ترکی آج 567 واں یوم فتح منارہا ہے - سلطان محمد فاتح یا (سلطان محمد الثانی) نے استنبول فتح کیا تھا۔

ترکی آج 567 واں یوم فتح منارہا ہے، 29 مئی  1453ء کو سلطان محمد فاتح یا (سلطان محمد الثانی) نے استنبول فتح کیا تھا۔
 فتح قسطنطنیہ ۔۔۔۔ | Jasarat Blog
سن 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات پر سلطان محمد فاتح نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور 2 سال بعد ہی محاصرہ قسطنطنیہ میں کامیابی حاصل کرکے بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا۔ اس فتح کے بعد سلطنت موریا کو فتح کیا اور بازنطینی حکومت کی یہ آخری نشانی بھی 1461ء میں ختم کردی۔
 
فتح قسطنطنیہ اور بشارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
طلوع اسلام کے بعد قلیل عرصے میں ہی اسلامی سلطنت کی سرحدیں دور دراز ممالک تک پھیل گئی تھیں لیکن آٹھ صدیوں تک بازنطینی سلطنت کا مرکز مسلمانوں کے قبضے میں نہ آ سکا۔
اس شہر کی فتح ہر مسلمان جرنیل کا خواب تھی اور اس کی بنیادی وجہ رسولِ کریم ﷺ کی اس کے فاتح کے بارے میں بشارت تھی، حدیث شریف میں فتح قسطنطنیہ کی خوشخبری کچھ یوں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ "تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی"۔
مسلمان جرنیلوں کی قسطنطنیہ پر ابتک کی جنگی مہمیں کامیاب نہ ہو سکی تھیں جس کی شروعات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہوئی تھیں اور ہر کوئی یہ جاننے کیلئے بے تاب تھا کہ آخر یہ سعادت کس کے حصے میں آ ئے گی۔
پھر وہ مبارک دن بھی آ گیا کہ جب ترک سلطان مراد دوئم کا ہونہار بیٹا سلطان محمد اڑھائی لاکھ سے زائد فوج اور بھاری توپوں کے ساتھ قسطنطنیہ فتح کرنے کیلئے نکلا۔
سلطان محمد فاتح نے اجلاس کے دوران اپنے درباریوں پر جوکہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا متفقہ فیصلہ کرچکے تھے یہ واضح کیا کہ رومی سلطنت ، عثمانی تخت و تاج کے دعویداروں کو پناہ دیتی رہی تھی اور اس طرح مسلسل خانہ جنگیوں کا باعث بنی اس امر کو بھی زیر بحث لایاگیا کہ یہ رومی سلطنت ہی تھی جوجنگیں چھیڑنے میں پیش پیش تھی۔ قسطنطنیہ کو سلونیکا کی طرح مغربی کیتھولکس کے حوالے کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ عثمانی سلطنت کبھی بھی مکمل طور پر خودمختار نہ ہوسکے گی۔ قسطنطنیہ کا محاصرہ 6 اپریل سے 29 مئی 1453ء تک کل 54 دن جاری رہا۔
رومی شہنشاہ Palaeologus XI کی مدد کیلئے ہنگری کی تیاریوں اور وینس کی بحریہ کی روانگی کی خبریں آچکی تھیں۔ سلطان محمد فاتح نے حملے کا حکم دیا۔ عثمانی بحری بیڑے کی مداخلت روکنے کیلئے دشمن نے قسطنطنیہ کے ساحل پر باڑھ لگوا دی۔ سلطان محمد نے اپنے جہازوں کو شہر کی دوسری جانب لے جانے کا حکم دیا سلطان محمدکی افواج صحرا کے ذریعے جوکہ اب تک ناقابل رسائی تصور کیا جاتا تھا اپنے جہازوں سمیت قسطنطنیہ کے پچھلے دروازوں پر پہنچ گئیں۔
سلطان نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس مشہور شہر کو یورپی مدد سے محروم کرنے کیلئے آبنائے باسفورس پر قبضہ کر لیااور یورپی کنارے پر ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا جس میں عام سپاہیوں کے ساتھ سلطان نے اپنے ہاتھوں سے پتھر لگائے۔
اس کے بعد شہر کا گھیراؤکر لیا گیا اور کئی روز تک مضبوط فصیلوں پر توپوں کے بھاری گولے برسائے گئے۔
بالآخر صدیوں سے قائم فصیلیں اسلامی لشکر کے سامنے ڈھیر ہو گئیں اور 29 مئی 1453ءبروز جمعتہ الوداع سلطان اپنی فوج کے ساتھ فاتحانہ شان سے شہر میں داخل ہو گیا۔
اور یوں قسطنطنیہ فتح ہوگیا یونانیوں کو قسطنطنیہ واپس آنے کی اجازت دی گئی جو فتح کے بعد ہرجانہ اداکرنے لگے اور انھیں ایک خاص مدت کیلئے محاصل سے چھوٹ دی گئی۔ فتح کے اگلے روز قسطنطنیہ کے بڑے وزیر چینڈرلے کو برطرف کرکے گرفتار کرلیاگیا اور اسکی جگہ اسکے حریف زاگانوز کو تعینات کردیا گیا قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنادیا۔
اس وقت سے لے کر آج تک دنیا کی تاریخ میں انہیں سلطان محمد الفاتح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انہوں نے شہر کے مرکزی کلیسا میں جمع ہو جانے والے مقامی عیسائیوں کو عام معافی دے دی اور چرچ کی جگہ ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ قسطنطنیہ کی فضائیں اذان کی آواز سے گونج اٹھیں۔
سلطان نے اپنے دور میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔
فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول ، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلانے لگا۔
تاریخ کی کتابوں میں آ ج بھی سلطان محمد الفاتح کو دنیا کے عظیم ترین فاتحین میں شمار کیا جاتا ہے۔


 قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطنت عثمانیہ کو دنیا بھر میں شاندارعظمت اورعزت عطا ہوئی اور عثمانی پہلی بار عثمانی بھرپور قوت کے طور پر ابھرے۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد محمد فاتح نے اپنے لیے قیصر روم کا خطاب چنا۔
واضح رہے کہ فتح قسطنطنیہ کی خوشخبری ایک حدیث میں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ “تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی”۔
سلطان محمد فاتح سلطنت عثمانیہ کےساتویں سلطان تھے جو 1444ء سے 1446ء اور 1451ء سے 1481ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان رہے۔

سلطان محمد فاتح نے اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جبکہ محاصرہ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوئے۔ 1458ء میں انہوں نے موریا کا بیشتر حصہ اور ایک سال بعد سربیا فتح کر لیا۔ 1461ء میں اماسرا اور اسفندیار عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے انہوں نے یونانی سلطنت طربزون کا خاتمہ کیا اور 1462ء میں رومانیہ، یائچی اور مدیلی بھی سلطنت میں شامل کرلیے۔
دوسری جانب ترک صدر طیب اردوان کی ہدایت پرآج ایاصوفیہ میں سورہ الفتح کی تلاوت کی جائے گی۔

Comments

  1. یہ دنیا کی حیرت انگیز جنگ تھی جب ترک جہازوں سمندر چھوڑ کر صحرا پر سفر کرتے ہوےٗ دوسری طرف پہنچ گیےٗ ۔ واقعی کیا شان تھی اس سلطان کی اورکیا شان تھی اس کی فو ج کی ۔ نبیؐ کا کہا سچا ہے ۔ایک ہمارا حکمران ہے وہ دنیا سے کہہ رہا ہے ۔دنیا والوں مودی کشمیریوں پر ظلم کررہا ہے انھیں بچالو ۔ کشمیر پر بھارت نے قبضہ کرلیا ہے اسے چھڑالو ۔ ہماری فوج امریکہ کےکے اشارے کے بغیر ہلے گی نہیں ۔ ترکی کے اردگان فتح منانا ان کا حق ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں و ڈھاکہ مین بھی ہار گیےٗ اوراب کشمیر میں بھی۔ بھارت کے مسلمانوں کی شہریت ہی ختم کردی گیٗ ہے۔پتہ نہیں کس دوراہے پر کھڑے ہیںبس دعا ہی کی جاسکتی ہے

    ReplyDelete

Post a Comment