ادریس بختیار کی موت کا ذمہ دار کون؟

ادریس بختیار  کی موت کا ذمہ دار۔

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں۔

صحافیوں کی یادیں۔



آج امریکہ میں چوبیسواں روزہ ہے۔ابھی ابھی سو کر اٹھا تو واٹس ایپ پر بھائی ضیا الاسلام زبیری کی بھیجی گئی یہ دل خراش خبر پڑھی کہ سینئر صحافی کالم نگار اور PFUJ دستور کے سابق صدر ادریس بختیار اب ہم میں نہیں رہے ہیں، رات کو تراویح پڑھ کر 12 بجے گھر پہنچے تو یہ اطلاع تھی کہ وہ ادارہ امراض قلب میں نازک حالت میں داخل ہیں، پھر سحری کے وقت کسی نے لکھا تھا کہ وہ Ventilator پر ہیں اور اب زبیری بھائی نے یہ المناک خبر دی ہے کہ ان کا رضائے الہی سے انتقال ہو گیا ہے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالی ان کی صحافت اور صحافیوں کے لئے خدمات کو قبول کرے۔ان کی ہر قسم کی لغزشوں سے درگزر کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام پر فائز کرے۔وہ شریف النفس انسان،بہترین صحافی اور درد مند دل رکھنے والے مہربان شخص تھے۔
ہمارے  ذہن میں اس وقت ان سے وابستہ یادوں کا ایک انبار ہے جو پردہ سیمیں پر فلم کی طرح چل رہا ہے۔ہمیں ان سے پہلی ملاقات یاد آئی جو 1970 میں ہوٹل جبیس میں ہوئی تھی،اس وقت جنرل یحی خان کے مارشل لا کا دور تھا، انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا اور اس کی طول ترین انتخابی مہم شروع ہو چکی تھی۔جبیس ہوٹل میں انتخابی مہم کے سلسلے ہی میں ایک استقبالیہ تھا جو مولانا شاہ احمد نورانی کے اعزاز میں جمیعت علمائے پاکستان کے تحت ان کی بیرون ملک سے واپسی اور ان کے سیاست میں سرگرم حصہ لینے کے بارے میں دیا گیا تھا۔اس دور میں زیادہ تر تقریبات جبیس ہوٹل ہی میں منعقد ہوتی تھیں۔صحافیوں کے لئے مخصوص نشتوں پر ہمارے ساتھ ہی ایک صاحب آن بیٹھے۔ ہم نے ان کو یاد دلایا کہ یہ صحافیوں کی نشستیں ہیں تو انہوں نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ وہ بھی صحافی ہیں اور وہ PPI کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں خود ہی اپنا مزید تعارف کرایا کہ وہ حال ہی میں حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوئے ہیں۔ہماری اچانک ہنسی چھٹ گئی۔ان کے پوچھنے پر بھی ہم نے اس کی وجہ نہیں بتائی لیکن جب ان کا اصرار بڑھا تو ہمیں انہیں بتانا پڑا کہ ہمیں آپ کے انکشاف پر “حیدرآبادی مافیا” کی اصطلاح یاد آگئی تھی جو ہم نے پریس کلب میں حیدرآباد سے کراچی”ہجرت “ کرنے والے صحافیوں کے لئے مذاق میں اکثر استعمال کی جاتی تھی۔ اس پر وہ بھی مسکرا دیئے تھے اور ذرا بھی برا نہیں منایا تھا۔اس دن جبیس ہوٹل میں ان سے دوستی اور بھائی چارے کا جو تعلق قائم ہوا وہ مسلسل نصف صدی تک جاری رہا۔

ادریس بھائی نے بھرپور صحافتی زندگی بسر کی اور صحافت کے ہر گھاٹ کا پانی پیا۔ وہ ہماری طرح صحافت کے ایک ہی ادارے کے ساتھ وابستہ نہیں رہے بلکہ پرنٹ میڈیا میں اردو،انگریزی کے بڑے بڑے اخبارات اور جرائد میں سب ایڈیٹر،رپورٹنگ اور ایڈیٹر سے لے کر الیکٹرونک میڈیا میں بھی اپنا سکہ جمایا۔وہ ڈان کے مشہور انگریزی میگزین Herald کے جوائنٹ ایڈیٹر بھی رہے، HUM ٹی وی میں اینکر بھی،جنگ میں کالم نگار بھی اور Geo میں ایڈیٹوریل کمیٹی کے سربراہ بھی۔ ان کی صحافت کا آخری assignment جیو ہی کا تھا۔

