ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کی شعری اصلاحات :::: تحقیق : ڈاکٹر صابر کلوروی

 ڈاکٹر  محمد علامہ  اقبال کیلئے تصویری نتیجہ


 ڈاکٹر  محمد علامہ  اقبال   کی شعری  اصلاحات
 

اقبال کے ہاں کلام کو خوب سے خوب تر بنانے کا عمل لمحہ تخلیق سے مجموعے کی اشاعت تک جاری رہتا تھا ۔ مولانا مسعود عالم 

ندوی کے نام خط میں اگرچہ علامہ اپنے آپ کو فنِ اصلاح سے نابلد قرار دیتے ہیں۔ ۹ لیکن یہ محض ان کا انکسار ہے ۔ امر واقعہ 

یہ ہے کہ وہ اس فن کے تمام اسرار و رموز سے واقفیت رکھتے تھے ۔ ۱۹۱۷ء میں علامہ نے اورنگ زیب عالمگیرکی قبر کی 

زیارت کی اور ایک نظم لکھی اس نظم کا ایک مصرع یوں تھا ؎
 
ترکشِ مارا خدنگ آخریں
 
علامہ نے اس بے نظیر مصرعے کے بارے میں دین محمد مرحوم (سابق گورنر سندھ) سے کہا کہ انہوں نے اس مصرعے پر 

چالیس بار نظر ثانی کی تھی تب موجودہ صورت میں یہ مصرع سامنے آیا علامہ کی بیاضیں اور مسودات اس امر کے گواہ ہیں کہ 

ایک ایک مصرعے کو تین تین اور بعض اوقات چار چار دفعہ تبدیل کیا۔ اصلاحات کا یہ عمل اُس وقت بھی جاری رہتا تھا جب 

آپ مسودہ کاتب کے حوالے کر دیتے تھے۔ آج جو اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں، اس جگر کاوی کے نتیجے ہی میں انہوں نے 

موجودہ صورت اختیار کی ہے چند مثالیں ؎
 
سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
 
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
 

کا دوسرا مصرع ابتدا میں یوں تھا ؎
 
باقی ہیں کچھ آثار ملوکی کے مٹا دو
 

اسی طرح ؎
 

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
 

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
 

کا یہ شعر ابتدا میں یوں تھا لیکن وزن درست نہ ہونے کی وجہ سے اسے تبدیل کر دیا ؎
 

محبت مجھے آفریدیوں سے ہے
 
کہ ہے آسمان گیر ان کی کمند

 
ڈاکٹر  محمد علامہ  اقبال کیلئے تصویری نتیجہ

مختلف ادوار    میں  علامہ کی اصلاحات کا معیار تقریباً یکساں رہا ہے ۔ خوب سے خوب تر کی سعی اوّل سے آخر تک یکساں طور پر 

جاری رہی ہے ۔ تاہم ابتدائی اصلاحات میں فنی نزاکتوں اور لفظی آرایش کا خیال کچھ زیادہ ہی رہا ہے ۔ الفاظ کے صحیح انتخاب اور 

علم بیان کے وسیع تر علم کی بدولت اشعار میں تمثال آفرینی کی کیفیت پیدا کرنے کا شعوری رجحان نمایاں رہا ہے ۔ جبکہ آخری 

دور کی اصلاحات میں کفایتِ لفظی سے کام لینے اور رمزیت و طنزیہ لطافت پیدا کرنے کا انداز اظہار کے دوسرے وسیلوں پر 

حاوی ہو جاتا ہے ۔ اسلوبِ بیان کی یہ تمام تر نزاکتیں فن کے متعلق اقبال کے اس انکسار کو ظاہر کرتی ہیں کہ انہیں شاعری سے 

کوئی دلچسپی نہیں اور یہ کہ ان کے اعلیٰ مقاصد فنِ شاعری پر غالب رہتے ہیں ۔ا ن اصلاحات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ 

علامہ کو فنِ شاعری پر مکمل دسترس حاصل تھی اور وہ فصاحت و بلاغت کے تمام رموز سے آشنا تھے، اور انہیں برتنے کا سلیقہ 

بھی جانتے تھے۔ مزید برآں انہیں لفظ و معنی کے رشتے کا بھی علم تھااور تاثیرِ شعری میں ہر دو کی ترکیب امتزاجی کا بھی وافر 

شعور تھا ۔ اصلاحات کے ضمن میں علامہ کی جگرکاوی ہی نے انہیں ممتاز شعراء کی صف میں شامل کیا اور یہ بات یقین سے کہی 

جا سکتی ہے کہ اگر وہ اصلاح شعر پر اتنی محنت نہ کرتے تو ان کی مقصدی شاعری تاثیر کے اس وصف سے محروم رہتی جو آج اس 

کا طرۂ امتیاز ہے۔
 

علامہ کی تاثیر شعری کا راز جاننے کے لیے باقیات شعر اقبال کا مطالعہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس امر کی ضرورت بھی اب شدّت 

سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اقبال کی اصلاحات جمع کر کے ان کے نظریہ فن اور ردّ و قبول کا صحیح معیار متعین کیا جائے۔


 تحقیق :  
 
ڈاکٹر صابر کلوروی
صدر شعبہ اردو ، پشاور یونیورسٹی

Comments