میرا راجھستانی دوست۔ادریس بختیار : سہیل سانگی کی تحریر

ادریس بختیار میرا راجستھانی اور حیدرآبادی دوست
ادریس اور میں دو الگ انتہائیں۔ وہ پکا جماعتیہ اور میں ٹہرا سرخا۔
آج ادریس بختیار ہم سے جدا ہو گئے۔

سہیل سانگی
یہ واہمہ ہے کہ علم ، دانش، ادب کراچی یا پھر لاہور اور اسلام آباد پر ختم ہیں۔ ملک کے باقی حصوں کو دیہات یااندرون ملک، اندرون سندھ سے موسوم کیا جاتا ہے، جیسے یہاں پر بھاؤ لوگ یا پینڈو رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے۔ حیدرآباد کی اہمیت لکھنے پڑہنے کے حوالے سے کبھی بھی کم نہیں رہی ۔ صرف سندھی بولنے والے ہی نہیں بلکہ اردو بولنے والوں میں بھی بہت بڑے نام حیدرآباد نے ہی پیدا کئے۔ شاعروں

میں حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی، اختر اکبر آبادی کے نام سر فہرست ہیں۔ پاکستان کے مزاحیہ شاعری میں بھی عنایت علی خان، چھوٹے بحر میں اچھی غزلیں لکھنے والے قابل اجمیری کا تعلق بھی حیدرآباد سے تھا۔ رومانوی شاعری یا شاعری کو خاتون کے روپ میں بیان کرنے والی شاعرہ بھی فہمیدہ ریاض حیدرآباد سے ہیں۔ تاریخ کو نئے انداز سے بیان کرنے اور لکھنے والے ڈاکٹر مبارک علی یا مشہورتعلیم دان مرزا عابد عباس بھی حیدرآبادی ہیں۔
اسی طرح سے صحافت کی دنیا کے بڑے ناموں میں بات صرف ظفر عباس، مظہر عباس ، حبیب غوری پر ہی ختم نہیں ہوتی۔یوں صحافت، ادب اور تعلیم کے شعبوں میں اپنا پیدا کرنے والے حیدرآبادیوں کی ایل لمبی لسٹ ہے۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ادریس بختیار اب بزرگی کی حدود کو چھو رہے ہیں۔ انہیں حال ہی

میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا ہے ان کا تعلق بھی حیدرآباد سے ہے۔گزشتہ روز ان کے اعزاز میں کراچی میں بسنے والے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے حضرات نے رہائشیوں نے اپنی تنظیم ’’پھلیلین ‘‘ کے زیر اہتمام تقریب منعقد ہوئی ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کے ہم شہر لوگوں نے انہیں تب تسلیم کیا جب انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ملا۔
ادریس بختیار کے آباؤ اجداد اجمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے وہ صرف حیدرآبادی ہی نہیں کافی حد تک اجمیری بھی ہیں۔ حیدرآباد میں یہ محاورہ عام ہے کہ اجمیروں کو نہ خوشبو آتی ہے نہ بدبو، لیکن ادریس صاحب کے معاملے میں ایسا نہیں۔ وہ بہت سادگی پسند، مہامن نواز اور خوش مزاج طبیعت کے مالک ہیں۔
ادریس اور میں دو الگ انتہائیں ہیں۔ وہ پکا جماعتیہ اور میں ٹہرا سرخا۔ہماری دوستی زمان اور مکان کی قید سے ہٹ کر ہے۔ پکی اور پختی ۔ جب بھی ملیں جہاں بھی ملیں۔ ہم ویسے کے ویسے ہیں۔دنیا میں بہت بدلاؤ آیا ہے لیکن اس بدلاؤ نے آپس کے تعلق کے حوالے سے کوئی بدلاؤ نہیں آیا۔
ادریس صاحب سے میری پہلے ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب خطے میں سرد جنگ کو گرم جنگ میں تبدیل کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھی۔ پاکستان اور افغانستان میدان جنگ بننے والے تھے۔ اس تیاری کے طور پر پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے خلاف پی این اے کے نو ستاروں کی تحریک چلی تبدیل ہوری تھی۔
بھٹو نے عام انتخابات کا اعلان کردیا تھا۔ وہ انتخابات کی کوریج کے حوالے سے حیدرآباد تشریف لائے تھے۔ میرے دوست علی حسن، جن کے بارے میں مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ صرف میرے نہیں ادریس صاحب کے بھی دوست ہیں ملاقات ہوئی۔ وہ ہاتھ میں کیمرا لئے ہوئے تھے۔ باتوں سے مجھے وہ صحافی سے زیادہ فوٹوگرافر لگ رہے تھے۔
علی حسن نے اپنے مخصوص روایتی انداز میں ہم دونوں کا ایک دوسرے تعارف کرایا۔ الفاظ تو مجھے یاد نہیں۔ مفہوم کچھ اس طرح کا تھا کہ ہم دو فکری اور سیاسی طور پر الگ الگ انتہا ہیں۔ میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والا اور پیپلزپارٹی کی منتخب حکومت کا حامی۔ کچھ سیاسی صورتحال پر بحث ہوئی۔
میں ان خاصے عرصے تک شک کی نگاہ سے دیکھتا رہا کہ وہ ہمارا سیاسی مخالف ہے۔ لیکن انہوں نے کسی لمحے بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں ان کا سیاسی مخالف ہوں۔بہت جلد میرے شکوک دور ہو گئے۔ میں بھی انہیں ایک اچھا دوست سمجھنے لگا۔یعنی ہماری دوستی میں کبھی بھی نظریاتی سرحدیں آڑے نہیں آئیں۔ جب بھی وہ حیدرآباد آتے تھے رات کو اسٹیشن روڈ پر واقع کیفے فردوس کے تھلوں پر ان کے ساتھ محفلیں جمتی تھیں۔ ویسے بھی حیدرآباد کی تھلہ پالیٹکس اور مباحثے مشہور ہیں۔ تعلقات، آپس میں مل بیٹھ کر بحث اور باتیں کرنا حیدرّباد کا مخصوص کلچر ہے۔ حیدرآباد مکس آبادی کے باوجود شہر اور دیہات کا امتزاج ہے۔ شاید اس لئے بعض لوگ اس شہر کو بڑا دیہات کہتے ہیں۔
جماعتیہ ہونے کے باجود ادریس صاحب فکر اورسوچ میں رجڈ یا سخت گیر نہیں۔ وہ بندھے ٹکے فکر اور خیالات سے ہٹ کر سوچتے ہیں۔
اختلاف رائے، یا نئی معلومات پر ردعمل کے معاملے میں ان کا مخصوص ردعمل ہوتا ہے۔ مثلا’’ ایسا تھوڑے ہی ہے‘‘۔’’ ہو سکتا ہے‘‘، ’’شاید‘‘، ’’دیکھنا پڑے گا۔‘‘ اس معاملے میں خاصے اوپن ہیں۔
وہ اپنے اہل عیال سمیت جماعت اسلامی کے حامی ہیں۔ لیکن ان کی اس اوپن نیس کی وجہ سے مجھے ہمیشہ شک رہتا ہے کہ وہ واقعی اصلی تے وڈے جماعتیے ہیں بھی یا نہیں؟ کم از کم مجھے وہ خاصے mis fit لگتے ہیں۔