کوئی 10 ماہ قبل Geo اور Jang نے بقول ان کے مالی بحران کی وجہ سے جن دو اڑھائی ہزار یا اس سے بھی زیادہ کارکنوں کو ملازمت سے اچانک فارغ کیا۔ان میں جواد نظیر،جوابدہ والے افتخار احمدفتنہ، پچاس منٹس والے عبدالرؤف کے علاوہ ادریس بختیار بھی شامل تھے۔ہمیں اس کی خبر ملی تو ہم نے ادریس بھائی سے تصدیق چاہی تو انہوں نے کہا آپ کی اطلاع درست ہے۔ وہ شدید بیمار تھے اور اس طرح اچانک فارغ کئے جانے پر بڑے دل گرفتہ تھے۔وہ بتا رہے تھے کہ “ مجھے Herald میں Dawn گروپ کی انتظامیہ سے کوئی شکوہ شکایت نہیں تھی۔ مجھے تو Geo والے بڑے وعدے وحید کر کے خود لے کر آئے تھے پھر انہوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا” ہماری ان سے اس دوران دوچار بار پھر بات ہوئی تو اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ کہ رہے تھے۔ “ عارف بھائی آپ سے کھل کر بات اس لئے کرتا ہوں کہ آپ کو جنگ کے مالکان کے ساتھ کام کرتے ہوئے نصف صدی گزر چکی ہے۔آپ میر شکیل سے بات کریں اور انہیں بتائیں کہ میرا فون تو سن لیں۔تاکہ انہیں وہ وعدے یاد دلا سکوں جو انہوں نے مجھے Herald سے Geo میں لاتے وقت کئے تھے۔” ادریس بھائی نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ “ اگر میری بات نا سنی گئی تو میں جنگ جیو کے دفتر کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال کروں گا۔ عارف بھائی۔ آپ مجھے جانتے ہیں جب میں کوئی بات کرتا ہوں تو بڑی سنجیدگی سے کرتا ہوں۔اس کو مذاق نا سمجھئیے گا”

ہم ان کی اس بات سے خوفزدہ ہو گئے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ادریس بھائی کو اس طرح ملازمت سے فراغت پر کتنا گہرا صدمہ پہنچاہے حالاں کہ ان کے بیٹے بھی مختلف ٹی وی چینلز پر کام کرتے اور برسر روزگار ہیں۔اگر ان کا یہ حال ہے کہ مارنے مرنے پر تل گئے ہیں تو یہ ڈھائی تین ہزار کارکن کس برے حال میں ہوں گے۔ جن کے پورے خاندان کی روزی روٹی اور بچوں کی تعلیم کا واحد سہارا ہی یہ کارکن تھے۔ ہم نے میر شکیل الرحمن اور میر ابراہیم سے بات کرنے کی متعدد بار کوشش کی لیکن رابطہ نا ہو سکا۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم ادریس بھائی کا پیغام دونوں میر صاحبان تک پہنچانے میں ناکام ہوگئے تھے۔ادریس بھائی نے جنگ اور جیو کے دفتر کے سامنے بھوک ہڑتال تو نا کی لیکن اس صدمے سے اپنی جان جان آفرین کے سامنے ضرور پیش کر دی۔پتہ نہیں کہ یہ بات انہوں نے کس گھڑی کہی تھی کہ “ عارف بھائی میں یہ بات سنجیدگی سے کہ رہا ہوں کہ انہوں نے میری بات نا سنی تو جان کی بازی ہار جاؤں گا۔
ادریس بختیار کی موت سے پہلے جواد نظیر کا انتقال بھی ایسے ہی حالات میں اس وقت ہواتھا جب ان کو Geo کی ملازمت سے اچانک فارغ کر دیا گیا تھا۔

اللہ حافظ ادریس بھائی۔ہمارا انتظار کیجئے گا۔ ہم بھی جلدی آپ سے ملیں گے۔

عارف الحق عارف

Comments