دو انتخابات کی روداد ::::: جاویداحمد خان


پہلے آپ کو 25جولائی 2018 کے انتخاب میں اپنے ووٹ ڈالنے کی روداد سناتے ہیں۔ صبح ساڑھ آٹھ بجے اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے پولنگ اسٹیشن جو قریب ہی اسکول میں تھا پہنچے۔ اسکول کے گیٹ کے باہر کچھ بسیں بے ترتیب کھڑی تھیں ، قریب ہی رینجرز کی گاڑی بھی موجود تھی، جب ہم گیٹ کے قریب پہنچے تو گیٹ کے باہر ہی ایک سادہ لباس والے نے روکا، اس نے ہماری تلاشی اس طرح لی کہ صرف کندھے سے لے کر نیچے تک ہاتھ لے گئے کہ جیب میں یا جسم کے کسی حصے میں کوئی خطرناک اسلحہ تو نہیں ہے دوسری طرف ایک برقع پوش نوجوان خاتون تھیں جنہوں نے ہماری اہلیہ کا پرس چیک کیا جب ہم اسکول کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو ایک باوردی فوجی جو شاید ان کا آفیسرتھا کرسی پر براجمان تھا نے ہمارا قومی شناختی کارڈ اور ووٹر کی پرچی چیک کی دوسری طرف ایک فوجی سپاہی نے ہماری اسی طرح تلاشی لی جیسے اسکول کے باہر والے نے لی تھی، پھر ہمیں اشارے سے بتایا کہ آپ کا پولنگ بوتھ سامنے اسکول کی پہلی منزل پر ہے ہم جب اوپر پہنچے تو برآمدے میں پھر ایک باوردی فوجی سے آمنا سامنا ہوا اس نے بھی ہمارا شناختی کارڈ چیک کیا پھر کہا وہ سامنے والے کمرے میں چلے جائیں خواتین کا بوتھ بھی اسی میں ہے۔ جب کمرے میں گئے تو ایک اچھی بات یہ نظر آئی کے کمرے کے درمیان میں ایک بڑی سی چادر سے خواتین کا بوتھ الگ کیا ہوا تھا اس کے بعد پھر ہم نے اسی طرح اطمینان سے ووٹ ڈالا اور اس ووٹ ڈالنے کا عمل ویسا ہی تھا جیسا کے الیکشن کمیشن کی طرف سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پہ اشتہارات آرہے تھے میں نے اب تک جتنے انتخابات میں ووٹ ڈالے ہیں ان سب میں اس انتخاب کا انتظام سب سے اچھا تھا کوئی فالتو آدمی اسکول میں گھومتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا۔  2013 کے انتخاب میں کیا ہوا تھا؟ آپ کو یاد ہوگا کہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں سوائے ایم کیو ایم حکومت سے مطالبہ کررہی تھیں کہ کراچی میں فوج کی نگرانی میں انتخابات کرائیں جائیں، لیکن یہ مطالبہ اس طرح مانا گیا کہ فوج امن و امان کے لیے گشت کرے گی اور جس اسٹیشن سے کوئی شکایت آئے گی وہاں بھیجی جائے گی لیکن فوج پولنگ اسٹیشن کے اندر نہیں ہو گی۔ ہمیں چوں کہ اپنی تنظیم کی طرف سے انتخابی امور کی ڈیوٹی دینا تھی اس لیے سوچا کہ پہلے اپنا ووٹ ڈال دیں پھر اپنے فرائض انجام دیں اسی اسکول میں ہمارا پولنگ اسٹیشن تھا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے میں اکیلا ہی ووٹ ڈالنے گیا گیٹ کے باہر چند پولیس والے تھے جو گپ شپ میں مصروف تھے اور ان سے کہیں زیادہ تعداد میں ایم کیو ایم کارکنان تھے جو باہر چل پھر رہے تھے اس میں کچھ مسلح بھی تھے۔ گیٹ پر پولیس کے سپاہی کھڑے تھے لیکن ان کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ ووٹروں کو اس وقت بھی موبائل فون اندر لے جانے کی اجازت نہ تھی لیکن صرف ووٹروں کے لیے۔ گیٹ سے باہر ایم کیو ایم کی بزرگ کمیٹی کے ایک صاحب جو ہمارے محلے دار بھی تھے ان کے پاس کئی ووٹروں کے موبائل فون تھے میں نے بھی اپنا موبائل ان کے پاس جمع کرادیا اور اسکول کے اندر داخل ہوگیا اندر کا جو منظر تھا وہ خوف کا ایک ماحول پیدا کررہا تھا پولیس کچھ سپاہی ایک کنارے بیٹھے چائی نوش فرما رہے تھے جب کہ ایم کیو ایم کے سیکڑوں کارکن جو اکثر مسلح بھی تھے پورے اسکول میں آرام سے گھوم پھر رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں موبائل فون بھی تھے۔ میں ان مناظر کا جائزہ لیتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ابھی صبح سے یہ صورت ہے تو شام تک کیا حال ہوگا کچھ لڑکے مجھے جانتے بھی تھے انہوں نے کہا کہ جاوید بھائی آپ کا ووٹ اس روم میں ہے میں کمرے کے اندر گیا تو کچھ کارکن پولنگ کے عملے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے اندر ووٹنگ کے سارے مراحل سے گزرنے کے بعد ایک کونے میں ایک میز تھی جو بالکل اوپن تھی وہاں پر انک پیڈ اور مہر رکھی تھی یعنی ووٹ ڈالنے کی جگہ پر کوئی پردہ نہیں تھا جب کہ اس دفعہ پلاسٹک کا ایک ڈائس رکھا تھا جو چاروں طرف سے کورڈ تھا۔ اس طرح اپنے ووٹ سے فارغ ہو کر میں کچھ خواتین پولنگ ایجنٹس کو لے کر ایک دوسرے اسکول میں گیا جہاں ان کو مختلف پولنگ بوتھ پر بٹھانا تھا وہ اس سے بڑا اسکول تھا جہاں میں نے ووٹ ڈالا تھا اس کی حالت اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ خواتین چھوڑ کر دوسرے کام سے باہر آگیا پھر 11 بجے دن دوبارہ اس اسکول میں جانا ہوا تو دیکھا کہ پورا اسکول ایم کیو ایم کے مسلح لوگوں سے بھرا ہوا ہے اور اسلحہ کی نمائش ہورہی تھی ایک جگہ گیٹ کے پاس دو لڑکے آپس میں اپنی ریوالور ایک دوسرے کی طرف اچھال کر کیچ کیچ والا کھیل رہے تھے پولیس کے سپاہی ایک طرف اپنے ڈنڈوں کے ساتھ سہمے ہوئے کھڑے تھے۔ اسی اسکول کے باہر شام کو میں نے دیکھا کہ ایک گوشت والے کی دکان پر بیلٹ بکس رکھا ہے اور بیلٹ پیپر کی گڈیاں ہیں ہر آتے جاتے فرد سے پتنگ پر مہر لگوا کر بکس میں ڈلوایا جارہا تھا۔ 2013 میں اگر اسی طرح فوج ہوتی جس طرح اس دفعہ تھی یہ بات یقینی تھی کہ پانچ سال پہلے ہی ایم کیو ایم کا صفایا ہو جاتا اس لیے کہ اس وقت کراچی کے شہریوں میں ایم کیو ایم کے خلاف نفرت انتہائی عروج پر تھی۔ جمعرات 26جولائی کو جب میں فاروق ستار کی پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا جس میں وہ معصومیت اور مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے فرما رہے تھے ہمارے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا فارم 45 بھی نہیں دیا اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو وہی لوگ ہیں جو، اب سے پہلے کے تمام انتخابات میں گن پوائنٹ پر دیگر سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا کرتے جو ذرا مزاحمت کرتا تو اس پر تشدد کیا جاتا اور پھر انتخابی عملے کو یرغمال بنا کر ٹھپے لگائے جاتے اور اپنی مرضی کا رذلٹ بنایا جاتا تھا۔ اس دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ کئی جگہوں پر ایم کیو ایم اپنے پولنگ ایجنٹس بھی نہ بٹھا سکی ورنہ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایم کیو ایم اپنے اصل امیدوار کے علاوہ متبادل امیدواروں کے نام سے بھی پولنگ ایجنٹ بٹھاتی تھی اور ہر بوتھ پر ان کے دو یا تین پولنگ ایجنٹ ہوتے تھے، اس کی وجہ ان کی افرادی قوت اور دہشت کا ماحول تھا کہ جس کو کہہ دیا کہ تمہیں پولنگ ایجنٹ بننا ہے تواس کی ہمت نہیں ہوتی کے وہ انکار کردے، پھر ان تمام لوگوں کو ایک دن پہلے ایک جگہ سلایا جاتا اور پھر صبح ایک ساتھ پولنگ اسٹیشن پر لایا جاتا اگر کوئی لڑکا رات کو نہیں آیا تو رات کے تین بجے اس کو گھر سے زبردستی اٹھا کر لایا جاتا۔ گلشن اقبال میں، میں نے ایک کارکن سے جو متحدہ مجلس عمل کی طرف سے پولنگ ایجنٹ بنے تھے پوچھا کہ آپ کے بوتھ میں اور جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ تھے اور کیا ایم کیو ایم کا یہ الزام ٹھیک ہے کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی بات نہیں ہے ہمارے بوتھ میں تحریک انصاف کا تو کوئی پولنگ ایجنٹ آیا ہی نہیں ایک ایم کیو ایم کا اور ایک پی ایس پی کا تھا جب گنتی شروع ہوئی اور تحریک انصاف کے ووٹ زیادہ نکلنے لگے ایم کیو ایم والا تو ایک کنارے جاکر بیٹھ گیا وہ گنتی کے عمل میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لے رہا تھا۔ پی ایس پی کا پولنگ ایجنٹ ایک اٹھارہ سال کا نوجوان تھا جو پہلی بار پولنگ ایجنٹ بنا تھا وہ بہت گھبرا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میں اپنے گھر والوں سے کہہ کر بھی نہیں آیا تھا اور مجھ سے کہا گیا تھا پانچ بجے ہم تمہیں بلا لیں گے اور گنتی میں کسی اور کو بھیج دیں گے لیکن کوئی نہیں آیا اس نے جانا چاہا تو پریزائیڈنگ آفیسر نے روک دیا کہ گنتی مکمل ہونے کے بعد جانا وہ لڑکا تقریباً رونے سے لگا کہ میرے گھر والے بہت پریشان ہو رہے ہوں گے پھر میں نے سفارش کی تو اسے جانے کی اجازت مل گئی ایم کیو ایم والا تو الگ تھلگ بیٹھا تھا چوں کہ پتنگ کے ووٹ بہت کم نکل رہے تھے اس لیے وہ اپنی اداسی کے ساتھ دور بیٹھا تھا کہیں باہر بھی نہیں جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ کسی پولنگ ایجنٹ کو نکالا گیا پتنگ کے جب ووٹ کم نکل رہے تھے تو ان کے پولنگ ایجنٹ خود ہی چلے گئے جب میڈیا میں یہ بات آئی تو پھر سختی کی گئی کسی پولنگ ایجنٹ کو باہرنہیں جانے دیا گیا۔

Comments