آئین اور معاشرتی رویّوں کے اعتبار سے کیا امریکہ واقعی آزاد ہے؟ شجاع ملک بی بی سی اردو سروس

 


امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ میں صدارتی انتخاب میں اب چند روز ہی رہ گئے ہیں۔ امریکی سیاست میں ایک روایت ہے، اقتدار کی پرامن منتقلی۔ کوئی ہارے یا جیتے، وہاں صدارتی انتخاب کے تناظر میں بغاوتیں نہیں ہوتیں۔ ہاں عدالتیں انتخاب کے نتائج تعین کرنے میں ملوث ہو سکتی ہیں یا نتائج میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ مگر امریکی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر ایک صدر نے انتخاب سے قبل اقتدار کی پرامن منتقلی کی گارنٹی دینے سے انکار کیا ہے۔

حال ہی میں امریکی میڈیا بہت سے لوگوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایسا نہ کر کے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کیا ہے۔ امریکہ میں ریاستی ادارے کافی مضبوط ہیں اور اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ ملک میں انتخاب کے نتائج کے بعد بغاوت ہو جائے مگر جس بات پر بہت سے لوگ اتفاق کریں گے وہ یہ ہے کہ اگر صدر ٹرمپ ہارتے ہیں تو ملک میں ان کی ووٹر بیس پرتشدد مظاہرے کر سکتی ہے۔

ان ممکنہ مظاہروں میں ہو سکتا ہے کہ ہم عام شہریوں کے ہاتھوں میں اتنا اسلحہ دیکھیں جو شاید کسی اور مغربی ترقی یافتہ ملک کے شہریوں کے پاس نہ ہو۔ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عام شہریوں کے پاس کل آبادی سے زیادہ پستولیں اور بندوقیں ہیں۔

مگر ہتھیار رکھنے کا حق امریکی آئین میں محفوظ ہے۔ کم از کم اب تک اس کی عدالتی تشریح میں تو یہی کہا گیا ہے کہ آمریکی آئین کی دوسری ترمیم اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ کئی مقدموں اور برسوں کی کوشش کے باوجود عام شہریوں کے پاس بڑی تعداد میں ہتھیار ہونے کے مخالفین اس کو تبدیل نہیں کر سکے ہیں۔

امریکی آئین میں اسی طرح کے چند اور حقوق اور عقائد طے کر دیے گئے ہیں جو کی امریکی ریاست کی بنیاد ہیں، امریکی ثقافت کے اہم ترین جز ہیں، اور امریکی حکومت کے ستون ہیں۔ یہ روایات، حقوق اور عقائد جو کہ آج سے دو سوسال قبل امریکہ کے بانیوں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے تناظر میں امریکی آئین میں لکھ ڈالے تھے، آج امریکہ میں خواتین کے اسقاطِ حمل کے حق سے لے کر سرمایہ دارانہ نظام کے مسائل کو حل کرنے، ہر بحث میں بنیادی ہوتے ہیں۔ یہ ایسے خیالات ہیں جنھیں امریکی سیاسیات کے طلبہ جیسے مذہب مانتے ہیں۔


لائف، لبرٹی، اینڈ پرسوٹ آف ہیپینس‘

امریکی آئین سے قبل امریکہ کی پہلی 13 کولونیوں نے جب برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا تو اسے ’ڈیکلریشن آف انڈیپنڈنس‘ میں شائع کیا۔ اس اعلامیے میں امریکیوں نے بتایا کہ وہ کیسی حکومت چاہتے ہیں اور اس کے پہلے الفاظ یہ ہیں:

ہم ان سچائیوں کو خود واضح مانتے ہیں کہ تمام مردوں کو برابر بنایا گیا ہے، کہ ان کو بنانے والے نے کچھ ایسے حقوق دیے ہیں جو ان سے لیے نہیں جا سکتے، جن میں زندگی، آزادی، اور خوشی حاصل کرنے کی کاوش شامل ہیں۔ اور ان حقوق کی حفاظت کے لیے بنائی گئی حکومتوں کے جائز اختیارات محکوموں کی رضامندی سے آتے ہیں۔ جب بھی کسی قسم کی حکومت ان کی تباہی کی طرف جائے تو یہ لوگوں کا حق ہے کہ وہ اسے تبدیل یا ختم کر دیں اور نیک نئی حکومت استوار کریں اس کی بنیاد ان اصولوں پر رکھیں اور اس میں اختیار ایسے تقسیم ہوں جو انھیں حفاظت اور خوشی دے۔

یعنی یہاں مساوات، آزادی، اور خوشی حاصل کرنے کی کاوش کو بنیادی حقوق میں محفوظ کر دیا گیا، قانونی حکومت کو لوگوں کی رضا مندی میں قید کر دیا گیا، اور حکومتی اختیارات کو عوام کے تحفظ اور خوشی کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔

