بارش میں گورنر، وزیر بلدیات اور میئر کے دورے، کیوں؟ از محمد انور

کراچی میں پیر سے شروع ہونے والی بارش منگل کو بھی جاری تھی۔ بارشیں اول تو کراچی میں کم ہی ہوتی ہیں۔ حالیہ بارشیں بھی موسلا دھار نہیں تھی نہ ہی طوفانی تھی جس کی محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی مگر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا تمام نظام ہی درہم برہم ہے۔ اس سے قبل بھی جب بھی اللہ کی رحمت برستی ہے تو عروس البلاد کے لوگوں کے لیے یہ رحمت زحمت بن جاتی ہے۔ جب میئر، وزیراعلیٰ، گورنر اور دیگر ذمے دار سرکاری حکام بارشیں ہونے پر گھروں اور دفاتر سے نکل کر ’’فوٹو سیشن اور میڈیا سیشن‘‘ کروانے کو اپنی ڈیوٹی سمجھیں گے تو ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
تقریبا تین کروڑ کی آبادی والے کراچی کو مردم شماری میں محض ایک کروڑ 59 لاکھ ظاہر کریں یا کچھ اور، شہر کو درپیش مسائل تو جوں کے توں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کا کراچی 25، 30 سال پہلے والے کراچی سے بدتر ہوچکا ہے۔ یہاں اسٹورم ڈرینج (بارش کے پانی کی نکاسی) کا نظام تو برسوں پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔ شاید یہ دنیا کا واحد بڑا شہر ہے جہاں بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں ہے، جہاں یومیہ پیدا ہونے والے تقریباً 13 ہزار ٹن کچرے میں سے روزانہ 5 ہزار ٹن اٹھایا ہی نہیں جاتا بلکہ اسے میدانوں کھلی جگہوں اور ندی نالوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ’’شہر‘‘ ہے۔ جسے شہری اور دیہی میں تقسیم کیا جاچکا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ بھی ہے کہ اس شہر کے ساتھ جمہوریت پسندوں نے کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہاں بلدیاتی الیکشن بھی ہمیشہ آمرانہ دور میں کرائے گئے۔ 2015 میں اگر یہاں جمہوری دور میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات ہوئے تو وہ بھی عدالت عظمیٰ کے حکم پر۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے شہر کو جمہوریت کے چمپئنوں نے جس قدر نظرانداز کیا، کسی نے بھی نہیں کیا۔
ذکر بارشوں کا ہے اس لیے اسے یہیں تک محدود رکھنا ضروری ہے۔ کراچی پر 1990 کے بعد 2001 میں پرویز مشرف کے دور میں توجہ دی گئی۔ اس دور میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے پہلے ناظم نعمت اللہ خاں نے اپنی ’’جماعت‘‘ کی مدد سے ستر سال کی عمر میں کراچی کو حقیقی شہر بنانے لیے جس طرح رات دن محنت کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے چار سالہ دور میں نہ صرف بارش کے پانی کے نکاسی کے لیے منصوبے بنائے بلکہ پانی کے منصوبے کے تھری کو بھی مکمل کیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے شہر میں پارکوں کی حالت بھی بہتر کی اور نئے پارکس بھی بنائے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر دباؤ ڈال کر شہر کی ترقی کے لیے 29 ارب روپے کا پیکیج منظور کرایا اور کراچی میں موجود تمام اداروں سے اس پیکیج کے لیے مالی تعاون حاصل کیا۔ جس کی وجہ سے شہر کی احیا ہوا۔ مگر ان کا دور ختم ہوتے ہی جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
اللہ کا کرم ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق طوفانی بارشیں نہیں ہوئیں مگر حیرت کی بات تو یہ بے کہ اس پیشگی اطلاع کے باوجود بلدیہ عظمٰی کراچی کے ’’حق پرست‘‘ میئر وسیم اختر اور عوام دوست جیالے مراد علی شاہ نے بارشوں کے دوران ہونے والے نقصانات سے بچنے، سڑکیں اور بالائی گزرگاہوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ کے ایم سی ہر سال 50 کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود نالوں کو ’’کلیئر‘‘ نہیں کراسکی۔ تجاوزات کے نام پر تاجروں کے پرانے کاروبار کو تو ختم کیا مگر نالوں پر قائم کی گئی غیرقانونی تعمیرات آج تک نہیں ہٹائی جاسکی۔ میئر نے 2008 سے 2018 تک سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروس رہنے والے مسعود عالم کو نالوں کی صفائی سمیت دیگر میونسپل سروس کا نظام درست کرنے کے بجائے اسے تباہ و برباد کرنے کے الزام سے بچانے کے لیے سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز سے تو ہٹایا مگر انہیں انتہائی چالاکی سے سینئر ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کی غیر قانونی اسامی پر متعین کردیا۔ موجودہ دور میں میئر شہر سے زیادہ مذکورہ سینئر ڈائریکٹر سے مخلص نظر آئے۔ خلاف قانون اسامی پر تعینات رکھنے کے ساتھ انہیں امریکا میں ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے ہوسٹن جانے کی بھی اجازت دے دی۔ کراچی میں بارشیں ہوئی تو نالے بھرنا ہی تھے نالے بھریں گے تو پانی کی نکاسی کا نظام مفلوج ہی ہونا ہے۔ مگر اس غفلت پر نہ تو وزیر بلدیات سعید غنی نے ایکشن لیا اور نہ ہی میئر وسیم اختر نے، دونوں ہی تالاب کا منظر پیش کرنے والی سڑکوں کا دورہ کرتے رہے۔ ایک وقت تو بارش کے موقع پر گورنر عمران اسماعیل خود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے میئر کو ساتھ بٹھاکر سڑکوں پر گھومتے رہے اور گوجر نالے کے قریب قائم کیفے پیالہ ہوٹل پر بیٹھ کر ’’فوٹیج اور تصاویر بنواتے رہے‘‘۔ مگر دونوں ہی نے مقبوضہ گوجر نالوں کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ شہریوں نے محسوس کیا کہ میئر اور گورنر بارش کے بہانے سے ساتھ گھوم کر ’’وفاق اور کراچی کے ایک روٹ‘‘ پر ہونے کا اظہار کرتے رہے۔ گورنر کو چاہیے تھا کہ اس دورے کے دوران میں وہ کے الیکٹرک کے دفاتر بھی جاتے اور بارشوں سے خراب ہوجانے والے بجلی کے نظام کو بحال کرنے کے لیے کے الیکٹرک کے کام کا جائزہ لیتے۔ ایسا محسوس ہوا کہ گورنر کی اصل ڈیوٹی میئر کو سیر کرانے کی تھی۔ میئر اور گورنر کی قربتوں سے کراچی کے مسائل کے سدباب کے کوئی آثار تک نظر نہیں آئے البتہ یہ بات واضح ہوئی کہ جلد ہی سندھ گورنمنٹ کو تحلیل کرکے کراچی سمیت پورے صوبے پر حکمرانی کے لیے گورنر اور میئر بے چین ہے۔ دونوں کی جماعتیں یعنی پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم صوبے پر کنٹرول کرکے اپنی مشترکہ حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ سندھ کی حکومت بنانے میں کامیاب ہونے کے باوجود مزکورہ دونوں جماعتیں کراچی سمیت صوبے کے لوگوں کو درپیش مسائل کا سدباب کردیں۔

Comments