’عاصم باجوہ کو منی ٹریل دینے کی کوئی ضرورت نہیں‘

 Pakistan Corps Commanders Conference (ISPR)


پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے مشیروں کے اثاثوں کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد سب سے زیادہ تنقید کی زد میں ان کے مشیر اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ہی کیوں آئے ہیں؟



Pakistan Amjad Shoaib (Privat)

جنرل باجوہ کا عروج پاکستانی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کے دور میں ہوا جب انہوں نے فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے 'آئی ایس پی آر‘  کی کمان سنبھالی اور اسے نئے خطوط پر استوار کیا۔

ان کی خدمات کے عوض انہیں ترقی ملی اور بعد میں بلوچستان کی سدرن کمانڈ کا سربراہ لگا دیا گیا۔ عاصم باجوہ اِس وقت وزیراعظم عمران خان کے مشیر ہونے کے ساتھ ساتھ سی پیک اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔

گزشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر ''عاصم باجوہ منی ٹریل دو‘‘ مسلسل ٹرینڈ کرتا رہا ہے لیکن تا وقت انہوں نے خود اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

ایسے میں ڈی ڈبلیو نے پاکستانی فوج کے ایک اور سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ بحیثیت ایک سابق فوجی افسر، وہ اس سارے معاملے کوکیسے دیکھتے ہیں؟    

جنرل شعیب: میری نظر میں تو جس شخص نے اپنی مال ملکیت ڈکلیئر کردی، اُس سے منی ٹریل مانگنا شرمناک بات ہے۔ سوال اگر کوئی اٹھائے تو وہ صرف ایف بی آر پوچھ سکتا ہے، وہ بھی تب کہ اگر جنرل باجوہ نے اپنے ٹیکس ریٹرنز اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں یہ چیزیں ڈکلیئر نہ کی ہوں۔ سوال اُن پر اٹھتا ہے جو اپنے اثاثے چھپاتے ہیں اور جن پر کرپشن کے الزامات ہوتے۔ اِن پر سوال بدنیتی کے تحت اٹھائے جا رہے ہیں۔


لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اب جبکہ قوم مطالبہ کر رہی ہے تو وہ خود ہی منی ٹریل دے دیں تاکہ اگر کوئی شکوک و شبہات ہیں تو دور ہو جائیں؟

جنرل شعیب: نہیں، بلکل نہیں۔ کیوں دیں؟ لوگوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ سوال اٹھائیں۔ وہ حکومتی عہدے پہ تو اب آئے ہیں۔ اس سے پہلے تو انہوں نے ساری زندگی فوج میں گزاری۔ ان کی ساری کمائی ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے تو بڑے صاف ستھرے طریقے سے سب کچھ سامنے رکھ دیا ہے۔ اُن پر سوال اٹھانا تو بڑی زیادتی کی بات ہے۔

جہاں تک میری معلومات ہیں تو انہوں نے دو چیزیں ایسی دکھائی ہیں جو ان کی ذاتی ہیں۔ اس میں گلبرگ کا پانچ کنال کا ایک پلاٹ ہے اور دوسرا فیملی بزنس میں شیئر دکھائے ہیں۔ باقی سب جو زمینیں اور ملکیتیں دکھائی ہیں وہ قانونی طور پر فوج میں سروس اور سینیارٹی  میں ملتی ہیں۔ لوگوں کو کچھ پتہ ہوتا نہیں بس تنقید کرنے نکل پرتے ہیں۔

The malicious opponents who hv started a smear campaign against @AsimSBajwa aftr an open declaration of his assets, seem to hv forgotten that a true champion does even better while swimming against the tide. His breakfast isn’t cereal, it's the opposition.
😜
#AsimBajwaOurPride

تو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ آج کل جب آپ فوج سے بطور کور کمانڈر ریٹائر ہوتے ہیں تو آپ کے پاس لگ بھگ ایک ارب کے اثاثے ہوسکتے ہیں؟

جنرل شعیب: دیکھیں، جس زمانے میں بطور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ہوا تھا، اُس وقت آپ کو ڈی ایچ اے میں ایک کمرشل، ایک ریزیڈنشل اور ایک پلاٹ لیز پر ملتا تھا آرمی کی کنٹونمٹ کی زمینوں میں۔ کنٹونمنٹ پلاٹ کو آپ بیچ نہیں سکتے تھے اور وہ گھر بنانے کے لیے تھا۔

لیکن بعد میں ہمارے آرمی افسران نے اس پر اعتراض کیا کہ گھر تو مل جاتا ہے لیکن انہیں دیگر گھریلو خرچوں کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پلاٹ بیچنے کی اجازت ہونی چاہییے۔ اس لیے اب اسے فروخت کرنے کی اجازت ہے لیکن وہ بھی بیس سال کے بعد۔ اسی طرح افسروں کے لیے اب ڈی ایچ اے میں پلاٹ بڑھا دیے گئے ہیں۔ ڈی ایچ اے پرائیویٹ زمینیں لیتا ہے، ان کی پلاٹنگ کرتا ہے اور دیتا ہے۔

