1965 سے 2019 تک کا سفر از حبیب الرحمٰن -



ملک محبتوں کے سائے میں پروان چڑھا کرتے ہیں۔ سختیاں اور چھا جانے کا جذبہ بظاہر ایسا احساس ضرور دلاتا ہے کہ ’’سب اچھا‘‘ ہے لیکن یہ احساس دھوکے کی ٹٹی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ آزادی کے لیے کیا کچھ کرنا اور قربان کرنا پڑتا ہے اس بات کا ادراک آج کل کے جوانوں اور نو جوانوں کے لیے بہت مشکل ہے بلکہ پاکستان میں موجود کروڑوں لوگوں کو بھی اس کا اندازہ کرنا کہ آزادی کتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوتی ہے، بہت مشکل ہے اس لیے کہ یہ بات آگ و خون کے دریاؤں کو عبور کرنے والوں کے دل ہی جان سکتے ہیں۔ اگر آزادی کی قدر معلوم کرنا ہو اور اس کی خاطر قربانیاں دینے کا جذبہ اگر دیکھنا ہو تو کوئی کشمیر میں جاکر دیکھے۔ ہر روز بہنے والا تازہ تازہ خون، پیلٹ گنوں سے چھدنے والے بدن، سماعتوں اور بصارتوں سے محروم ہوجانے والے مرد وزن، جلتی بستیاں، بلکتے بچے اور لٹیک عزتیں اور آبروئیں آزادی کی داستانیں سنا رہی ہوں گی۔ آج سے 72 سال قبل جو آزادی پاکستان کی صورت میں مسلمانان برصغیر کو نصیب ہوئی تھی اس کی داستان تو بہت ہی خونچکاں تھی اس لیے کہ وہ آزادی صرف ایک خطہ زمین کے لیے ہی نہیں ایک نظریے کے حصول کے لیے تھی۔ یخ کے آئینے میں اگر اس جدوجہد کو دیکھا جائے تواس آزادی کی تحریک کا باقائدہ آغاز 1857 کی جنگ آزادی سے ہو چکا تھا۔ 1857 سے لیکر 1947 تک پورے 90 برس کا فاصلہ ہے۔ گویا جس سرزمین کو ہم پاکستان کہتے ہیں اس کو حاصل کرنے کے لیے کم از کم 4 نسلوں نے ہرقسم کی قربانیاں دی تھیں تو یہ ملک حاصل ہوا تھا۔ یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ تقریباً ایک صدی کی اس جدوجہد اور قربانیوں کے دوران کیا کسی نے اپنے مقصد (آزادی) سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنا گوارہ کیا؟، کیا کسی نے کسی سے یہ گلا کیا کہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں؟، ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے؟، ان کا معاشی قتل عام کیا جارہا ہے؟، ان کی حیثیت ان کے اپنے ہی ملک (ہندوستان) میں تیسرے درجے سے بھی کم کی بنادی گئی ہے؟، ان کی زندگی کو اجیرن بنادیا گیا ہے یا ان کو جینے کے حق سے ہی محروم کردیا گیا ہے؟۔
پاکستان بننے کے بعد جو قافلے بھی پاکستان کی جانب آرہے تھے اس کے پاس اب وہی کچھ تھا جو ان کے ہمراہ تھا۔ تن پر پھٹے پرانے گرد آلود کپڑے، پاؤں میں ٹوٹے پھوٹے جوتے، گودوں میں لدے روتے دھوتے بچے اور پیٹوں میں سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے جن کو پانی میں بھگوکر پیٹ کی آگ کو بجھا کے لیے یونہی نگل لیا گیا تھا۔ نہ جانے کتنوں کے لال، کتنوں کے سہاگ، کتنوں کی مائیں بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں پاکستان کی جدوجہد میں کام آچکیں تھیں لیکن پاکستان کی جانب آنے والے قافلوں کی اگر اس وقت کی تصاویر پر نظر ڈالی جائی تو کوئی ایک چہرہ بھی ایسا دکھائی نہ دے گا جس پر خوشیاں رقصاں نظر نہیں آرہی تھیں۔ اتنا کچھ گزرجانے کے باوجود بھی ہر فرد کے چہرے سے خوشیاں پھوٹی پڑ رہی تھیں اس لیے کہ اس کا ہر بڑھنے اور اٹھنے والا قدم اسے اس منزل سے نزدیک تر کرتا جارہا تھا جس کے لیے اس کی چار نسلیں قربانیاں دیتی آرہی تھی۔
