طاقتور پاکستان 'عسکری پاکستان'

Image result for ‫طاقتور پاکستان 'عسکری پاکستان'‬‎
پاکستان دنیا کے نقشے پر 1947 میں وجود میں آیا پھر پچیس سال بعد دسمبر کی سولہ تاریخ کو آدھا پاکستان واپس کر دیا گیا۔ جو باقی آدھا حصہ رہے گیا تھا وہ پنڈولم کی گیند کی طرح مفاد پرست طبقے کے درمیان جھول رہا ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کے وہ وجود میں تو ایک اکائی کی صورت آیا تھا مگر اس کے اندر اب جتنے پاکستان مضمر ہیں گنتے گنتے اڑسٹھ سال ہوگئے ہیں۔
درجنوں پاکستانوں کے بعد بچا کچھا پاکستان عام عوام کا پاکستان ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کا، عورتوں کا اور بلوچوں کا بھی پاکستان ہے لیکن وہ نقشے پر صاف دکھائی نہیں دیتا
ان میں سب سے زیادہ طاقتور پاکستان 'عسکری پاکستان' ہے، دوسرے نمبر پر پنجابیوں کا پاکستان ہے، تیسرا پاکستان 'ملائیت پوش پاکستان' ہے، چوتھا کالعدم تنظیموں اور طالبان کا پاکستان ہے، پانچواں پاکستان بحریہ ٹاونوں، ڈیفنسوں ہاوسنگ سوسائٹیوں کا پاکستان ہے، چھٹا منی لانڈرنگ مافیا کا ہے، ساتواں پاکستان سیاسی تاجروں کا ہے جو سیاست کی آڑ میں تجارت کرتے ہیں، آٹھواں پاکستان افسر شاہی کا پاکستان ہے، نواں پاکستان عدلیہ کا ہے اور پھر پاکستان کا کچھ حصہ امریکیوں، چینیوں اور سعودیوں کو بھی الاٹ کیا گیا ہے، اس کے بعد ذخیرہ اندوزوں، بجلی چوروں اور ٹھیکیداروں کا پاکستان ہے ان درجنوں پاکستانوں کے بعد بچا کچھا پاکستان عام عوام کا پاکستان ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کا، عورتوں کا اور بلوچوں کا بھی پاکستان ہے لیکن وہ نقشے پر صاف دکھائی نہیں دیتا۔
ان ان گنت پاکستانوں میں میں سب سے زیادہ طاقتورعسکری پاکستان ہے جو باقیوں کو سدھاتا ہے اور وقت پر وفاداری نہ کرنے پر ان کے خلاف ایکشن پلان تیار کرتا ہے۔ عسکری پاکستان میں آپ کو صرف خاکی باشندے ملیں گے جو بظاہر اس ریاست کے عام عوام سے ہمدردیاں اور دعائیں بٹورتے نظر آئیں گے، قدرتی آفات ہوں یا بلندوبالا کمرشل عمارتوں کے انہدم کے نتیجے میں دب جانے والے لوگوں کو نکالنے کا کام۔۔۔ جہادی پالنے ہوں یا مارنے ہوں، بلوچ غائب کرنے ہوں، شوگر ملیں لگانی ہوں، سیمنٹ کی فیکٹریاں چلانی ہوں بنک چلانے یا کبھی کبھا ہر دس سال بعد حکومت کرانی ہو خاکی کمپنی لمیٹڈ ریاست کے جملہ آئینی اور غیر آئینی امور سرانجام دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ یہ ریٹائر ہو کر بھی ریٹائر نہیں ہوتے کسی نہ کسی محکمے کا کوئی نہ کوئی عہدہ ان کے لیے خالی رہتا ہی ہے۔ درحقیقت پاکستان میں "خاکی کمپنی" ریاست کے تمام اداروں کو اپنا سرمایہ سمجھتی ہے کیونکہ خاکی کمپنی نے پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک یہاں کی سیاسی جماعتوں، افسر شاہی، کالعدم تنظیموں، زرعی زمینوں اور ہاوسنگ سوسائٹیوں میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے۔
درحقیقت پاکستان میں "خاکی کمپنی" ریاست کے تمام اداروں کو اپنا سرمایہ سمجھتی ہے کیونکہ خاکی کمپنی نے پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک یہاں کی سیاسی جماعتوں، افسر شاہی، کالعدم تنظیموں، زرعی زمینوں اور ہاوسنگ سوسائٹیوں میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے۔
