بل گیٹس فاؤنڈیشن! آبادی گھٹانے کا ایجنڈا




ہر بڑا اور عالمی امور پر متصرف ملک اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے اور کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کی بڑی طاقتوں نے معاملات اپنے بس میں کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا۔ جہاں بات آسانی سے نہ بن سکتی ہو وہاں طاقت کے بے محابا استعمال کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہوئے بڑی طاقتوں نے ہر وہ کھیل کھیلا ہے جو کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
آج کی دنیا ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے کہ جب عالمی امور پر متصرف ریاستیں کمزور پڑتی جارہی ہیں اور چند ریاستوں کی قوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جو ریاستیں طاقتور ہوتی جارہی ہیں وہ عالمی امور اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کر رہی ہیں۔ گزشتہ سو برس کے دوران جن ریاستوں نے دنیا کو چلایا ہے وہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی نہ کسی طور معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا جائے۔ اس معاملے میں امریکا کی مثال بہت نمایاں ہے، جو معاملات کو اپنے ہاتھ سے نکلتے ہوئے دیکھ کر حواس باختہ ہے اور بدحواسی کے عالم میں ایسی حرکتیں بھی کر رہا ہے جن سے خود اُسے بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
امریکا اور یورپ نے مل کر دنیا پر کم و بیش سات عشروں تک حکومت کی ہے۔ ان سات عشروں کے دوران متعدد خطوں کو پس ماندہ رکھا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ مخالفت میں کوئی آواز بلند نہ ہو۔ جس ملک نے امریکا اور یورپ کے لیے کسی بھی درجے میں خطرہ بننے کی کوشش کی ہے اُسے ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا گیا۔ اب معاملات خاصے تبدیل ہوچکے ہیں۔ امریکا نے عسکری مہم جوئی اپنائی تھی، جس کے نتیجے میں اُس نے کئی ریاستوں پر جنگ مسلط کی اور کئی خطوں کو تاراج کیا۔ یورپ نے کئی جنگوں میں اُس کا ساتھ دیا مگر اب یورپ اپنا راستہ الگ کرچکا ہے۔ وہ معاملات کو عسکری سطح پر نمٹانے کے بجائے نرم قوت یعنی علوم و فنون اور تجارت کے ذریعے درست کرنا چاہتا ہے۔ امریکی قیادت اب بھی طاقت کے استعمال سے ہٹ کر کسی بھی زاویے سے سوچنے کے لیے تیار نہیں۔
معاملات کو اپنے ہاتھ سے جاتا دیکھ کر امریکا اب اپنی قوت برقرار رکھنے کے حوالے سے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے اور کر بھی رہا ہے۔ اس وقت امریکا کی ذہنیت یہ ہے کہ اگر میں جیت نہیں سکتا تو پھر کھیل کو جاری بھی نہیں رہنے دوں گا!
چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے خوفزدہ ہوکر امریکا جو کچھ کر رہا ہے، اس کے نتیجے میں عالمی نظام مزید الجھتا اور بگڑتا جارہا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام بھی دگرگوں ہے۔ ڈالر اب بھی عالمی سودوں کی کرنسی ہے مگر یہ سب کچھ محض دکھاوے کی حد تک ہے۔ امریکا کمزور پڑچکا ہے اور اس حقیقت کو اس کے حریف بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکا ہر عالمی معاملے سے اِس طور جُڑا ہوا ہے کہ اگر اسے بیک جنبش قلم الگ کردیا جائے تو مضمحل عالمی نظام دم توڑ دے گا۔ ایسی صورت میں بہت بڑے پیمانے پر خرابی پیدا ہوگی۔
امریکی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ پوری دنیا کو تنہا نہیں چلاسکتی۔ اُسے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ چین اور اُس کے ہم نوا ملک تیزی سے ابھر رہے ہیں اور کسی بھی وقت ایک نئے عالمی نظام کی راہ ہموار کرسکتے ہیں، جس میں امریکا کے لیے اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی گنجائش نہ ہو۔ ایسے میں ایک کوشش یہ بھی ہے کہ اپنی طاقت میں اضافے کے بجائے دوسروں کی طاقت میں کمی پر توجہ دی جائے۔ دنیا کی آبادی کم کرنے کا ایجنڈا بھی اِسی کوشش کا حصہ ہے۔
کم و بیش بیس برس سے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن افریقا اور ایشیا کے دور افتادہ اور انتہائی پس ماندہ ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام چلاتی آئی ہے۔ بعض ممالک میں طلبہ، اساتذہ اور والدین کو تو کیا خبر ہونی تھی، حکومتیں بھی بے خبر رہیں اور اس فاؤنڈیشن نے اپنا کھیل اچھی طرح کھیلا۔ بل اینڈ میلنڈا فاؤنڈیشن کی ویکسی نیشن مہم کے خطرناک اور تباہ کن نتائج بھی برآمد ہوتے رہے ہیں۔ بھارت میں پولیو کے کیس بڑھے۔ کینیا میں خواتین کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ بہت سے بچے بھی جان سے گئے۔ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے اپنی ویکسی نیشن مہم عالمی ادارۂ صحت اور یونیسیف وغیرہ کے تعاون اور اشتراکِ عمل سے چلائی۔ امریکا اور چند دوسرے ممالک نے بل اینڈ میلنڈا فاؤنڈیشن کے خلاف مقدمات بھی دائر کیے۔
بل گیٹس کی شخصیت بہت عجیب ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسے مسیحا کے روپ میں دیکھتے ہیں، جو بچوں کو بیماریوں سے بچاکر دنیا کی آبادی گھٹانے کی راہ ہموار کر رہا ہے!