مگر کیا امریکہ میں مساوات ہے؟

جب امریکہ کی بنیاد رکھی گئی تو وہاں یہ حقوق صرف سفید فام مردوں کے پاس تھے۔ بلکہ صرف سفید فام زمیندار مردوں کے پاس تھے۔ اگر آپ کے پاس زمین نہیں تھی تو آپ کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ سیاہ فام افراد کو غلام بنایا جا سکتا تھا اور ان کی خرید و فروخت بھیر بکریوں کی طرح کی جاتی تھی۔ عورتوں کو ووٹ کا حق سوا صدی کے بعد 1920 میں 19ویں ترمیم کے ذریعے ملا۔

آج شاید حالات وہ نہیں ہیں مگر پھر آج بھی امریکہ میں اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سیاہ فام افراد آیے روز پولیس کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں برابر کام کی کم اجرت ملتی ہے۔ نسل پرستی، پدر شاہی چاہے آئین میں ختم کر دی گئی ہے، معاشرے سے ختم نہیں ہوئی ہے۔ ملک کے پہلے غیر سفید فام صدر کو آنے میں دو صدیوں سے زیادہ لگ گئے اور خاتون صدر تو ابھی بھی ایک خواب ہے۔

لبرٹی جب تک ریاست کی مرضی ہو

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی آئین کی چھٹی ترمیم کے مطابق کسی بھی شہری کو حبسِ بے جا میں نہیں رکھا جا سکتا اور ہر کسی کو ایک تیزی سے مقدمے کا حق ہے۔ پولیس بغیر وارنٹ کے کسی کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتی۔ ہر شہری کو الزام کی صورت میں مقدمے حق حاصل ہے۔ یہ سب آزادی شاید امریکہ کے بانیوں نے برطانوی بادشاہوں کی من مرضی جیسی چیزوں کو رکونے کے لیے رکھی تھی۔

مگر امریکی تاریخ میں کچھ ایسے باب اور ایسے سوالات ہیں جہاں اس لبرٹی کے اصول کو (وکالتی داؤ پیچ کے ذریعے) توڑنا اگر نہیں گیا تو کم از کم اس کو ٹھیس ضرور پہنچی ہے۔

حالیہ مثال لیں تو دہشتگردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں امریکہ نے گوتانامو بے میں ایک جیل بنائی جہاں نہ صرف دشمن قیدوں کو رکھا ہے بلکہ امریکی شہریوں کو بھی قید کیا ہے۔ کئی کئی سال ان ملزمان کو مقدمے کا حق نہیں دیا گیا۔ ان کے خاندانوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے پیاروں کا جرم کیا ہے۔

اس کی ایک اور مثال خواتین کے حقوق سے منسلک ہے۔ ویسے تو ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خوشی کی کاوش کرے، اور اپنی مرضی کے فیصلے کرے۔ مگر جب معاملہ اسقاطِ حمل کا آتا ہے تو امریکہ میں بہت سی ریاستوں میں یہ غیر قانونی ہے۔ یہاں ریاست عورت کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے جسم کے بارے میں ریاستی مرضی کے مطابق فیصلہ کرے۔ امریکہ میں اس مباحثے میں کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ قدامت پسند ماں کے پیٹ میں بچے کے حقوق کا تحفظ کرنا تو جانتے ہیں مگر سڑکوں پر آیے روز پولیس کے ہاتھوں مرتے سیاہ فام نوجوان انھیں نظر نہیں آتے۔

آزادیِ اظہارِ رائے اور آزادیِ مذہب

امریکہ پر اس معاملے میں سوال اٹھانا مشکل ہے۔ آئین کی پہلی ترمیم میں آزادیِ اظہارِ رائے اور مذہب موجود ہے۔ نہ صرف آئین میں بلکہ حقیقی طور پر امریکہ میں کسی کو بھی اجازت ہے کہ وہ کچھ بھی مانے، کسی بھی عقیدے کو اپنائے اور کسی بھی طرح ان عقائد کو شائع یا نشر کرے۔ ملک میں ہر قسم کے نشریاتی ادارے موجود ہیں اور میڈیا انتہائی مضبوط ہے۔ مگر ہاں، کسی پر تہمت لگنے اور جھوٹا الزام لگانے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔

مگر یہاں ایک دلچسپ مسئلہ ہے۔ امریکی عدالتوں کے مطابق یہ حقوق انسانوں کو ہی نہیں کمپنیوں کو حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے امیر امریکی شہری اور بڑی بڑی کمپنیاں کسی بھی طرح کی ’معلوماتی کیمپین‘ یعنی معلوماتی تحریک چلا سکتی ہیں۔ مثلاً اگر آپ نے کسی انتخابی امیدوار کے حق میں ٹی وی پر اشتہار چلانا ہے تو نہ صرف شہریوں کو بلکہ کمپنیوں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔

اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جس کے پاس جتنے پیسے ہیں، وہ جس مرضی کے حق میں اشتہار چلائے اور جس مرضی کو الیکشن جتوا دے۔ امریکی عوام میں کتنے لوگ ہوں گے جن کے پاس ٹیکنالوجی کمپنی ایپل، یا تیل کی کمپنی شیل جیتنے وسائل ہوں گے؟ جب یہ کمپنیاں آزادِ اظہارِ رائے کو بنیاد بنا کر کسی سیاست دان کی مدد کرتی ہیں تو یہ کیسے ہو کہ منتخب ہونے کے بعد وہ سیاستدان ان کے خلاف اور عوام کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرے گا۔