1947 کے بعد سے الحمد اللہ ریاست عدم تحفظ کا شکار رہی ہے، جس کے پیش نظر خاکی کمپنی روزاول سے ہی ریاستی محافظ کی کرسی سنبھال کر بیرونی خطروں کا اندرونی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ خاکی کمپنی نے یہ کردار آزادی کے فوراً بعد ہندوستان کے ساتھ پہلی جنگ کے نتیجے میں اپنا لیا تھا۔ ملک کی پالیسی ساز اشرافیہ آج تک خاکی کمپنی کی بنائی سیکیورٹی عینک لگا کر قومی سلامتی کو لاحق خطرات بھارت سے منسلک دیکھتی آئی ہے۔ اپنی غلطیوں کے ہاتھوں آدھا ملک گنوانے اور بقیہ آدھے میں اپنے ہی بنائے دہشت گردوں سے چھپتے پھرنے کے باوجود ہمارا ماننا یہی ہے کہ سات دہائیوں سے بھارتی قیادت نے مسلمانوں کے آزاد ملک کو تسلیم نہی کیا اور وہ پاکستان کے خاتمے کے درپے ہے۔ شاید پاکستان ہم نے اور پاکستانیوں کو عسکری پاکستان نے تسلیم نہیں کیا۔
خاکی کمپنی کو صرف بلٹ ہی نہیں بیلٹ کی سیاست بھی آتی ہے۔ اپنے ملک کی آزادی کے غیر آئینی ابتدائی سالوں سے لے کر آج کے آئینی دنوں تک یہ کمپنی سیاست میں شریک رہنے کی وجہ سے سیاسی طور پر بڑی مضبوط ہو چکی ہے۔ اس کمپنی کی مالی خودمختاری کا انحصار اس کی سیاسی خومختاری پر ہے۔ یہ شای واحد "سیاسی تنظیم" ہے جو منظم بھی ہے اور اس کے سیاسی اثر میں بلا روک ٹوک اضافے کا امکان ہے۔ یا کم از کم اس بات کا امکان ہے کہ ان کا سیاسی اثر و رسوخ اس وقت تک کم نہیں ہوگا جب تک ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔
عسکری پاکستان میں "خاکی کمپنی" ریاست کے تمام اداروں میں شمولیت اختیار کر چکی ہے۔ سیاست اور معیشیت میں خاکی کمپنی کی شمولیت اپنے اقتدار کو طول دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی اگست 2009 میں اپنی شائع ہونے والی کتاب "پاکستان میں مارشل لاء کی تاریخ" میں لکھتے ہیں کہ
عسکری پاکستان میں "خاکی کمپنی" ریاست کے تمام اداروں میں شمولیت اختیار کر چکی ہے۔ سیاست اور معیشیت میں خاکی کمپنی کی شمولیت اپنے اقتدار کو طول دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
"پاکستان اپنے قیام کے بعد پچھلے باسٹھ برسوں میں چار مرتبہ براہ راست فوجی اقتدار کے تجربے سے گزر چکا ہے ان چاروں ادوار میں جنرل ایوب خان(1969-1958) جنرل یحییٰ خان (1971-1969) جنرل ضیاالحق (1988-1977) اور جنرل پرویز مشرف (2008-1999) مملکت کے مقتدراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ مجموعی حثیت سے ان چارفوجی ادوار کی مدت بتیس سال سے کچھ اوپر بنتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملک کی باسٹھ سالہ تاریخ کے نصف سے زیادہ حصے میں فوج ہی اقتدار میں رہی ہے۔ پاکستان میں ریاست کے کردار اور سیاست کے بالادست اداروں کی نوعیت اور اثر و اہمیت کو پیش و نظر رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہی ہوتا کہ وہ ادوار جن میں فوج براہ راست اقتدار میں نہی تھی ان میں بھی امور مملکت اور حکومت کے قیام اور ان کی معزولی کے پیچھے فوج کا ایک کلیدی کردار رہا ہے۔"
پاکستان، ترکی اور انڈونیشیا میں مسلح افواج اپنی سیاسی طاقت کو آئینی اور قانونی تحفظ دیتی ہیں۔ آئین میں ایسی ترامیم لانے کے لیے اپنے سولین ساتھیوں استمال کیا جاتا ہے جن کی بقا کا دارومدار فوج پر ہوتا ہے۔ گو ہر عہدے کے فوجی کو اقتدار میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔ پھر بھی اعلیٰ ترین اور درمیانی عہدوں کے فوجی افسران اور فوجی برادری کے دوسرے ارکان ریاست پر قابض رہتے ہیں۔ قانونی اور آئینی ترامیم جو افواج کے اضافی کردار کی توثیق کرتی ہیں، کے ذریعے مسلح افواج اب پالیسی کا آلہ کار نہیں رہتی بلکہ مساوی شریک کار بن جاتی ہیں اور حکمران اشرفیہ کے دوسرے ارکان کے ساتھ اقتدار اور وسائل میں شریک ہو جاتی ہیں۔ یوں مسلح افواج حکمران طبقے میں مستقل طور پر شامل ہو جاتی ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ حکمران طبقات فوج کے ساتھ شراکت ہی سے اپنا اثرو رسوخ حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح فوج کا اپنے کردار کو بدلنا اس کی بدلتی ہوئی اس سوچ کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ خود کو سیاست اور نظم و نسق کا مستقل حصہ سمجھننے لگتی ہے۔ اسی طرح عسکری پاکستان میں خاکی کمپنی نے اپنا انصاف کا ترازوں متعارف کروا رکھا ہے جس کی طاقت کا ثبوت حال ہی میں یوں مہیا کیا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچایا دیا ہے جب کہ سول سیاسی پاکستان سالہاسال سے مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل کو مذہبی لاڈ پیار کے جھولے میں جھلا رہا ہے۔
عسکری امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ اپنی کتاب "Arms procurement and Military Buildup" میں لکھتی ہیں، کہ افواج وقتاً فوقتاً براہ راست سیاسی اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ ایسی افواج مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان خود کو ایک توزان پیدا کرنے والی والی قوت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنی مداخلت کا خود ساختہ اخلاقی جواز یہ پیش کرتی ہیں کہ قوم کی ترقی اور استحقام کے لیے ان کی مداخلت ضروری ہے۔ اندرونی اور بیرونی طور پر مملکت کے تحفظ کے سلسلے میں سیاسی فریقین کی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شہبات پھیلائے جاتے ہیں اور سویلین بدعنوانیوں کو روکنے کے لیے افواج خود کو نگران مقرر کر لیتی ہیں اور متواتر مداخلت کا جواز پیدا کرتی رہتی ہیں۔
افواج وقتاً فوقتاً براہ راست سیاسی اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ ایسی افواج مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان خود کو ایک توزان پیدا کرنے والی والی قوت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ وو اپنی مداخلت کا خود ساختہ اخلاقی جواز یہ پیش کرتی ہیں کہ قوم کی ترقی اور استحقام کے لیے ان کی مداخلت ضروری ہے۔
اس قدر اثر و رسوخ کے باوجود فوج کے لیے اپنا اقتدار قائم رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ پرل مٹر Perl Mutter نے کسی ریاست میں فوجی اقتدار طویل نہ ہونے کی کئی وجوہ بیان کی ہیں مثلاً :
ا: مجودہ سماجی ساخت کو تسلیم کرنا ب: بیرکوں میں واپس پر رضامندی
ج : فوج کی آزاد سیاسی تنظیم نہ ہونا
د: فوجی حکومت کی طوالت محدود ہونے کا تصور
ن: پریشر گروپ کے طور پر فوج کا کردار
م: سویلین انتقام کا خوف
ہ: پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا خیال
درج بالا نکات میں تیسرا نکتہ یعنی فوج کی آزاد سیاسی تنظیم کا نہ ہونا خاصا اہم ہے۔
چوں کہ فوج کی پیشہ وارانہ تربیت بیرونی خطرات سے مقابلے کے لیے ہوتی ہے اس لیے اس کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی سیاسی جواز نہی ہوتا۔ سیاسی جواز کے فقدان کا احساس فوج کو پس منظر میں جانے پر مجبور کر دیتا ہے مگر اس کی بااثر حیثیت برقرار رہتی ہے۔ چناچہ بار بار مداخلت کا اخلاقی جواز پیش کرنے کے باوجود فوج زیادہ عرصہ اقتدار میں نہیں رہ سکتی۔ سول سوسائٹی منتشر تو ہوتی ہے مگر اتنی کمزور بھی نہیں ہوتی کہ مسلح افواج کی مطلق العنان حکومت کو مسلسل اقتدار کی اجازت دے دے۔

Comments