بھارتی پائلٹ کی رہائی، جلدی کیا تھی؟

ونگ کمانڈر ابھے نندن کیلئے تصویری نتیجہ

وزیر اعظم عمران خان نے حملہ آور بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھے نندن کو رہا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی پائلٹ جمعہ کو واہگہ کے راستے اپنے وطن واپس لوٹ جائے گا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے یہ اعلان کو جمعرات کو پارلیمنٹ سے مشترکہ خطاب کے بعد کیا ۔ وہ اپنا خطاب ختم کرچکے تھے اور میاں شہباز شریف کو اظہار خیال کی دعوت دی جاچکی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ ایک اہم اعلان کرنا بھول گئے اور پھر انہوں نے گرفتار پائلٹ کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے اسے پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کا اظہار قرار دیا ۔ بھارتی پائلٹ کی رہائی کے اچانک اعلان پر پوری پاکستانی قوم حیران ہے کہ ایسی بھی کیا جلدی تھی ۔ اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ جنیوا کنونشن کے تحت بھارتی پائلٹ کو رہا کرنا حکومت پاکستان کی مجبوری تھی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ پاکستان کی مجبوری تھی ۔ جنیوا کنونشن کا اطلاق جنگی قیدیوں پر ہوتا ہے اور بھارت یا پاکستان میں سے کسی نے جنگ کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا ۔ یہ بھارتی پائلٹ پاکستان کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا اس لیے اس پر جنیوا کنونشن کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔ پاکستان نے پہلے لمحے سے بھارتی قیدی کے ساتھ مہمان نوازی کا رویہ رکھا ۔ یہ بہت اچھا ہے مگر اس وقت جبکہ بھارت بھی یہی رویہ رکھتا ہو ۔ پلوامہ کے واقعے کے فوری بعد ہی راجستھان کی جیل میں قید ایک پاکستانی شاکر اللہ کو قتل کردیا گیا ۔ یہ معصوم پاکستانی شہری غلطی سے بھارتی سرحد پار کر گیا تھا ۔ غلطی سے سرحد پار کرنا ایسا جرم نہیں ہے کہ اس پر کسی کو قید کردیا جائے ۔ کنٹرول لائن پار کرنے کے ایسے واقعات بھارتی شہریوں کی جانب سے پیش آتے رہتے ہیں مگر پاکستان انہیں فوری طور پر بھارت کے حوالے کردیتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں بھارت کا رویہ یہ ہے کہ اس نے نہ صرف شاکراللہ کو جیل میں رکھا بلکہ قتل بھی کروادیا ۔ ظلم کی بات تو یہ ہے کہ شاکراللہ کی لاش بھی ابھی تک اس کے ورثاء کے حوالے نہیں کی گئی ۔ 
سپاہی مقبول حسین کیلئے تصویری نتیجہ
پاکستانی قیدی سپاہی مقبول حسین کا کیس تو معروف ہے ۔ مقبول حسین پر جنیوا کنونشن کا اطلاق ہوتا تھا مگر بھارت نے مقبول حسین کے بارے میں پاکستان کو لاعلم رکھا ۔ سپاہی مقبول حسین پر بھارتی جیل میں ظلم کا ہر پہاڑ توڑا گیا حتیٰ کہ ان کی زبان بھی کاٹ دی گئی ۔ چالیس برس قید رکھنے کے بعد سپاہی مقبول حسین کو اچانک واہگہ سے پاکستان کی طرف نفسیاتی مریض قرار دے کر دھکیل دیا گیا ۔ کسی نے بھارت کو جنیوا کنونشن کا دستخط کنندہ ہونے کے باوجود ایسے مظالم کی طرف توجہ نہیں دلائی ۔بھارتی پائلٹ جیسے قیدی کسی بھی ملک کے لیے ایک اچھے کارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں اورکم از کم قیدیوں کے تبادلے کے تو کام آتے ہی ہیں ۔ طالبان اور امریکی فوج کئی مرتبہ ایسے تبادلے کرچکے ہیں ۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق افسر ریٹائرڈ کرنل حبیب الرحمٰن کو بھارت نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے نیپال بلایا اور پھر وہاں سے انہیں اغوا کرلیا ۔ کرنل حبیب الرحمٰن اس وقت بھی بھارت کی قید میں ہیں ۔ اس طرح کے انگنت پاکستانی قیدی بھارت کی جیلوں میں قید ہوں گے ۔ یہ بھارتی قیدی ان پاکستانی قیدیوں کے لیے رہائی کا پروانہ بن سکتا تھا ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو آخر کہاں سے یہ ہدایت موصول ہوئی تھی جو انہوں نے پاک فضائیہ کی محنت سے حاصل کردہ برتری کو ایک منٹ میں بھارت کی کامیابی سے بدل دیا ۔ ایک منٹ کو تصور کریں کہ کوئی پاکستانی پائلٹ بھارت کی قیدمیں ہوتا تو اس کے ساتھ بھارتی کیا سلوک کرتے ۔ بھارتی تو اب تک پاکستانی پائلٹ پر تشدد کرکے اس کا حلیہ بگاڑ چکے ہوتے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے اعلان کے بعد بھارت کے سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہے اس سے بھارتیوں کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ کسی ایک بھارتی نے بھی اسے پاکستان کا جذبہ خیر سگالی قرار نہیں دیا بلکہ سب نے اسے پاکستان پر بھارت کی فتح قرار دیتے ہوئے پاکستانیوں کو مغلظات سنائی ہیں ۔ ان بھارتیوں کو موقف ہے کہ اگر پاکستان بھارتی پائلٹ کو رہا نہ کرتا تو اسے انتہائی خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا جس کے باعث پاکستان نے شرمندگی چھپانے کو یہ اعلان کیا ہے ۔ یہ پاکستان کی روایت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار کر آیا ہے ۔ کچھ ایسا ہی کارگل کے محاذ پر ہوا تھا اور پاکستان نے غیر مشروط طور پر بلا کسی معاہدے پر پہنچے اپنے فوجیوں کی واپسی کا اعلان کردیا تھا اور اس کے جواب میں بھارت نے مورچوں سے اترتے پاکستانیوں پر اپنی گنوں کے دہانے کھول دیے تھے اور پاکستان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا ۔ اگر اتنی جانیں بھارتی فوج کے ساتھ جنگ میں دی جاتیں تو آج کشمیر آزاد ہوتا ۔ بھارتی بنیے کی ذہنیت کو سمجھے بغیر ایسے فیصلوں کو غیر دانشمندانہ اور احمقانہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان تو ایک مضبوط ریاست ہے اس کے مقابلے میں کہیں کمزور گروپ طالبان بھی ایسے فیصلے نہیں کرتا بلکہ پوری سودے بازی کرتا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ ساری خوشی جو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے قوم کو تحفے میں دی تھی ، حکومت نے ایک ہی منٹ میں خاک میں ملادی ۔ پاکستان کو ایک مکار دشمن کا سامنا ہے اس لیے بعید نہیں کہ مودی سرکار ابھے نندن سے اپنی مرضی کا بیان دلوائے گو کہ اس نے کہا ہے کہ وہ واپس جا کر اپنے بیان سے نہیں پھرے گا۔ اس کے چہرے پر معمولی زخموں کے نشانات ہیں جن کو بھارتی ذرائع میں خوب اچھالا جائے گا گو کہ یہ چوٹیں اسے عوام کے ہاتھوں آئی ہیں اور فوج نے اسے مشتعل افراد سے بچایا ہے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ پاکستان میں قید ایک بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کو پاکستانی عدالت نے بے گناہ قرار دے کر رہا کیا تو اس نے سرحد عبور کرتے ہی اعلان کیا کہ وہ جاسوس تھا اور اسی مشن پر پاکستان آیا تھا۔ اب بھارت کہہ رہا ہے کہ پاکستان دباؤ کے آگے جھک گیا، ڈر گیا اور ابھے کو رہا کرنے پر مجبور ہوگیا۔ عمران خان نہ سہی، پاک فوج تو ازلی دشمن کی فطرت سے واقف ہے۔




Comments