طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ خدائے نور ناصر بی بی سی،

  • پہلے دن کے آغاز میں طالب رہنما ملاعبدالغنی برادر پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے اور اجلاس میں مختصر بات چیت بھی کی۔پہلے دن کے آغاز میں طالب رہنما ملاعبدالغنی برادر پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے اور اجلاس میں مختصر بات چیت بھی کی۔
افغان طالبان نے روس میں ہونے والے بین الافغان اجلاس میں بھی افغانستان کے حکومتی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ جس کے بعد اس اجلاس میں افغان حکومت کے نمائندے بھی شریک نہیں ہوئے۔
بعض افغان ذرائع کے مطابق دوسرے دن کا اجلاس ایجنڈے پر اختلافات کے باعث ہوا ہی نہیں۔ اس سے پہلے منگل کو ہونے والے اجلاس میں افغان حکومت کے دو نمائندے شامل تھے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ٹوئٹر پیغام کے مطابق پہلے روز چونکہ روس اور افغانستان کے سو سالہ سفارتی تعلقات پر بات چیت ہورہی تھی، اسی لئے اُنھوں نے افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ تقریب میں شرکت کی تھی۔ لیکن اب افغان طالبان حکومتی نمائندوں کی موجودگی میں بین الافغان کانفرنس میں شرکت نہیں کرسکتے۔
افغان سیاستدانوں کے وفد میں سابق افغان صدر حامد کرزئی، افغان امن کونسل کے سربراہ کریم خلیلی، روس میں متعین افغان سفیر ڈاکٹر لطیف بہاند اور دو خواتین سمیت 24 ارکان شامل تھے، جبکہ ملاعبدالغنی برادر کی سربراہی میں چودہ رکنی طالبان وفد ماسکو کے اس اجلاس میں شرکت کے لئے وہاں پہنچے تھے۔
پہلے دن کے آغاز میں طالب رہنما ملاعبدالغنی برادر پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے اور اجلاس میں مختصر بات چیت بھی کی۔ 58 سالہ ملا عبدالغنی برادر پاکستان میں تقریباً نو سال کی قید کے بعد رواں برس فروری میں دوحہ چلے گئے تھے، جہاں اُن کو طالبان نے قطر سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا۔

افغانستانماسکو کانفرنس کے پہلے دن افغان حکومت کے جن دو نمائندوں نے شرکت کی تھی، اُن میں افغانستان کے امن کونسل کے سربراہ کریم خلیلی اور روس میں متعین افغان سفیر ڈاکٹر لطیف بہاند شامل تھے۔ افغان سفیر نے افغان وزیرخارجہ کا بیان بھی پڑھ کر سنایا تھا لیکن دوسرے دن کے آغاز پر ہی طالبان نے افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا۔
افغان طالبان امریکہ کو افغانستان پر’قابض‘ سمجھتے ہیں اور اُن کا سب سے بڑا مطالبہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہے اور افغان حکومت کو امریکہ کی ’کٹھ پتلی‘ حکومت قرار دے رہی ہے۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان سنہ 2013 سے اب تک لگ بھگ اُنیس ادوار ہوچکے ہیں۔ اس عرصہ میں طالبان کی کئی دوسرے ممالک کے وفود کے ساتھ بھی افغان امن کے سلسلے میں بات چیت ہوئی ہے، لیکن امریکہ سمیت کئی ممالک کی کوششوں کے باوجود بھی افغان طالبان، افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے راضی نہیں ہوئے ہیں۔
افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ طالبان اُس وقت کے انتظار میں ہیں جب اُن کے سب سے بڑے مطالبے پر عملدرآمد ہوجائے۔
ان کا کہنا ہے ’طالبان شاید انتظار کررہے ہیں، کہ اُن کا سب سے بڑا مطالبہ جو کہ امریکی افواج کے انخلا کا ہے، اُس کا کوئی ٹائم ٹیبل دیا جائے، پھر میں سمجھتا ہوں کہ طالبان کسی نہ کسی شکل میں افغان حکومت سے بھی مل جائیں گے۔‘
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق طالبان اس لیے بھی افغان حکومت سے ملنے سے انکار کرتے ہیں، کیوں اُن کی یہ کوشش ہے کہ کابل میں طالبان مخالف قوتوں کو تقسیم کیا جائے۔
اُن کے مطابق جب حزب مخالف کے سیاسی جماعتوں اور رہنماوں سے طالبان ملتے ہیں اور حکومت کے ساتھ ملنے سے انکار کرتے ہیں تو ان جماعتوں اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔
کابل میں جو حزب مخالف کی جماعتیں یا سیاستدان ہیں، اُن سے تو طالبان کی دو مرتبہ صرف ماسکو میں ملاقاتیں ہوئی ہیں اور پھر بھی اُن سے ملنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اشرف غنی کی منتخب آئینی حکومت اکیلی رہ گئی ہے۔‘
لیکن کیا افغان حکومت کی غیر موجودگی میں ان مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے؟
صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسفزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغان حکومت کے بغیر اس لئے بھی مذاکرات میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی کیوں کہ وہ ایک اصل فریق ہے۔
انھوں نے کہا ’اگر اس طرح کے مذاکرات میں صرف عید کے لیے بھی سیز فائر نہیں ہوسکتی تو میرے خیال میں امن کی بحالی شاید زیادہ مشکل ہوگی۔ ہاں ان بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغان عوام، افغان سیاستدانوں اور طالبان کے درمیان رابطے بڑھ رہے ہیں۔‘

Comments