صلاح الدین صاحب جیسے سخت گیر ایڈیٹر کے ماتحت کام کرنے والے ادریس کے کھاتے میں یہ بات ب شمار ہوتی ہے کہ کراچی میں ایک سرخے کا بیٹے کو ایک جماعتیے نے بلا نظریاتی امتیاز یا تعصب کے اچھی تربیت دی اور بہت کچھ سکھایا۔
انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا۔ بعد میں کراچی میں ملازمت کے دوران کراچی یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کرنے کی کوشش کی۔ لیکن نہ کر پائے۔ کراچی یونورسٹی کو ان کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آیا یا وہ اس یونیورسٹی کا فلسفہ سمجھ نہ سکے۔کسی زمانے میں انہوں نے بہت پڑھا، ادب، سیاست، تاریخ ، فلسفہ ،کرنٹ افیئرس وغیرہ۔ اب شاید ہی پڑھتے ہوں۔ اب تو لوگ ان پر یا انکو پڑھنا چاہ رہے ہیں۔
ادریس بختیار صاحب کی صحافت کی مسافری خاصی لمبی ہے۔ ڈیلی انڈس ٹائیمز حیدرآباد سے شروع ہونے والا سفر عرب نیوز سے ہوتا ہوا، جسارت، اسٹار ،ہیرالڈ تک ہے۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں۔ انہوں نے انڈین اخبار ٹیلیگراف اور بی بی سی میں بھی طویل عرصے تک کام کیا۔ آج کل جنگ گروپ سے وابستہ ہیں۔ انہیں مقامی، یا پھر جسارت جیسے خالصتا سیاسی پارٹی کے آرگن سے لیکر عالمی میڈیا تک کثیر جہتی صلاحیت اور تجربہ ہے۔ وہ صحافت کے معاملے میں بالکل ہی پروفیشنل ہیں۔
ادریس سے میرا ایک اور شتہ ہے وہ یہ کہ میں بھی راجستھانی ہوں اور وہ بھی۔ راجستھان اور تھر کی دھرتی بہت زرخیز ہے۔ جہاں کہیں جگہ ملے اس زمین کے لوگ اپنی جگہ ہی نہیں بلکہ نام بنا لیتے ہیں۔تھر کے مسکین جہان خان کھوسو ہوں یا ماہر نفسیاتی امراض ڈاکٹر ہارون احمدہوں ، مہدی حسن ہوں یا کراچی کے سابق میئرنعمت اللہ خان یا پھر ادریس بختیار۔
بلکہ میں باغ علی سلاوٹ کی اس تھیوری سے متفق ہوں کہ اس بر صغیر کی ابتدائی زبان سنسکرت وغیرہ نہیں راجستھانی ہے۔ اور میرا، کبیر اور اس دور کے دیگرشعراء نے ہندی میں نہیں راجستھانی میں شاعری کی ہے۔ اپنی اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لئے کراچی سے تعلق رکھنے والے باغ علی سلاوٹ نے راجستھانی ادب اور راجستھانی قاعدہ کے نام سے دو عدد کتابیں بھی لکھی ہیں۔
باغ علی کا یہ دعوا مجھے اس لئے بھی درست لگتا ہے کہ برصغیر کے تمام گائک جب موسیقی سیکھتے ہیں تو ان کے لئے مشہور راجستھانی لوک گیت ’’کیسریا بالم آؤ نا مارے دیس‘‘ بطور قاعدہ کے گانا پڑتا ہے اور اس پر عبور حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ادریس بختیار حیدرآباد چھوڑ کر کراچی آئے۔حیدرآباد سے انسیت کا یہ عالم تھا کہ برسہا برس تک بھابھی ( ادریس صاحب کی بیگم ) ہر ماہ گھر کے راشن میں سے مصالحے حیدرآباد سے ہی خریدتی تھیں۔ لیکن انہوں نے حیدرآباد سے رشتہ نہیں توڑا۔ جب تک ان کی اولاد جوان ہوئی اور ان کی اولاد نے خود کو حیدرآباد کے بجائے کراچی کا بنا دیا۔
سیاست اور صحافت نظریاتی کے بجائے اب جب لسانی اختلاف کی شکل اختیار کرچکی، کئی لوگ اسی حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں اور بعض لوگ اس میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
ادریس بختیار اس پرانی جنریشن کے ہیں جس کے اختلافات نظریاتی تو تھے لیکن لسانی نہیں ہوتے تھے۔ یہ جنریشن اب ناپید ہوتی جارہی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہماری جنریشن تک صرف نظریاتی اختلافات تھے جس نے ذاتی دشمنی کی شکل اختیار نہیں کی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دریائے سندھ کی روانگی کی طرح ہماری دوستی چلتی رہی ہے اس نے ذہنوں اور دلوں کو سیراب تو کیا ہے لیکن کبھی بنجر نہیں بنایا۔
یہ آرٹیکل میں نے ان کی زندگی میں لکھا تھا۔

Comments