سو دن کپتا ن کے !

عمران خان کیلئے تصویری نتیجہ
راز :
انڈے، بکروں کا فلسفہ دے کر
راز بتلا دیا ترقی کا
خان صاحب نے قوم کو آخر
خواب دِکھلا دیا ترقی کا
(اجمل سراج)
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے100دن کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کر دی ہے ۔ حزب اختلاف کی طرف سے اس کا پوسٹ مارٹم بھی ہو رہا ہے اور اختلاف کرنا حزب اختلاف کا حق بھی ہے ۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ صرف100 دن میں کایا پلٹ نہیں ہو جاتی تاہم ایک سمت کا تعین ضرور ہو جاتا ہے ۔ وزیر اعظم کے ایک مشیر ارباب شہزاد نے دعویٰ کیا ہے کہ100 دن میں18اہداف حاصل کر لیے اور درست سمت کا تعین کر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکردگی سامنے رکھ دی ہے ، فیصلہ عوام کریں۔ گو کہ عوام کا فیصلہ حکومت کی توقعات کے بر عکس ہو گا تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ عمرانی حکومت نے خود کواحتساب کے لیے پیش کر دیا ہے عوام کے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جو ان100دن میں بے تحاشا بڑھی ہے ۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر اور سابق رکن قوم اسمبلی محمد حسین محنتی نے کہا ہے کہ پہلے100 دن میں عوام کو مہنگائی کے تحفے ملے ۔ جب پیٹ میں روٹی نہ ہو تو عوام کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کرتار پورراہداری کھل گئی اور ملکی دولت کی واپسی کے لیے26 ملکوں سے معاہدے ہو گئے اور اتنے ڈالر ملک میں آئیں گے کہ گننا مشکل ہو جائے گا ۔ کرپشن پر قابو پائیں گے ، تخفیف غربت اتھارٹی قائم کی جائے گی ۔ زکوٰۃ ، بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ایک کمان میں لائیں گے ، جنوبی پنجاب کے لیے الگ سیکرٹریٹ بنائیں گے۔ گا، گے ، گی کی تکرار ہے اور یہی کام سابقہ حکومتیں کرتی رہی ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے ۔ ایک بار پھر واضح کر دیں کہ100 دن میں بہت سے کام نہیں ہو سکتے اور اس کے لیے طویل عرصہ درکار ہے ۔ لیکن خود عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ 100 دن میں بڑی تبدیلی لے آئیں گے چنانچہ یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا اور کہاں تبدیلی آئی ۔ عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے جو کچھ کہا اس کی یاد دہانی تو کرائی جائے گی ۔ مثلاً انہوں نے کہا تھا کہ دوسرے ممالک سے قرض مانگنے سے بہتر ہے کہ خود کشی کر لی جائے ۔ چین اور سعودی عرب سے امداد مل گئی اور عرب امارات سے بھی مل جائے گی۔آئی ایم ایف کی شرائط پوری کی جا رہی ہیں اورہچر مچر کے بعد معاملات طے ہو جائیں گے ۔ لیکن ایک خبر یہ ہے کہ عمرانی حکومت نے مالی سال2019ء کے ابتدائی4 ماہ میں ایک ارب58 کروڑ ڈالر قرض لے لیا ہے ۔ یہ قرض کمرشل بینک ، چین اور اسلامی ترقیاتی بینک سے لیا گیا ہے اور2019ء میں حکومت9 ارب ڈالر مزید قرض لے گی ۔پھر پچھلی حکومتوں اور موجودہ حکومت میں کیا فرق رہ گیا ہے۔ جواز صرف ایک ہے کہ پچھلی حکومتیں ملک کو لوٹ کر کھا گئیں ۔ ڈالر کی قیمت پر کوئی روک ٹوک نہیں اور اس پر ایک مضحکہ خیز بیان وفاقی وزیر ساحلی امور علی زیدی کا ہے کہ ’’ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملک میں تھوڑی مہنگائی ہوئی ہے ‘‘۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزیر ساحلی امور کا کام کیا ہوتا ہے ، کیا وہ ساحل پر بیٹھ کر لہریں گنتے ہیں یا کچھ اور کرتے ہیں لیکن ان کا مذکورہ بیان عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے بلکہ نمک سے بھی کچھ زیادہ ۔ غریب آدمی کے لیے زندگی دشوار تر ہو گئی ہے اور موصوف بڑی بے نیازی سے فرماتے ہیں کہ ’’ تھوڑی مہنگائی‘‘ ہوئی ہے ۔شاید وفاقی و صوبائی وزراء اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے مہنگائی کا یہ سونامی معمولی سا ہو ۔ سونامی کا تباہ کن لفظ عمران خان کو بہت مرغوب تھا اور وہ اٹھتے بیٹھتے تبدیلی کا سونامی لاتے تھے۔ اور لگتا ہے کہ مہنگائی کا سونامی آ ہی گیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ عمران نے کرتار پور کی گگلی کرائی۔ یہ اعلان کرنے سے پہلے وزیر خارجہ اپنی وزیر دفاع شیریں مزاری کے شور شرابے کا جائزہ بھی لے لیتے جو ایوان میں کھڑے ہو کر گرج رہی تھیں کہ جب واہگہ بارڈر کھلا ہے تو کوئی اور بارڈر کیوں کھولا جائے۔ محترمہ نے بھارت سے تجارت اور دوستی کی بھی سختی سے مخالفت کی تھی مگر اب وہ عمران خان کی کابینہ کی اہم رکن ہیں۔ لیکن اب وہ کیوں خاموش ہیں؟ کیوں نہیں پوچھتیں کہ کرتار پور کا راستہ کیوں کھولا اور بھارت سے تعلقات بڑھانے کی بات کیوں کی جارہی ہے۔ مگر جس طرح عمران خان اپنے سارے وعدے اور دعوے بھول گئے اسی طرح ان کے وزرا کو بھی حق ہے کہ سوائے نواز، شہباز شریف اور ان کے خاندان کے سب کچھ بھلا دیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے اچھا کیا کہ اپنی 100 دن کی کارکردگی کا سہرا اپنی اہلیہ کے سر باندھ دیا جو ان کو یاد دلاتی رہی ہیں کہ اب وہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔ پوری قوم کو بشریٰ بی بی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ورنہ عمران خان کنٹینر ہی پر چڑھے رہتے۔ عمران خان نے کہا کہ ’’مائنڈ سیٹ‘‘ بدلنا ہے اور ان کی ٹیم کی اہم رکن پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے اسی تناظر میں اپنی تحقیق پیش کی ہے کہ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی میں خواتین کا کردار کلیدی ہے۔ بشریٰ بی بی یہی کام کررہی ہیں۔ عمران خان نے پھر ایک یو ٹرن لیا ہے کہ سستے گھر بنانے کے لیے پیسے ہی نہیں۔ کیا یہ بات انہیں اس وقت معلوم نہیں تھی جب وہ 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کررہے تھے جو پہلے غریبوں کو مفت دیے جانے تھے پھر اس پر بھی یو ٹرن لے لیا گیا۔ اور اب تو پیسے ہی نہیں لیکن راستے کا تعین کرلیا۔ حزب اختلاف کو تو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ راستہ بھینسوں کے بعد کٹّوں، مرغیوں اور جھینگوں سے معیشت چلانے کا راستہ ہے۔ اب اگر وزیراعظم عام آدمی کی مدد کے لیے انڈے اور مرغیاں فراہم کررہے ہیں تو اس میں کیا ہرج ہے۔ لیکن اسی دن عدالت عظمیٰ نے عجیب بات کہہ دی کہ ’’عدالت وفاقی حکومت سے بالکل خوش نہیں، کوئی سچ نہیں بولتا، ایک حکومتی عہدیدار شمال تو دوسرا جنوب کی بات کرتا ہے۔‘‘جسٹس عظمت سعید کا یہ تبصرہ بڑا سخت ہے لیکن اس سے زیادہ سخت بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ حکومت کام نہیں کرے گی تو تیسرے فریق سے کرا لیں گے۔ یہ تیسرا فریق کون ہو سکتا ہے، اس کی وضاحت نہیں کی گئی اور یہ کام عوام پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ اندازے لگاتے رہیں۔ خدا کرے یہ اشارہ فوج کی طرف نہ ہو کہ وہ تو پہلے ہی بہت مصروف ہے۔
ادار یہ : روزنامہ جسارت -کراچی

Comments