ایک اور مثال لے لیتے ہیں۔ امریکہ شاید وہ واحد ملک ہے جہاں ٹی وی پر پریسکپشن ادویات، یعنی عام گھریلو ادویات جیسے ڈسپرین وغیرہ نہیں بلکہ وہ ادویات جو کہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتیں، ان کے اشتہار بھی آتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کو بنانے والی بڑی بڑی کمپنیوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادِ اظہارِ رائے کے تحت اپنی اشیا کی تشہر کریں۔ آہستہ آہستہ بات وہاں پہنچ جاتی ہے کہ ڈاکٹروں کو مریض مجبور کرنے لگتے ہیں کہ وہ والی دوا دو جس کا میں نے اشتہار دیکھا تھا۔ اور ڈاکٹر بھی آمدنی سے مجبور مریض کی سننے لگتا ہے چاہے وہ دوا مریض کے لیے بہترین انتخاب ہو یا نہیں۔

ایک منظم ملیشیا جو آج منظم نہیں رہی

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی آئین کی ایک انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں عوام کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر حکومت لائف، لبرٹی، اور پرسوٹ آف ہیپینس کے بنیادی اصولوں کی تباہی کو جانے لگے تو عوام کو یہ حق ہے کہ اس کو گرا کر دوبارہ ایک نئی طرز کی حکومت منظم کرے۔ اسی لیے آئین کی سیکنڈ امینڈمنٹ یعنی دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے:

ایک منظم ملیشیا کیونکہ ایک آزاد ریاست کی سیکیورٹی کے لیے درکار ہے، لوگوں کے ہتھیار رکھنے کے حق پر کوئی قدخن نہیں لگائی جائے گی۔

اس ترمیم کا مقصد شاید یہ تھا کہ اگر حکومت آمرانہ ہو جائے تو عوام کے پاس اس کو گرانے کے وسائل ہوں۔ یا پھر نومولود امریکہ کے بانیوں کو ڈر تھا کہ کہیں یورپی طاقتیں کہیں دوبارہ آ کر ان پر قبضہ نہ کر لیں اس لیے لوگوں کے پاس ہتھیار ہونے چاہیئیں۔

مگر آج اس ترمیم کی وجہ سے امریکہ میں ایک عجیب عذاب برپا ہے۔ ملک میں آیے روز میس شوٹنگز کے واقعات ہوتے ہیں۔ اور ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ ہتھیاروں سے بہت زیادہ لیس ہے۔

امریکہ میں فی 100 افراد 120 ہتھیار سویلین افراد کے پاس موجود ہیں۔ 2017 کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں 40 فیصد لوگ یا تو ہتھیار کے مالک ہیں یا پھر ایسے گھر میں رہتے ہیں جہاں ہتھیار موجود ہیں۔

اس مسئلے کا پیمانہ سمجھنے کے لیے یہ دیکھیں کہ امریکہ میں 1982 سے لے کر اب تک 110 میس سوٹنگ کے واقعات ہو چکے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ ان میں ہلاک ہونے والوں کی اوسط تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف 2017 میں قتل کے واقعات میں امریکہ میں تقریباً 11000 افراد مارے گئے تھے۔

مگر مسئلہ صرف قتل اور میس شوٹنگ کا نہیں ہے۔ ہتھیاروں کی اس قدر دستیابی کی وجہ سے امریکہ میں خودکشی کے واقعات کی تعداد انتہائی پریشان کن ہے۔ 2016 میں 38600 افراد بندوں یا پستول کے ہاتھوں مارے گئے، ان میں سے 22900 خودکشیاں تھیں۔

ملک میں ہتھیاروں پر پابندیوں کے حامی کہتے ہیں کہ یہ ایک صحتِ عامہ کا مسئلہ ہے۔ مگر امریکی آئین کی اس شق کو بنیاد بنا کر کچھ قوتیں ملک میں اس حوالے سے کسی قسم کی پابندی نہیں لگنے دیتے۔ یہ قوتیں اتنی طاقیور ہیں کہ صدر اوباما کی انتظامیہ منہ توڑ زور لگانے باوجود کانگریس سے اس بات کی اجازت نہیں لے سکتی تھی کہ ملک میں صحتِ عامہ کی نگران تنظیم سی ڈی سی اس مسئلے پر تحقیق بھی کر سکے۔

امریکی آئین ایک کمال کا دستاویز ہے۔ اس کو لکھنے والوں نے اس میں ایسے خیالات محفوظ کیے جو اس دور کے لیے نایاب تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس آئین کی روح تک پہنچنے میں امریکی کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اور شاید اس کو ابھی بہت وقت لگے۔


31 اکتوبر 2020، 09:28 PKT

Comments