آج کل بطور آرمی افسر آپ کو ڈی ایچ اے سے دو پلاٹ ملتے ہیں اور اس کے لیے کوئی قرعہ اندازی نہیں ہوتی بلکہ وہ آپ کو انتہائی سستے آفیشل ریٹ پہ ملتے ہیں۔ یہ بطور ایک فوجی افسر آپ کا استحقاق ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ کو ڈی ایچ اے میں دو کمرشل پلاٹ بھی ملتے ہیں، جو قواعد کے تحت آپ کا حق ہوتا ہے۔

Image

اس کے علاوہ زرعی زمین الگ دی ملتی ہے؟

جنرل شعیب: دی جاتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ سب کو ملے۔ اگر میسر ہوتی ہے تو کچھ افسران کو دی جاتی ہے، لیکن سب کو نہیں۔ یہ زمین اکثر آباد نہیں ہوتی بلکہ اسے بنانا پڑتا ہے۔ کئی افسران کو جنوبی پنجاب میں بہاولپور اور رحیم یار خان کے صحرائی علاقوں میں زمینیں دی گئیں۔ اس کی کوئی خاص مالیت نہیں ہوتی کیونکہ یہ ریت کے ٹیلے ہوتے ہیں۔

مثلاﹰ مجھے بھی وہاں کوئی پچاس ایکڑ ملی تھی جب میں ریٹائر ہوا تھا۔ وہاں نہ پانی تھا نہ کچھ۔ میں نے کئی سال محنت کر کے اس میں سے پچیس ایکٹر سے ریت اٹھا کر باقی پچیس ایکڑ پہ ڈلوائی۔ لیکن دس بارہ سال میں بھی کمائی کچھ نہیں ہوئی تو آخر کار میں نے اسے بیچ دیا کیونکہ مجھے اسلام آباد میں  گھر بنانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔

 

آپ نے کہا کہ یہ زرعی زمین ہر کسی کو نہیں ملتی۔ سنا ہے کہ فوج میں ہر کام میرٹ پر ہوتا ہے، تو اس الاٹمنٹ کا کیا پیمانہ ہوتا ہے؟

جنرل شعیب: اس کے لیے کئی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ مثلاﹰ آپ فوج میں کتنے سال سروس میں رہے، آپ سیاچن میں کتنا عرصے تعینات رہے، لڑاکا آپریشنز یا معرکوں میں کتنا حصہ لیا اور کیسی کارکردگی دکھائی، قدرتی آفات مثلاﹰ زلزلوں اور سیلابوں کے دوران امدادی کاموں میں کتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

پھر ظاہر ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آفیسرز کے گھریلو حالات کا بھی احاطہ کیا جاتا ہے۔ یہ سب اس لیے کہ خواہشمند زیادہ ہوتے ہیں لیک زمین تھوڑی ہوتی ہے، اس لیے ہر ایک کو نہیں ملتی۔

#AsimBajwaMoneyTrailDo No court, no NAB, NO ONE will ask him about his property.. Cuz " yeh civilian jo nhi"
😕
Other countries have their army, Pak army has their own country
✌️
Image

فوج جیسے ادارے میں ہر چیز رینک کے حساب سے چلتی ہے۔ کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ بڑے افسران کو زیادہ جبکہ چھوٹے  افسران کو کم زمین ملتی ہے؟

جنرل شعیب: بلکل، سب سکیل کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاﹰ جنر ل کو 90 ایکڑ، لیفٹیننٹ جنرل کو 65 ایکڑ، میجر جنرل کو 50 ایکڑ ملتی ہے۔ اسی طرح اور نیچے جائیں تو صوبیدار اور حوالداروں کو 12.5 ایکڑ زمین دی جاتی ہے۔

Image

جوانوں میں بھی میرٹ کی الگ فہرست بنتی ہے۔ انہیں بھی ڈی ایچ اے میں دس دس مرلے کے پلاٹ دیے جاتے ہیں، سپاہی کو پانچ مرلے کا پلاٹ دیا جاتا ہے۔

یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ان لوگوں کا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کوئی نہ کوئی  ذریعہ معاش لگا رہے۔ ہمارے ادارے کا مسئلہ یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ اوپر جاتے ہیں عہدے کم ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیے افسران کم عمری میں ریٹائر کر دیے جاتے ہیں۔

مثلاﹰ لیفٹیننٹ  جنرل 57 برس کی عمر میں، میجر جنرل 54 برس میں، بریگیڈیئر یا لیفٹننٹ کرنل اکثر 48 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ادارہ کوشش کرتا ہے کہ انہیں ملازمت کے دیگر مواقع  فراہم کیے جائیں۔               

We all are not against the Soldiers but against the officers.. #AsimBajwaMoneyTrailDo


Image

Comments