تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ’’اوپیک‘‘ مشکل میں :::: (ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

 
تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ’’اوپیک‘‘ ایک بار پھر مشکل میں ہے۔ اوپیک کے سیاہ و سفید کے مالک چاہتے ہیں کہ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ قابو میں رہیں۔ کسی کو اگر زیادہ فائدہ نہ پہنچے تو زیادہ نقصان بھی نہ ہو۔ مگر اس مقصد کا حصول غیر معمولی حد تک دشوار ثابت ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ طلب و رسد کے درمیان قابلِ قبول سطح پر توازن پیدا نہیں ہو پارہا۔ چند ماہ کے دوران بہت کچھ بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ ایک طرف امریکا، روس اور سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافے کا عندیہ دیا۔ دوسری طرف مقامی یا علاقائی سطح پر ایڈجسٹمنٹ ہوئی یعنی موسم بدلا اور تیل صاف کرنے کے کارخانوں کی مینٹی ننس کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ایران پر امریکا نے جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کے تحت ایران تیل برآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ یہ صورتِ حال بھی تیل کی عالمی منڈی کو پریشان کن حد تک متاثر کر رہی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک یکساں طور پر عالمی معیشت میں پیدا ہونے والی سست رفتاری سے پریشان ہیں۔ کم و بیش ۶ ماہ کے دوران آئل مارکیٹ عدم توازن کا شکار رہی ہے۔ طلب و رسد کے درمیان معقول توازن پیدا نہ ہونے کے باعث تیل برآمد کرنے والے ممالک غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں ان کے لیے یہ سمجھنا بھی دشوار ہوگیا ہے کہ کس وقت کس نوعیت کے اقدامات کیے جائیں۔ ماہرین کی رائے یہ رہی ہے کہ سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران تیل کی منڈی غیر معمولی دباؤ کا شکار ہوگی ۲۰۱۹ء کے اوائل میں معاملہ سرپلس تک چلا جائے گا۔
چند ہفتوں کے دوران مختلف عوامل نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔ بعض معاملات بالکل کھلے ہیں اور بعض اتنے ڈھکے چھپے ہیں کہ انہیں سمجھنا آسان نہیں۔ رسد بڑھ گئی ہے۔ سعودی عرب اور روس نے پیداوار بڑھائی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا کو بھی پیداوار بڑھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ لیبیا اور نائجیریا کی تیل کی پیداوار مستحکم رہی ہے۔ ایران نے تیل کی پیداوار میں واضح کمی کردی ہے۔ عراق کی تیل کی پیداوار اگرچہ کم ہے تاہم سیاسی استحکام یقینی بنائے جانے اور لاجسٹکس کے مسائل حل کیے جانے کی صورت میں وہاں تیل کی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کی تیل کی برآمدات پر پابندی تو عائد کردی ہے، تاہم چند حلیفوں کو کم و بیش ۶ ماہ تک ایران سے تیل درآمد کرتے رہنے کی اجازت دی ہے۔ اس اقدام نے عالمی منڈی میں بہت سوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مستقبل قریب میں تیل کی پیداوار کے حوالے سے عالمی منڈی میں سٹے بازی کرنے والوں کو دوبارہ قدم جمانے اور سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا موقع ملا ہے۔
‪oil fields in qatar‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ
عالمی حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے بہت سے عجیب اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ڈالر مضبوط ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی منڈی میں درستی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سے امریکی کرنسی کو زیادہ مضبوط ہونے کا موقع ملا ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کے نرخ ۲۰ فیصد کی حد تک گرے ہیں۔ اوپیک کا بڑا اجلاس ۶ دسمبر کو ویانا میں ہونا ہے۔ اوپیک کے رکن ممالک کی وزارتی سطح کی کمیٹی نے حال ہی میں ایک اجلاس کے دوران معاملات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے تاکہ پیداوار کو متوازن رکھ کر قیمتیں اطمینان بخش حد تک مستحکم رکھی جاسکیں۔ متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ہونے والے اس اجلاس کا بنیادی مقصد تیل کی عالمی منڈی میں رونما ہونے والی تمام بڑی تبدیلیوں کا جائزہ لینا تھا تاکہ معاملات کو اپنے مفادات کے لیے زیادہ سے زیادہ کارگر طریقے سے بروئے کار لانے کی حکمتِ عملی مرتب کی جاسکے۔
 ‪oil fields in qatar‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ
اوپیک کے وزارتی اجلاس میں اس نکتے پر غور کیا گیا کہ پیداوار میں کمی کے لیے کیا لائحۂ عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔ اجلاس کے شرکاء اس نتیجے پر پہنچے کہ اس وقت عالمی سطح پر تیل کی رسد غیر معمولی ہے، یعنی کوئی بھی ملک رسد کی کمی محسوس نہیں کر رہا۔ یہ صورتحال عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو نیچے لانے کا باعث بن رہی ہے۔ اوپیک کے رکن ممالک چاہتے ہیں کہ پیداوار میں اس حد تک کمی کردی جائے کہ عالمی منڈی میں تیل کی کمی محسوس کی جانے لگے اور رسد بڑھانے پر زور دینے کا ماحول پیدا ہو۔ اِسی صورت قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔
اوپیک کے ارکان کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تیل کی پیداوار گھٹانے کے حوالے سے کوٹا کس طور تقسیم کیا جائے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ اوپیک کے ارکان سمیت تیل برآمد کرنے والے تمام ممالک چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تیل نکال کر فروخت کردیں۔ تیل کی پیداوار گھٹانے کا سیدھا مفہوم ہے، برآمد میں کمی۔ تیل کی برآمد میں کمی متعلقہ ممالک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ تیل برآمد کرنے والے بیشتر ممالک کو قومی معیشت کی کمزوری کا سامنا ہے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ معیشت زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو اور عالمی معیشت میں پیدا ہونے والی کسی بھی بڑی منفی تبدیلی کے اثرات جھیلنے کی پوزیشن میں رہے۔ سعودی عرب نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ نومبر کے دوران پیداوار میں کمی کردی گئی تھی اور اب مزید کمی کی گنجائش نہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھتے ہی سعودی عرب اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے پیداوار میں اضافہ کردے۔
امریکا نے سعودی عرب اور تیل برآمد کرنے والے دیگر ممالک کو بالواسطہ طور پر خبردار کردیا ہے کہ تیل کی پیداوار میں غیر معمولی کمی نہ کی جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھے گی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ تیل کی پیداوار موجودہ سطح پر رہے یا بڑھائی جائے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت نیچے رہے اور مغرب کو اضافی بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور ایران کے خلاف پابندیوں کے نفاذ سے معاملات پھر پیچیدگی اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اوپیک کے ارکان شدید مخمصے میں ہیں کہ کیا کریں، کس سمت جائیں۔ تیل کی پیداوار گھٹانے پر امریکا کی طرف سے غیر معمولی نوعیت کے اقدامات خارج از امکان نہیں اور دوسری طرف رسد بڑھانے پر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مزید نیچے آنے کا احتمال ہے۔ ایسی صورت میں قومی معیشتیں شدید بحران سے دوچار ہوں گی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کی تیل کی برآمدات پر پابندی لگانے کے حوالے سے احتیاط اور دانش مندی سے کام لیا ہے۔ ایک طرف تو ایران کو تیل کی پیداوار کم کرنے پر مجبور بھی کیا گیا ہے اور دوسری طرف چند ایک ممالک کو ایران سے تیل درآمد کرتے رہنے کی اجازت دے کر اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ عالمی منڈی میں رسد کے حوالے سے پیچیدہ صورتِ حال پیدا نہ ہو۔ امریکا چاہتا ہے کہ جب تک ایران کے خلاف پابندیوں سے چند ممالک کا استثنیٰ ختم ہو تب تک عالمی منڈی میں رسد کے حوالے سے صورتِ حال موافق ہو جائے۔
اوپیک کے ویانا کے مرکزی اجلاس میں اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ ارکان تیل کی پیداوار اس حد تک گھٹانے پر راضی نہ ہوں گے کہ معاملات ہاتھ سے جاتے رہیں اور اس قدر بڑھانے پر بھی رضا مند نہ ہوں گے کہ سب کے پاس اضافی تیل کے ذخائر بڑھ جائیں۔ ایسی کوئی بھی صورتِ حال عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں مزید گراوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔ نیوٹرل زون میں سعودی عرب اور کویت کی طرف سے تیل کی پیداوار بحال کرنے کے حوالے سے مشترکہ اقدامات میں بھی فی الحال تاخیر دکھائی دے رہی ہے، کیونکہ پیداوار بحال کیے جانے کی صورت میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مزید گراوٹ کا شکار ہوسکتی ہے۔ مگر خیر، سیاسی محرکات کے تحت کوئی بھی فیصلہ کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ سیاسی محرکات عقلی تقاضوں کے مطابق کیے جانے والے فیصلوں کو رد کردیا کرتے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“OPEC’s dilemma-markets are complicated!”. (“Center for Strategic and International Studies”. November 13, 2018)

Comments