۲۰۱۰ء میں راک فیلر رپورٹ آئی تھی، جس میں ’’لاک اسٹیپ سیناریو‘‘ پیش کیا گیا تھا۔ آج ہم اُسی منظرنامے میں جی رہے ہیں۔ بل گیٹس نے کیلی فورنیا میں ٹیڈ شو کے دوران کہا تھا کہ اگر ہم نے ویکسی نیشن کے حوالے سے اپنا کام بخوبی مکمل کرلیا تو دنیا کی آبادی کو ۱۰ تا ۱۵ فیصد گھٹانے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے!
بچوں کے حقوق کے علم بردار اور اینٹی ویکسی نیشن کارکن رابرٹ ایف کینیڈی نے بل گیٹس فاؤنڈیشن کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ انہوں نے ایوانِ صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ بل گیٹس فاؤنڈیشن کے بارے میں تحقیقات کی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بل گیٹس فاؤنڈیشن نے ایک طرف تو طبی مشق کے حوالے سے غیر قانونی و غیر اخلاقی حرکتیں کی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ بڑے دوا ساز ادارے بل گیٹس کے ساتھ ہیں۔ انہیں عالمی ادارۂ صحت، بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف، ڈاکٹر انتھونی فوشی اور دوسری بہت سی اہم شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔ یہ ہے ایجنڈا آئی ڈی ۲۰۲۰ء۔ دنیا بھر میں سات ارب افراد کی ویکسی نیشن کی جانی ہے۔ یہ ویکسی نیشن کورونا وائرس کے انسداد کے نام پر ہوگی۔ کورونا کی ایک ایسی ویکسین آزمائی جائے گی، جو اب تک آزمائی نہیں گئی اور جس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں پورے یقین سے کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا۔ یہ کئی ارب ڈالر کا پراجیکٹ ہے، کئی بڑے دوا ساز اداروں کا ایجنڈا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ویکسین کی کاک ٹیل میں ہے کیا۔ ویکسی نیشن ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک سے شروع ہوگی اور مرحلہ وار ترقی یافتہ معاشروں تک پہنچے گی۔
کورونا وائرس کے لیے جامع اور دیرپا نوعیت کی ویکسی نیشن تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور لطیفہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے لیے کسی ویکسین کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ اس کے بہت سے علاج موجود ہیں۔ فرانس کے پروفیسر ڈیڈیئر راؤلٹ متعدی امراض کے پانچ بڑے ماہرین میں سے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملیریا اور ’’سارس‘‘ کے تدارک کے لیے ہائیڈراگزی کلوروکوئن انتہائی موثر ہے۔ یہ سستی بھی ہے اور آسانی سے دستیاب بھی۔ یہ دوا کورونا وائرس کے تدارک کے لیے بھی انتہائی کارگر ہے۔
فروری کے وسط تک ڈاکٹر ڈیڈیئر راؤلٹ کی لیب میں ہائیڈراگزی کلورو کوئن کی مدد سے کورونا وائرس کے تدارک سے متعلق تجربات شروع ہوچکے تھے۔ چین میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ہائیڈراگزی کلورو کوئن کورونا وائرس کے حوالے سے صورتِ حال کو قابو میں رکھنے میں بھرپور مدد کرسکتی ہے۔ چائنیز نیشنل ہیلتھ کمیشن نے بھی کورونا وارئس کے تدارک کے طور پر ہائیڈراگزی کلورو کوئن کے استعمال کی سفارش کی ہے۔
[پیٹروکونگ معاشیات دان اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے عالمی بینک، عالمی ادارۂ صحت اور دیگر بڑے اداروں میں تیس سال گزارے ہیں۔ ان تیس برسوں کا تجربہ انہوں نے ’’امپلوژن: این اکنامک تھرلر اباؤٹ وار اینوائرنمنٹل ڈسٹرکشن اینڈ کارپوریٹ گریڈ‘‘ نامی کتاب میں نچوڑ دیا ہے۔ وہ سینٹر فار ریسرچ آن گلوبلائزیشن کے ریسرچ ایسوسی ایٹ بھی ہیں۔]
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Bill Gates and depopulation agenda”. (“globalresearch.ca”. April 18, 2020)

Comments