کورونا وبا اور پاکستان کی مشکلات کا جائزہ

کورونا وائرس نے جو بحرانی کیفیت پیدا کی ہے، اُس نے پاکستان جیسے پسماندہ یا نام نہاد ترقی پذیر ممالک کا حال بُرا کردیا ہے۔ معیشت کا پہیہ رکا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ عوام میں اشتعال اور انتشار بڑھ رہا ہے۔ بیزاری کا گراف تیزی سے بلند ہو رہا ہے۔ نفسی پیچیدگیوں کو راہ مل رہی ہے۔ حکومتی سطح پر متضاد دعوے کیے جارہے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں اس حوالے سے مکمل ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ ایسے میں طرح طرح کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متعلق ٹیسٹنگ کی سہولت ناکافی ہوجانے کے باعث بہت سے کیسز کا تو پتا ہی نہیں چل رہا۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ بہت سے لوگ بظاہر کورونا وائرس کا شکار تھے اور اُسی کے ہاتھوں موت کا شکار بھی ہوئے مگر پتا ہی نہیں چل سکا کیونکہ اُنہیں ٹیسٹنگ کے مرحلے سے گزارا ہی نہ جاسکا۔
زیر نظر مضمون میں کورونا وائرس کے پیدا کردہ بحران کے ہاتھوں پاکستان کی مشکلات کا جائزہ لیا گیا ہے۔)

