چین سے تجارتی معاہدہ اور پاکستانی مفادات

چین سے تجارتی معاہدہ کیلئے تصویری نتیجہ
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ بیجنگ کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے میں توسیع پر دستخط کیے گئے ۔ سرکار کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ آزاد تجارتی معاہدے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا اور چین کو پاکستان کی برآمدت میں کماحقہ اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ اس کے جواب میں کاروباری برادری کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے پاکستان کی صنعتیں مزید تباہ ہوں گی کیوں کہ ارزاں چینی مصنوعات کا مقابلہ پاکستانی صنعت کے بس کی بات نہیں رہی ہے ۔ پاکستان اور چین کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ پر 2006 میں دستخط کیے گئے تھے جس پر عملدرامد 2007 سے شروع ہوا تھا ۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان پہلے ہی چین کو ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں 45 فیصدچھوٹ دے رہا ہے ۔ آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں یہ چھوٹ 45 فیصد سے بڑھ کر 75 فیصد ہوجائے گی ۔ کہا جارہا ہے کہ آزاد تجارتی معاہدہ کے دوسرے مرحلے پرعملدرآمد سے پہلے برس ہی پاکستان کو ریوینیو کی مد میں 60 ارب روپے کا نقصان ہوگا جبکہ 15 برس میں چھوٹ اور ٹیکسوں کی رعایت کی مد میں 264 ارب روپے کا نقصان ہو گا ۔ یہ بات خفیہ نہیں ہے کہ چین میں صنعتوں کو زبردست رعایتیں حاصل ہیں ۔ انہیں قیام سے لے کر پانچ برس تک مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے جبکہ ٹیکس کی مد میں بھی خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں ۔ اسی طرح انہیں برآمدات کے لیے بھی سبسڈی دی جاتی ہے جس کی بناءپر چینی مصنوعات کی قیمتیں انتہائی کم ہوجاتی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں بجلی و گیس کے ٹیرف انتہائی بلند ہیں ، اسی طرح مختلف ٹیکسوں نے صنعتوں کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کی مصنوعات کسی بھی طرح سے چینی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی صنعتیں روز بند ہورہی ہیں اور پاکستانی منڈیوں پر چینی مصنوعات کا قبضہ ہے ۔ جب 2006 میں آزاد تجارتی معاہدہ پر دستخط کیے گئے تھے ، اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ اس سے پاکستانی صنعتوں کو فائدہ ہوگا ۔ پاکستان کو چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے سے کتنا فائدہ ہوا ہے ،ا س کا اندازہ چین اور پاکستان کے مابین تجارتی توا زن کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ چین اور پاکستان کے مابین تجارتی حجم میں روز اضافہ ہورہا ہے مگر تجارت میں توازن پہلے ہی دن سے ہی چین کے حق میں ہے ۔ یعنی چین سے زیادہ مالیت کی درآمدات ہورہی ہیں اور چین کے لیے پاکستان سے اس کا عشر عشیر بھی برآمد نہیں ہورہا ہے ۔ یہ بات ماننے میں کوئی عار نہیں ہے کہ چین صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک ہے توپھر چین سے جو چیز درآمد ہونی چاہیے ،ا س کی طرف توجہ کیوں نہیں ہے ۔ چین سے پاکستان کو ٹیکنالوجی درآمد ہونی چاہیے ۔ چینی کمپنیوں سے کہا جائے کہ وہ پاکستان میں اپنی کمپنیوں کی برانچیں قائم کریں اور پاکستان میں جو بھی چینی مصنوعات فروخت کے لیے پیش کی جائیں وہ پاکستان میں قائم ان ہی چینی کمپنیوں میں تیار کردہ ہوں ۔ چین اور پاکستان کے اشتراک سے تیار کردہ یہ مصنوعات صرف پاکستان ہی میں فروخت کے لیے نہ پیش کی جائیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی یہی برآمد کی جائیں ۔ یہ سب کچھ کرنا اچنبھے کی بات نہیں ہوگا۔ پاکستان ایسا ہی تجربہ JF 17تھنڈر طیارے کی تیاری میں کرچکا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستانی حکمران اپنے ہی ملک سے کیوں مخلص نہیں ہیںاور چین سے پاکستان کے لیے طویل مدتی مفاد کے لیے رعایتیں لینے کے بجائے پاکستان کو چین کی کالونی بنانے پر کیوں تُلے بیٹھے ہیں ۔ کچھ ایسے ہی تلخ تجربات سی پیک کے تحت بننے والے پروجیکٹوں میں ہیں ۔ سی پیک کے تحت بننے والے تمام تر منصوبوں کے لیے پاکستان ہی فنڈ فراہم کررہا ہے جو پاکستان نے چینی بینکوں سے بھاری شرح سود پر حاصل کیے ہیں ۔ اس کے جواب میں چین کو صرف اور صرف تکنیکی معاونت فراہم کرنی چاہیے تھی مگر سریے ، سیمنٹ سے لے کر کیل تک چین سے درآمد کی جارہی ہیں جبکہ مزدور و انجینئر بھی چینی ہی ہیں ۔ ان تمام منصوبوں میں پاکستان کا صرف اتنا ہی حصہ ہے کہ وہ ان تمام منصوبوں میں کام کرنے والے چینیوں کے تحفظ کے لیے گارڈ فراہم کرتا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان اور ان کی ٹیم اس تمام معاملے کا ازسرنو جائزہ لے اور چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے میں پاکستان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔ اگر چین پاکستان کے ساتھ ٹیکنالوجی میں اشتراک کرے گا تواس کا طویل مدتی فائدہ چین کو بھی ہوگا اور پاکستان کو بھی ۔ دوسری صورت میں پاکستان کی معیشت جلد ہی بیٹھ جائے گی اور چین بھی ایک بڑی منڈی سے محروم ہوجائے گا ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان چین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کی تفصیلات جلد ہی عوام کے سامنے لائیں گے اور اس میں جو بھی شقیں پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں ، انہیں فوری طور پر درست کرنے کے لیے اقدامات کریں گے ۔

Comments