جماعت اسلامی کی چیف جسٹس سے کراچی میں ازسر نو مردم شماری کا حکم دینے کی اپیل

 

 امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ کراچی کے عوام ڈیڑھ کروڑ نہیں 3کروڑہیں ، ٹوٹا پھوٹا اور تباہ حال کراچی بھی پورے ملک کو 70 فیصد ریونیو مہیا کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ،کراچی منی پاکستان ہے اگر کراچی ترقی کرے گا تو پورا ملک ترقی کرے گا ۔ ایک طرف گورنرسندھ کہتے ہیں کہ ماضی میں کراچی کی آبادی صحیح نہیں گنی گئی لیکن دوسری جانب وفاقی کابینہ میں 2017 ء کی مردم شماری کی منظوری کے فیصلے پر اتفاق کر لیا گیا ،جب شہر کی مردم شماری ہی درست نہ ہو تو اس کا انفرااسٹرکچر کس طرح ٹھیک ہو سکتا ہے ، ایم کیو ایم مردم شماری کے حوالے سے صرف زبانی جمع خرچ کر رہی ہے ، پیپلز پارٹی بھی کراچی کی آبادی کے حوالے سے دو ٹوک اور واضح موقف اختیار نہیں کررہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر دوبارہ مردم شماری کرائی جائے ،نئی حلقہ بندیاں قائم ہوں اور بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا جائے،ہم چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کراچی میں ازسرنو مردم شماری کے احکامات جاری کریں۔ آئندہ دنوں میں شہر بھر میں مزید10 مقامات پر مظاہرے اور دھرنے ہوں گے جبکہ شارع فیصل پر قائد آباد تا میٹروپول’’ حقوق کراچی‘‘ کے لیے تاریخی ریلی نکالی جائے گی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی ضلع ائر پورٹ کے تحت درست مردم شماری ، بااختیار شہری حکومت،فوری بلدیاتی انتخابات اورشہر کے گمبھیر مسائل کے حل کے سلسلے میں شارع فیصل اسٹار گیٹ ائر پورٹ پر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مظاہرے سے امیر جماعت اسلامی ضلع ائر پورٹ توفیق الدین صدیقی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔ شرکا نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر تحریر تھا ’’ حق دو کراچی کو ، پورا ٹیکس اور آدھی گنتی نامنظور نامنظور،3 کروڑ عوام کا نعرہ مردم شماری دوبارہ، وفاق کے ارادے چکناچور آدھی گنتی نامنظور، وفاق کا خواب چکنا چور آدھی گنتی نامنظور ، لولی پاپ نہیں بااختیار شہری حکومت، کوٹا سسٹم ختم کرو، پورا ٹیکس اور آدھی گنتی نامنظور ، کراچی کے نوجوان بیروزگار کیوں؟، اتحادی جماعتوں کی سیاست بازی نہیں چلے گی ، کراچی کا مطالبہ ،مردم شماری دوبارہ ‘‘۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کو پیکجز کی خیرات نہیں اس کا حق چاہیے ، اعلانات نہیں اقدامات چاہیے ، وفاقی حکومت کی جانب سے پیٹرول ، ایل پی جی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ قابل مذمت ہے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی تعصبات کو ختم کر کے حق اور انصاف کے ساتھ ملازمتیں مہیا کرے ، اس وقت ملک میں چینی مافیا، آٹا مافیا، میڈیکل مافیا اور بجلی مافیا موجود ہے ، سال 2020ء کے آخر میں وفاقی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کو نئے سال کا تحفہ دیا ہے ، حکمران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے غلام بنے ہوئے ہیں قرض حاصل کرنے کے لیے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سال 2020ء رخصت ہوگیا ہے ، نئے سال میں بھی حکمرانوں کے موجودہ رویے کے باعث مسائل حل ہونے کی امید نظر نہیں آتی ، ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں گٹر ابل رہے ہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام موجود نہیں ہے ، شہر میں اس وقت 28 لاکھ موٹرسائیکل ہیں اور بہت بڑی تعداد میں شہری کاروں میں سفر کر رہے ہیں اگر شہریوں کو ٹرانسپورٹ کا نظام دے دیا جائے تو اس کے نتیجے میں ٹریفک کا مسئلہ بآسانی حل ہو جائے گا ، ایم کیو ایم نے 2 ماہ قبل پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ایس آر او کے ذریعے کوٹا سسٹم میں اضافہ کیا، پی ٹی آئی کی کراچی میں 14اور ایم کیو ایم کی 4 نشستیں ہیں ، ایم کیو ایم نے مردم شماری کے مسئلے پر صرف تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت کو صرف چھوڑنے پر سوچ رہے ہیں کراچی کے عوام کو ایسے سیاستدانوں کی ضرورت نہیں ہے ،انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کراچی میں کے سی آر اور کے فور منصوبہ بنانا چاہتے ہیں، ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے لیے ہے یا3 کروڑ لوگوں کے لیے ؟ دنیا بھر میں پروجیکٹس بنانے کے لیے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے لیکن کراچی کے عوام کو پورا گنا ہی نہیں گیا تو پھر یہ منصوبے کیسے درست ہو سکتے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے شہری انتخابات نہ کرانے پر اتفاق کیا ہوا ہے ، انہوں نے کہا کہ سندھ میں لوکل باڈیز کا غاصبانہ ایکٹ ختم ہونا چاہیے ، 6 ہزار سرکاری اسامیوں میں سے کراچی کے لیے صرف 343 ملازمتیں کراچی کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے ، سندھ میں پیپلز پارٹی تعصب ااور لسانیت کو فروغ دے رہی ہے ، ہم سب کو متحد کرنا چاہتے ہیں جماعت اسلامی کی ’’کراچی کو حق دو‘‘ تحریک کراچی میں رہنے والے تمام زبان بولنے والوں کی تحریک ہے ، توفیق الدین صدیقی نے کہا کہ شہر کراچی کے ساتھ طویل عرصے سے زیادتیاں ہورہی ہیں، شہر میں ٹرانسپورٹ کا عملاً کوئی نظام تک موجود نہیں ہے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ،سیوریج کا نظام درہم برہم ہے ،کراچی کے عوام پینے کے صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ کراچی کے عوام پر ایک بار پھر کوٹا سسٹم نافذ کرکے نوجوانوں کو نوکریوں سے محروم کردیا گیا ہے ،عوام مردم شماری کو مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ازسرنو مردم شماری کی جائے۔جماعت اسلامی کراچی کے عوام کا مقدمہ لڑ رہی ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کے عوام کو اس کا حق دیا جائے اور کراچی کے عوا م کو صحیح گنا جائے#۔



Comments