ارطغرل ۔سیزن 5 آخری قسط۔ایک تاثر :آصف محمود

ارطغرل سیزن فائیو کی آخری قسط دیکھ کر بیٹھا سوچ رہا ہوں : اب کیا کیا کروں گا؟
 تحریر سر آصف محمود
شوریدہ سر ندی کے پانیوں کی طرح اس ڈرامے کے ساتھ ساتھ بہتے کبھی خیال ہی نہ آیا ایک دن اسے ختم بھی ہو جانا ہے ۔ خانہ بدوشوں کی کسی آباد محفل کے پہلو میں جیسے رات سوئے ہوں اور صبح آنکھ ملتے اٹھیں تو خانہ بدوش اپنے خیمے اٹھا کر روانہ ہو چکے ہوں ۔ اب برف زاروں کے نیچے آپ کسی جھیل کے کنارے تنہا کھڑے ہوں ، کچھ سمجھ نہ آئے یہ کیا ہو گیا، کچھ معلوم نہ ہو دل میں رہنے والے اب کتنی دور جا کر بستی بسائیں گے ۔ 

ارطغرل ایک ڈرامہ نہ تھا ، ڈرامے کتنے آئے اور فراموش ہو گئے ۔ یہ تو کچھ اور تھا ۔ شاید ایک طلسم، ہاتھ تھامے جو آدمی کو صدیوں پیچھے لے جائے ۔ کسی پہاڑ کے دامن میں آپ بیٹھے ہوں اور نیچے وادی میں صدیوں پرانی تہذیب آپ کے سامنے انگڑائی لے رہی ہو ۔ پھر بیٹھے بیٹھے آپ کا وجود تحلیل ہو کر اس منظر نامے کا حصہ بن جائے ۔ ’حائمہ انا ‘ کے خیمے میں آپ کو ممتا کی حرارت محسوس ہونے لگے اور آپ خانہ بدوشوں کے اس قبیلے کا ایک ایسا فرد بن جائیں جو قبیلے میں سب کو دیکھ سکتا ہو لیکن قبیلے والے اسے نہ دیکھ سکیں ۔ 

پہاڑوں کی خاموشی میں بیٹھے ، اکثر میں سوچتا تھا صدیوں پہلے زندگی کیسی ہو گی ۔ ارطغرل گویا اس سوال کا جواب تھا ۔ قدیم زمانوں کے کتنے ہی رنگ تھے جنہوں نے وجود کو قوس قزح بنا دیا ۔ ارطغرل جس نے دیکھا ، اسے لاحق ہو گیا ۔ یہ ایک طلسم ہے جس نے چھوا ، پتھر کا ہوگیا ۔  

ارطغرل ایک سفر کا نام ہے ۔ ایک مسافت شوق ۔ کچھ پڑاءو ایسے بھی تھے محسوس ہوا دل وہی کہیں چھوڑ آئے اور اب آگے صرف دھول پھونکنا ہے ۔ جب ندی میں قائی قبیلے کا سردار  سلیمان شاہ اچانک گھوڑے سے گر کر جاں بحق ہو گیا ۔ قبیلے کا سردار ہی نہ تھا ، وہ گزری روایات کا ایک عکس تھا ۔ ایسے بانکے آدمی کی موت ، دل ٹوٹ گیا ۔ اور جب چچا دمیر کے وجود کوتلوار نے کاٹ پھینکا تو سوگواری وجود کی گہرائیوں میں اتر گئی ۔ بھلا ایسے آدمی کو مارنا ضروری تھا کیا؟ اسلہان جیسی لڑکی کی موت بھی اداس کر گئی ۔ لیکن یہ ساری اداسیاں اگلی قسط کی سنسنی خیزیوں میں دھیان سے محو ہو جاتیں ۔ لیکن اب تو ڈرامہ ہی ختم ہو گیا ۔ ساری محفل ہی اجڑ گئی ۔ اس دکھ کا کیا مداوا ہو؟ 

بامسی کے قہقہوں کی تو عادت سی ہو گئی تھی ۔ کیسا بانکا جنگجو تھا ۔ دو نوں ہاتھوں میں پکڑی تلواریں جب دشمن کی شہہ رگ کاٹتیں تو کائنات گویا تھم سی جاتی ۔ اور وہ ترگت اور اس کا کلہاڑا، آرتک بے کی وہ مسیحائی ،دمرل، اور پھر سلیمان شاہ کا بیٹا وہ ارطغرل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کس کس کردار کو یاد کیا جائے؟ 

انگریزی ادب کا طالب علم ہوں ۔ کتنی ہی فلمیں دیکھیں اور کتنا کچھ پڑھ ڈالا ۔ لیکن ارطغرل جیسا کچھ نہ تھا ۔ یہ ڈرامہ نہیں ایک شاہکار تھا، یہ ایک طلسم تھا ، ایک جادو تھا ، ۔ جس نے اسے دیکھا ، اس نے دیکھا ، جس نے نہیں دیکھا وہ جان لے اس نے کچھ نہیں دیکھا ۔

Comments