میاں بیوی کے تعلقات۔۔۔ ؛اسوۂ نبوی کی روشنی میں از کالم نگار - عبداللہ قاسمی

میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیلئے تصویری نتیجہ

گھریلو اور خانگی زندگی بڑی اہمیت کی حامل ہے، زندگی کا یہ شعبہ سکون بخش اور نشاط انگیز ہو تو یہ نہ صرف ایک گھرکے لیے نافع اور سود مند ثابت ہوتا ہے؛ بلکہ اس سے نووارد مہمان کی درست تربیت ہوتی ہے اوراس کے اخلاق ورجحانات کی تعمیر بھی ہوتی ہے، خاندانی نظام کی بقا اوراستحکام بھی اسی پر موقوف ہے اور اگرخدانخواستہ زندگی کا یہ پہلو کج روی اور ناہمواری کا شکار ہو، افتراق وانتشار اور بغض وعناد نے زندگی کے اس پہلوکو تاریک بنادیا ہو تو ایک طرف اس سے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرکر رہ جاتا ہے تو دوسری طرف نسل نو بھی ایسے جہنم زار ماحول میں درست تربیت سے محروم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اخلاق وکردار کے لحاظ سے قطعاً غیرذمے دار ہوتی ہے اور معاشرے کا عضو معطل اور ناکارہ جز ثابت ہوتی ہے۔
گھر کے کاموں میں دلچسپی
سرکاردوعالمؐ کے کاندھوں پر نبوت کی بھاری ذمے داریاں عائد کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے آپؐ کی خارجی وبیرونی زندگی بہت ہی مصروف اور صبر آزما تھی، لیکن بایں ہمہ آپؐ کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ جب گھر تشریف لے جاتے تو کبھی آٹا گوندھ دیتے تو کبھی گھر کی دیگر ضروریات پوری کردیتے۔ عائشہؓ سے آپؐ کے گھریلو معمولات کے با رے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا: اپنے سر سے جوئیں نکالتے، بکری کا دودھ دوھتے، اپنے کپڑے سی لیتے، اپنی خدمت خودکرلیتے، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھروالوں کی خدمت میں لگے ہوتے، جب نماز کا وقت ہوتا تو چھوڑ کر چلے جاتے۔ (مسنداحمد)
آپؐ کے طرزعمل سے ایک کامیاب اور خوشگوار زندگی کا اصول معلوم ہوتا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ مرد وعورت کے مابین تقسیم کار ہے، مرد نے بیرونی اور خارجی امور کی ذمے داری لے رکھی ہے اور عورت نے گھریلو اور خانگی امور کی ذمے داری۔۔۔ اس رشتے کو امن ومحبت کا گہوارہ بنانے اور اس کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے شوہر پر یہ اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عورت کے کاموں میں دلچسپی لے اور گھریلو کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے۔
عورت کی رائے کا احترام
آپؐ کی ازدواجی زندگی کا ایک نمایاں اور واضح پہلویہ بھی تھا کہ آپؐ ازواج مطہرات کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: کھڑے ہوجاؤ اور اپنے جانوروں کوذبح کرو، لیکن تین مرتبہ کہنے کے بعد بھی صحابہ کرامؓ وطبعی طور پر رنجیدہ اورکبیدہ خاطر تھے، غم سے نڈھال تھے۔۔۔ اس کے لیے کھڑے نہ ہوئے، آپؐ ام سلمہؓ کے پاس تشریف لائے اور صحابہ کرامؓ کے اس طرز عمل کا تذکرہ کیا، ام سلمہؓ جو عقل مند اور مزاج فہم تھیں، نے کہا: آپ ان سے کچھ نہ کہیے، آپ کھڑے ہوکر اپنا اونٹ ذبح کردیجیے اور حلق کرا لیجیے۔ آپؐ نے ان کی رائے قبول کی، آپ باہر تشریف لائے، اپنی قربانی کی اور حلق کرایا۔ آپؐ کو دیکھ کر صحابہ کرامؓ نے بھی قربانیاں کیں اور حلق کرایا۔ (بخاری)
گھر والوں کے دین کی فکر
آپؐ کی ازدواجی زندگی کا ایک تابناک اور قابل تقلید پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ اپنے اہل خانہ کی دین کی فکرکرتے تھے اور ان کو دین دار بنانے کا اہتمام کرتے تھے۔ عائشہؓ فرماتی ہیں: آپؐ کا معمول تھا کہ جب کبھی گھر میں تشریف لاتے تو قدرے بلندآواز سے یہ کلمات دہراتے: اگر ابن آدم کے پاس مال کے دوبھرے ہوئے میدان ہوں تو بھی آدمی تیسرے میدان کی حرص کرے گا، اس کے حرص کے منہ کو صرف قبرکی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (شعب الایمان) آپؐ کا ان کلمات کو باربار دہرانے کا مقصدیہ تھا کہ اہل بیت کو دنیا کی بے ثباتی اور فانی ہونے کا یقین دلوں میں بیٹھ جائے۔
بیوی سے اظہار محبت
بیوی سے محبت وتعلق کا اظہار بھی اس رشتے کی پختگی اور استحکام میں غیر معمولی اور اہم کردار ادا کرتا ہے، آپؐ اپنی ازواج مطہرات سے وقتا فوقتا محبت کا اظہارکرتے تھے، عائشہؓ فرماتی ہیں: ایک مرتبہ میں پانی پی رہی تھی، اتنے میں آپؐ گھر تشریف لائے اور فرمایا: عائشہ! تھوڑا پانی بچانا، میں نے پانی بچادیا، آپؐ قریب آئے اور پوچھا عائشہ! تم نے اپنے ہونٹ کہاں لگائے تھے؟ عائشہؓ کے بتلانے پر آپؐ نے گلاس کے اسی حصے پر ہونٹ لگا کر پانی نوش فرمایا۔ (نسائی)
بیوی کے اعزاء واقارب کا خیال
ہر انسان کو اپنے اعزاء واقارب سے جذباتی لگاؤ ہوتا ہے، بیوی کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ میرا شوہر میرے رشتے داروں کے ساتھ اچھائی سے پیش آئے اور ا ن سے بہتر سلوک کرے۔ عائشہؓ فرماتی ہیں: مجھے خدیجہؓ پرغیرت آتی تھی، جبکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا اور وجہ اس کی یہ تھی کہ آپؐ کثرت سے ان کا ذکرکیا کرتے تھے، کبھی بکری ذبح کرتے تو اس کا گوشت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھیجا کرتے تھے۔ (بخاری)



Comments