سنسنی نہ پھیلائی جائے


اخبارات میں پھر سنسنی خیز خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ ڈاکٹروں کی غفلت اور غلط علاج سے مزید دو بچے چل بسے۔ ایک خوف کی فضا جو پورے شہر کراچی پر چھا گئی ہے۔ جن کے گھروں میں ننھے ننھے بچے ہیں جن کے بوڑھے والدین ہیں وہ سب اسپتال جانے کے نام سے خوف زدہ ہیں۔ بچے اور بوڑھے تو دور کی بات جوان بھی اسپتال سے خوف زدہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہر اسپتال میں لوگ مررہے ہیں بلکہ اصل وجہ میڈیا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہے کہ ایک اور بچہ غلط علاج کی وجہ سے چل بسا۔ حکومت تو گویا پہلے سے تیار بیٹھی ہوئی ہے فوراً اسپتال بند، کلینک بند۔ میڈیا اسپتال کے مالک کو پھانسی دینے کا مطالبہ شروع کردیتا ہے۔ مظلوم کو انصاف ملے یا نہ ملے خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ گزشتہ تین ہفتے سے اسپتال کے نام سے کراچی کو خصوصاً اور پورے ملک کو عمومی طور پر خوف زدہ کر کے رکھا گیا ہے۔ پہلے سب نے شور مچایا کہ اسپتال ہی بند کردیا جائے اس وقت تک اس شعبے سے متعلق لوگ خاموش بیٹھے رہے جب تک اسپتال بند نہیں کردیا گیا۔ دنیا نے تماشا دیکھا کہ مریضوں کی موجودگی میں اسپتال سربمہر کیا گیا۔ میڈیا کی ہاﺅ، ہو میں یہ بھی پتا نہیں چل سکا کہ منتقلی کے دوران کسی مریض پر کیا بیتی۔ جب اسپتال بند ہوگیا تو پریس کانفرنس کر کے مطالبہ کیا گیا کہ اسپتال بند کرنا غیر قانونی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہر غلطی پر ادارے بند کرنا ہی حل ہے تو پاکستان میں کیا نہیں ہوا۔ ٹرین کے حادثے میں سو ڈیڑھ سو لوگ جاںبحق ہوئے لیکن ریلویز چل رہی ہے۔ طیاروں کے حادثوں میں لوگ مرتے ہیں لیکن اس بنیاد پر ایرلائن بند نہیں کی جاتی۔ دارالصحت اسپتال میں ایک ننھی جان گئی غفلت کے مرتکب افراد کو سزا ملنی چاہیے تھی۔ لیکن قومی ادارہ برائے اطفال این آئی سی ایچ میں اوسطاً پانچ بچے یومیہ مر جاتے ہیں۔ بڑے نجی اسپتالوں میں بھی یہی شرح ہے آج تک تو آغا خان سمیت کسی اسپتال کو بند کرنے کی بات نہیں کی گئی سارے بڑے اور نجی اسپتال غلط علاج اور پیسے بٹورنے میں مشہو ر ہیں۔ اس معاملے میں دو کام فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ حکومت کچھ نہیں کرے گی۔ سب سے پہلے تو میڈیا کو سنسنی پھیلانے سے روکا جائے اس میڈیا نے گرمی کی لہر کے حوالے سے بھی سنسنی پھیلا رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور دیگر سنجیدہ ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں نرسنگ اسٹاف کی تربیت کا انتظام کریں۔ پی ایم ڈی سی کی تصدیق کے بغیر ڈاکٹروں کا کسی اسپتال میں تقرر نہ کیا جائے۔ نرسنگ اسٹاف کو بھی نرسنگ کونسل کی تصدیق کے بغیر بھرتی نہ کیا جائے۔ جس اسپتال میں مستند عملہ نہ ہو اس کے خلاف یہ دو ادارے کارروائی کریں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ بچی کی موت کے اسباب سامنے آنے سے اسپتال بند کردیا گیا۔ کیا پشاور میں سیکڑوں بچوں یا دو درجن بچوں کی طبیعت خراب ہونے کی خبر کے بعد پولیو مہم کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا۔ جب ایسا نہیں ہوا تو اسپتال کیوں بند کیا گیا۔ اگر حکومت اپنا کردار ادا کرے تو اتائیوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کا موقع کیوں کر ملتا۔

Comments