سانحہ ساہیوال۔ جھوٹ کا طومار



ساہیوال کا دلخراش واقع کیلئے تصویری نتیجہ

حکومت پنجاب اور سی ٹی ڈی سمیت پوری پولیس مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بول رہی ہے اور ایسا جھوٹ جس کے بارے میں پاکستان کے ہر شخص کو معلوم ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور اس کے ماتحت اداروں نے سانحہ ساہیوال کی پردہ پوشی اور اسے اپنے مطلب کا رخ دینے کا تہیہ کررکھا ہے۔ جھوٹ بولنے کی ابتداء اگلے ہی دن پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت نے کردی تھی اور کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر ہی سی ٹی ڈی بلکہ معصوم جانوں کے قاتلوں کی صفائی پیش کرنے سامنے آگئے تھے۔ جھوٹ کا یہ سلسلہ جاری ہے اور اب ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ پنجاب فضیل صغیر نے اسے آگے بڑھایا ہے۔ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی مقتول ذیشان کو دہشت گرد قرار دے دیا اور کسی الہام کی بنیاد پر پیشگوئی کردی کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ذیشان دہشت گرد ثابت ہوگا۔ اگر فیصلے پنجاب کے وزراء، سیکرٹری داخلہ اور دیگر حکام ہی کو کرنے ہیں تو پھر جے آئی ٹی کی کیا ضرورت ہے۔ اسی لیے مقتولوں کے ورثاء نے جے آئی ٹی کو بے وقعت قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر عدالتی کمیشن بنائے۔ ورثاء نے شناخت پریڈ میں حصہ لینے سے بھی انکار کردیا اور بالکل صحیح کیا۔ مقتول کا بھائی موقع پر موجود ہی نہیں تھا تو شناخت کس کی کرتا۔ اہم پہلو یہ ہے کہ سارے قاتل تو وڈیو میں موجود ہیں اور ہر شخص جانتا ہے کہ وہ کون ہیں۔ پھر کیسی شناختی پریڈ۔ موقع پر موجود چشم دید گواہوں کو اتنا گھمایا پھرایا گیا کہ صرف دو گواہوں نے ہمت کی۔ مقتول کے بھائی اور مدعی جلیل کا کہنا ہے کہ پولیس کو پتا ہے قاتل کون ہیں، جے آئی ٹی مقدمہ خراب کررہی ہے۔ فرض کیا مقتول ذیشان بہت بڑا دہشت گرد تھا تو اسے زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ جب کہ سانحے کی وڈیو سے ظاہر ہے کہ اس نے سیٹ بیلٹ باندھ رکھی تھی اور ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پر تھا۔ یہ کیسا دہشت گرد تھا کہ ایک ہاتھ سے بھاری اسلحہ استعمال کررہا تھا۔ ذیشان کی والدہ کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کو زندہ گرفتار کیوں نہ کیا جب کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو زندہ پکڑا گیا۔ اگر ذیشان واقعی دہشت گرد تھا تو اس کی زندہ گرفتاری خود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے فائدہ مند تھی کہ اس کے ذریعے داعش کے مبینہ دہشت گردوں اور ان کی کارروائیوں کا سراغ لگایا جاسکتا تھا۔ پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت نے دعویٰ کیا کہ ذیشان کی گاڑی پر 13 جنوری سے نظر رکھی جارہی تھی۔ تو پہلے کیوں نہ پکڑ لیا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تو محض شک کی بنیاد پر کسی کے بھی گھر میں گھس جاتے ہیں، ذیشان کو گھر سے کیوں نہ پکڑ لیا۔ اب تک یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ذیشان کے گھر سے بوڑھی ماں کے سوا کتنا اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا۔ گاڑی سے خودکش جیکٹس برآمد کرنا بھی محض افسانہ ہے۔ حملہ آور تو چار افراد کو ٹھکانے لگا کر ہی بھاگ لیے تھے۔ پھر شاید دوسری ٹیم نے کام مکمل کیا۔ اب ایک نیا جھوٹ سامنے آیا ہے۔ سی ٹی ڈی کے قاتلوں نے تو صاف انکار کردیا کہ انہوں نے کسی پر فائرنگ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکلوں پر سوار دہشت گرد گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، فائرنگ انہوں نے کی اور سی ٹی ڈی نے تو جوابی فائرنگ کی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اگر موٹر سائیکل سوار فائرنگ کررہے تھے تو ان پر جوابی فائرنگ کے بجائے کار سوار خاندان پر فائرنگ کیوں کی گئی جب کہ کار کو ٹکر مار کر روک بھی لیا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کار سواروں پر گولیاں اتنے قریب سے ماری گئیں کہ کھال بھی جھلس گئی۔ آخر کتنا جھوٹ بولا جائے گا اور ایسے جھوٹ کا کیا فائدہ جسے کوئی تسلیم نہ کرے۔ کار سے نکلنے والا اسلحہ اور خودکش جیکٹیں کہاں ہیں؟ ایک اطلاع تو یہ ہے کہ سی ٹی ڈی والے گاڑی سے پیسوں اور زیورات کا بیگ بھی لے گئے۔ یہ مظلوم خاندان شادی میں شرکت کرنے جارہا تھا تو خواتین کے ساتھ زیورات بھی ہوں گے۔ جھوٹوں کے سردار راجا بشارت نے دعویٰ کیا تھا کہ گاڑی کے شیشے رنگین تھے اس لیے معلوم نہیں ہوسکا کہ اندر کون ہے۔ یہ جھوٹ بھی کھل گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب سرکاری حملہ آوروں نے گاڑی سے بچوں کو نکالا تو کیا اس وقت نہیں دیکھا کہ اور کون کون ہیں۔ ایک کہانی یہ سامنے آئی تھی کہ ذیشان کے گھر میں چھپے ہوئے دو دہشت گرد خبر ملتے ہی بھاگ نکلے جن کو گوجرانوالہ میں مار دیا گیا۔ پتا نہیں وہ کون تھے جو مار گئے۔ ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔مقتولوں کے ورثاء نے کمیشن بنانے کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ اگر اس سانحے کی وڈیوز نہ بن گئی ہوتیں تو معاملہ بہت پہلے غت ربود ہو چکا ہوتا۔
اداریہ -جسارت -کراچی 

Comments