کورونا وائرس کے ہاتھوں پاکستان غیر معمولی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں کورونا وائرس جیسی وبا سے کماحقہ نمٹنے کے لیے جو سہولتیں درکار ہیں وہ موجود ہی نہیں۔ حفاظتی سامان اور آلات بھی نہیں دیے جارہے۔ صحتِ عامہ کے نظام یا ڈھانچے کی توسیع لازم ہے، مگر فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہیلتھ کیئر ورکرز کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اچانک غیر معمولی بوجھ پڑا تو یہ نظام اُس بوجھ کو برداشت نہیں کر پائے گا۔ صحتِ عامہ سے متعلق ڈھانچا بہت کمزور ہے۔ ٹیسٹنگ کی صلاحیت اور سکت محدود ہے۔ کٹس دستیاب نہیں۔ ایسے میں مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔ دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد بھی کم ہے اور ہلاکتیں بھی کم ہیں۔ مگر یہ مطمئن ہوکر بیٹھ رہنے کا معاملہ نہیں۔ مریضوں کی تعداد شاید اس لیے کم ہے کہ ٹیسٹنگ کی سہولت ہی ناکافی ہے۔ ہزاروں افراد کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہیں، مگر اُن کے ٹیسٹ ہی نہیں کیے گئے۔
کمبائنڈ ملٹری اسپتال (سیالکوٹ) کی جونیئر ڈاکٹر کشف خالد کہتی ہیں کہ عام آدمی کا کیا ذکر کہ یہاں تو ڈاکٹر اور پیرا میڈکس کے بھی کورونا ٹیسٹ نہیں کیے جارہے۔ اُن کی زندگی بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ سیالکوٹ خوش نصیب شہر ہے کہ یہاں کورونا کیسز برائے نام ہیں۔ حفاظتی لباس اور آلات نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر اور پیرا میڈکس کے لیے البتہ خطرات موجود ہیں۔ بعض مقامات پر طبی عملے نے متعلقہ سہولتیں نہ ہونے کے باعث کام کرنے سے انکار بھی کیا ہے۔ جب انہوں نے احتجاج کیا تو انہیں برائے نام حفاظتی اشیا فراہم کی گئیں۔ آج بھی بہت سے ڈاکٹر اور پیرا میڈکس ایمرجنسی روم اور آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ (او پی ڈی) میں سہولتوں اور حفاظتی سامان کے بغیر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
۶؍ اپریل کو کوئٹہ میں جونیئر ڈاکٹروں نے ناکافی سہولتوں پر احتجاج کیا۔ ان میں سے ۱۵۰ کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ احتجاج ۱۳؍ ڈاکٹروں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر کیا گیا تھا۔ گرفتاریوں پر ینگ ڈاکٹرز نے صوبے بھر میں کام بند کرنے کا اعلان کیا۔ صوبائی حکومت نے ڈاکٹروں سے بات کی، جس کے بعد احتجاج ختم ہوا اور ڈاکٹر کام پر آئے۔ ڈاکٹروں نے الزام لگایا کہ پولیس نے اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر حفاظتی سامان کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔
لاہور کے میو اسپتال کے ڈاکٹر شہریار خان کا کہنا ہے کہ صحتِ عامہ کے حوالے سے کوئی باضابطہ نظام نہیں پایا جاتا۔ ایسے میں ڈھنگ سے کام کرنا بہت مشکل ہے۔ اور طبی عملے کی صحت کو لاحق خطرات بھی برقرار ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تفصیلات بھی اپ لوڈ کیں۔ جب طبی عملے کو ضروری حفاظتی سامان اور دیگر سہولتوں کی عدم فراہمی کے حوالے سے خبریں تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جانے لگیں تب انتظامیہ کچھ خوفزدہ ہوئی اور حرکت میں آئی۔ تھوڑے بہت اقدامات کیے گئے۔ پاکستان میں نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ کوئی بھی جائز اور منظور شدہ سہولت شور شرابہ اور احتجاج کرنے پر ملتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ میں (جو اب تک منظر عام پر نہیں لائی گئی) بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں طبی عملے کے ۱۳۸ ؍افراد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ اصل تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں عمومی چلن یہ ہے کہ جب تک علامات واضح طور پر ظاہر نہ ہوں تب تک کورونا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے کوئی باضابطہ تحریری ہدایت نامہ تو موجود نہیں مگر زبانی ہدایات ضرور موجود ہیں۔ بہت سے ڈاکٹروں کو خود بھی اندازہ نہیں کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہیں یا نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ بہت سے مشتبہ مریضوں کا کورونا ٹیسٹ کیا ہی نہیں جاتا۔ ڈاکٹروں کو خود بھی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کورونا وائرس کے مریضوں سے رابطے میں آئے ہیں یا نہیں۔ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ سفری تاریخ رکھنے والا ایک شخص مشتبہ حالت میں علاج کے لیے اسپتال لایا گیا۔ اس سے پہلے کہ اس کا کورونا ٹیسٹ کیا جاتا، وہ انتقال کرگیا۔ ڈاکٹر اس سے رابطے میں رہا تھا۔ اُسے شک گزرا کہ مرنے والا کہیں کورونا وائرس کا شکار نہ ہوا ہو۔ ایسی صورت میں وہ ڈاکٹر بھی کورونا وائرس کا شکار ہوسکتا تھا۔ اُس نے میت سے ایک نمونہ لے کر اسپتال کے حوالے کیا تاکہ کورونا ٹیسٹ کرایا جاسکے۔ اگلے دن اُسے معلوم ہوا کہ نمونہ کورونا ٹیسٹ کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا۔ یہ ڈاکٹر جان ہی نہ سکا کہ جس مریض کا اُس نے علاج کیا تھا وہ کورونا کا مریض تھا یا نہیں۔
بہت سے اسپتال کورونا ٹیسٹنگ کرتے ہی نہیں۔ وہ مرنے والوں کی بھی ٹیسٹنگ نہیں کرتے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ ثابت کیا جاسکے کہ کورونا کے مریض بھی کم ہیں اور ہلاکتیں بھی کم۔ اگر کوئی بظاہر کورونا وائرس کا شکار ہوکر مر بھی جائے تو زیادہ پروا نہیں کی جاتی۔ اعلیٰ حکام کو رپورٹ دینا ہوتی ہے کہ سب اچھا ہے۔ سب کو اپنی نوکری بچانے کی فکر لاحق ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ اپریل کے آخر تک پاکستان میں کورونا ٹیسٹنگ کی صلاحیت ۹ لاکھ تک پہنچ چکی ہوگی۔ ۲۶ فروری کے بعد سے پاکستان میں کورونا وائرس کا غلغلہ ہے۔ وفاق نے ابتدائی مرحلے میں جو کچھ کیا اُس سے کنفیوژن پھیلا۔ باقاعدہ ضابطۂ کار (ایس او پی) تیار کرنے کے حوالے سے خاصی سُست روی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بیشتر معاملات اور اقدامات میں ابہام صاف دکھائی دیا۔ لاک ڈاؤن کے حوالے سے ابہام نمایاں رہا ہے۔ پاکستان میں سماجی فاصلہ یقینی بنانے سے متعلق اقدامات بھی ناکافی اور بعد از وقت رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پاکستان میں کورونا کے مریض واقعی کتنے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان لاک ڈاؤن کے مخالف رہے ہیں۔ انہوں نے کرفیو نافذ کرنے کی تجویز بھی مسترد کردی۔ عمران خان اس موقف کے حامل رہے ہیں کہ پاکستان میں کروڑوں افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر کسی نہ کسی طور انہیں کورونا وائرس سے بچا بھی لیا تو وہ بھوک سے مر جائیں گے۔ ملک میں کم و بیش ۳۹ فیصد گھرانے یومیہ اجرت کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ سندھ نے البتہ غیر معمولی پُھرتی دکھائی ہے۔ سندھ میں لاک ڈاؤن قدرے سختی کے ساتھ نافذ کیا گیا۔ کرفیو لگانے کی بھی بات ہوئی مگر ایسا کیا نہیں گیا۔ عمران خان کو یقین ہے کہ قوم اس بحرانی کیفیت سے جلد باہر آجائے گی۔
پاکستان میں ہیلتھ کیئر سسٹم کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ غیر معمولی بوجھ یا دباؤ جھیل سکے۔ ملک میں وینٹی لیٹرز کی شدید کمی ہے۔ ایسے میں اگر کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تو ان کا علاج انتہائی دشوار ثابت ہوگا۔ صوبائی اسپتال سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ کوئی بھی اپنا ریکارڈ گندا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں واقعی غیر معمولی اضافہ ہوا تو پورا سسٹم زمین پر آ رہے گا۔ ٹیسٹنگ کی سہولت میں توسیع سے نئے کیسز سامنے آسکتے ہیں۔ ایسی کسی بھی صورتِ حال کے لیے پاکستانی حکومت کو تیار رہنا چاہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Pakistan atruggles to fight COVID-19”. (“thediplomat.com”. April 15, 2020)

Comments