پاکستان سے اسے وہ کچھ تو نہ مل سکا جس کے لیے اس ملک کو بنایا تھا لیکن ایک امید و آس تو تھی کہ آج نہیں تو کل وہ نظام بھی اس کو مل ہی جائے گا جس کے لیے لاکھوں مسلمانان ہند نے قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کیونکہ اسلام کے لیے معرض وجود میں آیا تھا اس لیے آج تک پاکستان کا ہر مسلمان پاکستان میں پاکستان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغاوت سمجھتا آیا ہے اور جہاں سے بھی ایسی کوئی صدا جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف اٹھے، پاکستان کا ہر مسلمان اسے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اٹھنے والی آواز تصور کرکے اس آواز کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ جب پاکستان میں بسنے والا مسلمان پاکستان میں پاکستان کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو برداشت نہیں کرسکتا تھا تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ 1965 میں بڑھنے والے ان قدموں کو جو رات کی تاریکی میں چھے سو ٹینکوں کے ساتھ پاکستان کی سرزمین میں داخل ہو رہے تھے، برداشت کرسکتا تھا۔ 1965 کی جنگ میں دنیا اس بات پر حیران تھی کہ پاکستان کا بچہ بچہ اس وقت سپاہیوں سے بڑھ کر سپاہی بنا ہوا تھا اور اپنی افواج سے بڑھ کر جنگ کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ جگہ جگہ بڑے بڑے کیمپ لگا دیے گئے تھے جن میں لوگ اپنے گھر کی ہر قیمتی شے اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے اور پاکستان کے بیت المال میں جمع کرانے کے لیے پیش کر رہے تھے۔ ایسا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی اپیل نہیں کی گئی تھی بلکہ یہ سب لوگوں کی اپنے وطن سے بے پناہ کا اظہار تھا۔ لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے دل و جگر کس طرح نکال کر وطن کی محبت میں جمع کرادیں۔ عوام کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے سینوں سے بم لپیٹے دشمنوں کے ٹیکوں کے نیچے جا گسے تھے۔ یہ وہ سماں تھا جو بدر واحد کے میدانوں نے دیکھا تھا یا پھر 1965 کے میدان کارزار دیکھ رہے تھے۔ قوم کا یہی جذبہ اپنے سے پانچ گناہ بڑے دشمن کی پسپائی کا سبب بنا اور وہ ذلیل و خوار ہوکر اپنی اپنی حدود میں لوٹ جانے پر مجبور ہوگیا۔
کیا ٹھیک پانچ برس بعد یہی جذبہ تھا جب دشمن نے 1971 میں پاکستان پر دوبارہ حملہ کیا؟۔ کیا عوام اسی طرح سڑکوں پر اپنے گھروں کا ساز و سامان لاد کر امدادی کیمپوں میں لا لا کر ڈھیر کرتے نظر آئے؟۔ جنگ بھی ہوئی اور اس کا نتیجے میں پاکستان اپنے آدھے پاکستان سے محروم بھی ہوگیا لیکن کسی نے اس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جذبے کا وہ طوفان جو 1965 میں سمندر کے طوفان کا منظر پیش کر رہا تھا وہ 1971 میں سمندر کا جھاگ کیوں بن گیا۔ لوگ یہ فراموش کر بیٹھے تھے کہ پاکستان بنانے کا مقصد محض خطہ زمین کا حصول نہیں تھا بلکہ اس خطے کے نظام کو اللہ اور اس کے رسول کے قانون کے مطابق چلانا تھا۔ یہاں وہ نمونا پیش کرنا تھا جو ساڑھے چودہ صدی قبل پیش کیا گیا تھا لیکن چوتھائی صدی گزرجانے کے باوجود بھی اس جانب کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا بلکہ لوگ زبان اور نسل میں بٹنا شروع ہوگئے اور یوں پاکستان بنانے کا مقصد فراموش کربیٹھے۔ اتنی غفلت کے بعد پاکستان کی تقسیم کا یقینی ہوجانا کیسے نا ممکن ہوسکتا تھا۔ بڑھتے ہوئے علاقائی اور لسانی تعصب نے ایسے جڑیں پکڑیں کہ آخر کار پاکستان تقسیم ہوکر ہی رہا۔ قومیں اپنی ناکامیوں سے بہت کچھ سیکھا کرتی ہیں لیکن ہم ان بد قسمت اقوام میں شامل ہیں جو اپنی ناکامیوں سے تاحال کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ہم پاکستان کے مقصد وجود کی جانب پلٹیں اور باقی ماندہ پاکستان کی ساری اکائیوں کو پرچم لا الہ الاللہ کے سائے تلے جمع کر سکیں۔
