بجلی کمپنیوں کو عدالتی اختیارات

وفاقی کابینہ نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو بجلی چوروں کی گرفتاری کے لیے عدالتی اختیارات دینے کی منظوری دے دی ہے ۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اس اختیار کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو قانونی طور پر یہ اختیار تفویض کرنے کے لیے صدارتی آرڈیننس کسی بھی وقت متوقع ہے ۔ زاید بلنگ اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے سرکاری طور پر کنڈا لگانے کی شکایات نہ تو نئی ہیں اور نہ ہی ان کی تعداد میں کوئی کمی آئی ہے ۔ کراچی میں بجلی پیدا کرنے اور تقسیم کرنے کا نظام ایک نجی ادارے کے الیکٹرک کے سپرد ہے ۔ کے الیکٹرک نے صارفین سے لوٹ مار کی تمام ہی حدیں عبور کرلی ہیں ۔ کے الیکٹرک لوٹ مار میں اس حد تک دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتی ہے کہ اب تو عدلیہ بھی اس پر ریمارکس پاس کیے بغیر نہیں رہ سکی ہے ۔ کے الیکٹرک کی جانب سے لاکھوں روپے کے بل ناجائز طور پر صارفین کوجاری کرنا اور پھر ان کی وصولی کرنا کوئی راز نہیں ہے ۔ کے الیکٹرک کے افسران کی جانب سے صارفین کے بلوں میں زاید یونٹ کے اضافے کی باقاعدہ ہدایت بھی منظر عام پر آچکی ہے ۔ جس وقت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو کسی صارف کی گرفتاری کا اختیار نہیں تھا ، اس وقت کے الیکٹرک دھڑلے سے صارفین کو گرفتار کرنے کی نہ صرف دھمکیاں دیتی تھی بلکہ موقر قومی روزناموں اور الیکٹرانک چینل پر اس کے اشتہار بھی آتے تھے ۔ صارفین کو گرفتاری کے نام پر اغوا کرنے اور انہیں حبس بیجا میں رکھنے کے لیے کے الیکٹرک نے باقاعدہ ناجائز پولیس اسٹیشن بنا رکھے تھے اور ریکوری ٹیم کے نام پر غنڈہ فورس بنا رکھی تھی جو کسی بھی صارف کے گھر میں بلا اجازت رات کے اندھیرے میں کو دجاتی تھی اور کسی کو بھی اغوا کرکے اسے اس وقت تک حبس بیجا میں رکھتی، جب تک انہیں مطلوبہ تاوان حاصل نہیں ہوجاتا تھا ۔ اب جب وفاقی کابینہ نے باقاعدہ کسی بھی صارف کو گرفتار کرنے کی منظوری دے دی ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے صدر پاکستان کسی بھی وقت صدارتی حکم نامہ جاری کرسکتے ہیں ، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کے الیکٹرک کیا کچھ نہ کرگزرے گی ۔ اس وقت تو صارف بجلی کیاچوری کریں گے ، کے الیکٹرک خود ہی صارفین کی جیبیں کاٹ رہی ہے ۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ کے الیکٹرک کا عملہ نئے کنیکشن لگانے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے اور عمومی طور پر نیا کنکشن لگانے کا تخمینہ ہی لاکھوں روپے کا بھیجا جاتا ہے ۔ اس کے بدلے صارف کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کے الیکٹرک سے باقاعدہ کنڈے کا کنکشن لے ۔ اس کنڈے کا کوئی میٹر نہیں ہوتا بلکہ کے الیکٹرک کا عملہ خود ہی بتاتا ہے کہ مذکورہ صارف کا بجلی کا زیادہ سے زیادہ کتنا صرف ممکن ہے اور پھر اس صارف سے 35 روپے فی یونٹ کے حساب سے باقاعدہ بل لیا جاتا ہے ۔ اسی طرح بڑے صنعتی یونٹوں اور برف خانوں جیسے اداروں سے جہاں پر بجلی کا زیادہ صرف ہے ، کے الیکٹرک کا عملہ الگ سے بل لیتا ہے جو کے الیکٹرک کے کسی اور اکاؤنٹ میں جمع ہوتا ہے اور اس کا اس کے حصص یافتگان کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اربوں روپے ماہانہ کی آمدنی کہاں گئی ۔ وفاقی کابینہ کو اس طرح کے فیصلے کرنے سے قبل معاملات کی چھان بین کرنی چاہیے ۔ یہ تو غنڈوں کے گینگ کو باقاعدہ ریاستی اختیارات دیے جارہے ہیں ۔ا س سے ملک میں قانون کی بالادستی کے بجائے غنڈوں کے منظم گینگ بنانے کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔عوام توقع رکھتے ہیں کہ حکومت انہیں غنڈوں کی نجی فورس سے تحفظ دے گی اور یہ غنڈہ فورس بنانے والوں کی بیخ کنی کرے گی ۔ اس کے بجائے وفاقی کابینہ میں شامل افراد نے بلا سوچے سمجھے ان ہی افراد کو باقاعدہ قانونی اختیارات دینے کی توثیق کردی ہے جو دن دہاڑے عوام کی جیبوں سے سالانہ سیکڑوں ارب روپے کا بھتہ وصول کررہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے پر وفاقی کابینہ کو نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ اس کے برخلاف کے الیکٹرک کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جانی چاہیے ۔ کے الیکٹرک کی چوری اور سینہ زوری کا تو یہ عالم ہے کہ اس نے پورے کراچی سے تانبے کے تار اتار کر بیچ کھائے اور اس کی جگہ گھٹیا کوالٹی کے المونیم کے کیبل ڈال دیے ہیں جن کے جلنے کی وڈیو کلپ آئے دن کوئی نہ کوئی شہری سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا رہتا ہے ۔ عید قرباں سے ایک روز قبل ہونے والی بارش میں کراچی میں 50 سے زاید افراد بجلی کے کھمبوں میں بجلی آنے کی وجہ سے اپنی جان سے گئے ۔ کے الیکٹرک نے اس کا الزام کنڈوں پر ڈال دیا ہے۔ کے الیکٹرک کو کراچی کے شہری اب بجا طور پر کلر الیکٹرک کے نام سے یاد کرنے لگے ہیں ۔ کے الیکٹرک کے حکومت میں اثر و نفوذ کا یہ عالم ہے کہ متعلقہ تھانے ہی کھمبوں میں بجلی کا کرنٹ آنے سے جاں بحق ہونے والے شہریوں کی رپورٹ درج نہیں کرتے اور اس کے لیے ان کے ورثا کو تنگ کرتے ہیں ۔ اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ پاکستان میں عوام کی حاکمیت نہیں رہی بلکہ یہ ایک بنانا ریپبلک ہے جہاں پر کے الیکٹرک جیسی کارپوریشنیں اصل حکمراں ہیں اور وفاقی کابینہ میں بیٹھے افراد ان کی کٹھ پتلیاں ۔

اداریہ ۔روزنامہ جسارت 

Comments