون کی حکمرانی کے لیے تباہ کن ہیں۔ اگر واقعی ہم سینیٹ جیسے اہم ادارے کی سیاسی ساکھ اور شفافیت کو بحال کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے غیر معمولی صورتِ حال میں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے سیاسی نظام کو جہاں باہمی اتفاقِ رائے سے آگے بڑھانا ہوگا وہیں نظام کی اصلاح کے لیے کئی کڑوی گولیاں بھی نگلنی ہوں گی۔
وقت آگیا ہے کہ ہم سینیٹ جیسے ادارے کی اصلاح کے لیے چند بڑے اقدامات سے متعلق سوچیں: ۔
(1)
حکومت اور حزبِ اختلاف مل کر خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ کا راستہ اختیار کریں۔
(2)
اگر متناسب نمائندگی کا اصول اختیار کرنا ہے تو پھر کسی بھی جماعت کو صوبائی سطح پر ملنے والی نشستوں کے تناسب سے سینیٹ میں نشستیں ملنی چاہئیں۔


(3)
وقت آگیا ہے کہ سنجیدگی سے سینیٹ کے براہِ راست انتخاب پر بھی غور وفکر کرنا چاہیے۔
(4)
سینیٹ کو زیادہ سے زیادہ بااختیار ادارہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ہمارے سیاسی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کا سبب بن سکے۔
(5)
یہ جوطریقہ سیاسی جماعتوں نے اختیار کیا ہوا ہے کہ کسی بھی صوبے کی نمائندگی کسی دوسرے صوبے کے فرد کو پسند کی بنیاد پر دے دی جاتی ہے اس پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے۔
(6)
جو لوگ یا جماعتیں براہِ راست اس سیاسی نظام میں ووٹوں کی خرید وفروخت میں ملوث پائے جاتے ہوں اُن پر سیاست کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کرنے ہوں گے۔
(7)
سیاسی جماعتوں کے ایکٹ سمیت الیکشن ایکٹ 2017ء کو زیادہ سے زیادہ مضبوط، مربوط اور شفاف بنانا ہوگا جو سخت نگرانی کے ساتھ سیاست میں موجود خرابیوں پر بلاتفریق قانونی اقدام کرسکے۔
(8)
جو ارکانِ سینیٹ اپنی پارٹی پالیسی سے ہٹ کر اپنا ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ کھل کر اس کا اظہار کریں، نہ کہ پسِ پردہ کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر اپنی سیاسی قیمت لگائیں۔
یہ مسئلہ کسی ایک جماعت کا نہیں ہونا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں، آئینی و قانونی اداروں، علمی و فکری دانش وروں سمیت سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دنیا کے تجربات سے سیکھ کر اپنے نظام کی اصلاح کے لیے خود آگے بڑھیں اور اس نظام میں فیصلہ ساز افراد یا اداروں پر دبائو بڑھائیں کہ وہ شفافیت پر مبنی اصلاحات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اس تناظر میں پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کو بنیاد بناکر پہل کرنی چاہیے، اور حزبِ اختلاف بھی اس اہم و سنجیدہ معاملے میں وہی کچھ کرے جو سیاست، جمہوریت اورملک کے مفاد میں ہو۔



Comments