آج پھر پاکستان پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ سرحدوں پر تو چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہی تھا لیکن اب ایک دوسرے کی سرحدوں کے اندر بھی گھسنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ پہلے زمینی جنگ سے آغاز ہوا کرتا تھا اب فضائی مداخلتوں سے شروعات ہو رہی ہے۔ کچھ معلوم نہیں یہ چھیڑچھاڑ کیا گل کھلائے اس لیے کہ دو ایٹمی ریاستیں ہیں جو غیر متحمل مزاج بھی ہیں۔ کوئی بھی رد عمل سامنے آسکتا ہے اس لیے ایک غیر یقینی صورت حال ہے اور کوئی بھی بڑا سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ یہ چھیڑ چھاڑ اپنی جگہ، بظاہر سیاسی پارٹیوں کا کسی حد تک یک جان نظر آنا اپنی جگہ، لیکن کیا یہ یک جہتی وقتی مصلحت نہیں دکھائی دی رہی؟۔ کیا اب بھی گلیوں اور بازاروں میں لوگ گھر کا مال و اسباب اپنے سروں پر لادے امدادی کیمپوں کی جانب قطار اندر قطار رواں دواں ہیں؟، کیا مائیں بہنیں اور بیٹیاں اپنے کانوں کے طلائی اور نقرئی بالے، پیروں کی پازیبیں، ہاتھوں کی چوڑیاں، ماتھے کی بیندیاں اور ہاتھوں کی چوڑیاں اور کڑے وطن کی محبت میں وارے کھڑی ہیں اور عوام اپنے سینے پر بم لپیٹے دشمن کے بڑھتے ہوئے ٹینکوں کے نیچے لیٹنے کے لیے تیار و آمادہ دکھائی دیے رہے ہیں؟۔
سوشل میڈیا پر صاف نظر آرہا ہے کہ لوگوں کا ہر جذبہ اضملال کا شکار ہے اور چہرے سپاٹ ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر ارباب اقتدار و اختیار غور ہی نہ کریں۔ یہ لمحہ فکر ہے اور اگر اس بات پر اب بھی غور نہیں کیا گیا تو پھر یہ جان لینا چاہیے کہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آیا کرتا۔ جس ایمان کی حرارت نے 1857 سے لیکر 1965 تک برصغیر کے مختلف النسل، قبیلوں، رنگوں اور علاقے کے لوگوں کو ایک لڑی میں پرویا ہوا تھا اسی جذبہ ایمانی کو زندہ کیے بغیر پاکستان میں بسنے والی ساری اکائیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور رکھنے کے سوا اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ جس کے خیال میں بھی اگر کوئی اور نظام پاکستان کی تمام اکائیوں کو متحد کر سکتا ہے اسے پاکستان کی موجودہ صورت حال پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ جو طاقت پورے پاکستان کے عوام کو سیدھا رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے آخر وہ اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے سب کو تیار کیوں نہیں کرسکتی جبکہ اس پاکستان کی بقا کے لیے وہی نظام ضروری ہے جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا۔ ایسا ہی ہوگا تو پاکستان قائم رہ سکے گا ورنہ یہاں تو ہر گروہ، خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی و مسلکی، وہ اپنے آپ ہی کو ’’پاکستانِ کل‘‘ خیال کرتا ہے۔




Comments