قومی انتخاب2018 اور مبارکباد کا مسئلہ ::: تحریر ::: سرفراز عالم


قومی انتخابات کو آج پانچ دن ہوگئے ہیں اور میں پانچ دن سے یہ ہمت باندھ رہا ہوں کہ اپنے تحریک انصاف کے دوستوں کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دوں مگر الفاظ نہیں مل رھے کہ کس طور انہیں مبارکباد پیش کی جائے کہ ہمارے ان دوستوں کی فتح و کامیابی کو کچھ نادیدہ قوتوں نے اپنی کم عقلی اور خود فریبی کے باعث مکدر کردیا

تحریک انصاف تو اس بار کا یہ الیکشن ویسے ہی جیت رہی تھی گھر میں بیٹھی خواتین تک کو اس لہر کا اندازہ تھا " آسمانی مخلوق " ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور اور تمام تر راہیں استوار کرچکی تھی ، قوم کے نوجوانوں میں بھی بیداری اور تبدیلی کی لہر نظر آرہی تھی اور پہلی دفعہ ووٹ کاسٹ کرنے والے نوجوانوں نے ذوق و شوق اور اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر سے باہر قدم نکالا اور یوں 30 سال سے زائد عرصے سے جاری زندہ بھٹو اور مرے ہوئے شریفوں کی سیاست کو دیس نکالا دے دیا اور یوں ایک نیا سیاسی آفتاب اپنی پوری امیدوں اور آب و تاب  کے ساتھ طلوع ہوگیا یہ قوم کے لئے بہت خوش آئند ھے اور بڑی مثبت تبدیلی ھے  مگر کاش اس فتح و کامیابی کے رنگ کو خراب اور مکدر نہ کیا جاتا اور یہ جیت  ایک فطری اور منصافانہ عمل کی صورت میں قوم کے سامنے لائی جاتی تو ہم جیسے سیاسی مخالفت رکھنے والے بھی خوش دلی سے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے انصافی دوستوں کو مبارکباد پیش کردیتے اب تو صورتحال یہ ھے کہ ہم مبارکباد پیش کرتے ہوئے الفاظ کا سہارا ڈھونڈ رھے ہیں جبکہ ہمارے انصافی دوست جنہیں خود بھی اس قدر بھونڈے تماشہ کی توقع نہ تھی وہ بھی چاہ رھے ہیں کہ اچھا ہی ھے کہ اس طرح کی کامیابی پر مبارک باد پیش نہ ہی کی جائے کہ جو خود ان سے بھی ہضم نہیں ہورہی

اس بار کا یہ کھیل انتہائی منظم اور مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلا گیا ، پورے ملک میں بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ پولنگ کا عمل جاری رکھا گیا کوئی بھی واقعہ اور کوئی بھی آواز اس سارے عمل کے دوران سننے میں نہ آئی اور یوں کسی بھی سیاسی ورکر کے ذہن میں اس بات کا احتمال ہی نہ رہا کہ سارا ڈرامہ ووٹ کاونٹنگ کے وقت میں کھیلا جائے گا

اس سے آگے بڑھتے ہوئے اصل کہانی تو یہ تھی اس بات کا پورا پورا انتظام کرلیا گیا تھا کہ ہم نے مطلوبہ امیدوار کے کتنے ووٹ ان ڈبوں سے نکالنے ہیں خلائی سرپرستی میں پہلے سے تیار ووٹ ہر پولنگ اسٹیشن پر مقررہ تعداد میں موجود تھے پرامن پولنگ کے بعد جب تمام بیلٹ بکس ایک کمرے میں جمع کئے گئے بیشتر پولنگ اسٹاف کو اور پولنگ ایجنٹس کو اسٹیشن سے باہر نکال دیا گیا مخصوص افراد کو ایک کمرے میں بٹھاکر طویل انتظار کرایا گیا ووٹوں کی تبدیلی کے بعد بلاخر تھکے ہارے سیاسی کارکنوں کے سامنے ڈبے کھولے گئے اور ووٹوں کی گنتی کراکے رات گئے ان کے ہاتھوں میں کچی پرچیوں پر ووٹوں کی تعداد لکھ کر دے دی گئی جن پولنگ ایجنٹس نے شور مچایا اور فارم 45 پر رزلٹ کا اصرار کیا انہیں بطور سزا صبح نماز فجر تک پولنگ اسٹیشنز پر روکا گیا اور پھر ان کے ہاتھ میں فارم 45 پر رزلٹ دیا گیا

آپ احباب کو یہ باتیں بڑی افسانوی اور من گھڑت لگ رہیں ہونگیں مگر میں آپ کو وثوق اور دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ عمل اسی طرح سے جاری رکھا گیا ھے میرے دعوی کا ثبوت درکار ہو تو آپ کراچی کے کسی بھی حلقہ کو دوبارہ کھلوالیں اور اس میں تھم امپریشن کے ساتھ ری کاونٹنگ چیک کرلیں آپ کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی آجائے گا

اس معاملہ میں ایک بڑا اور خوبصورت گیم یہ کھیلا گیا کہ کراچی میں کسی بھی حلقہ میں قومی اسمبلی کے رزلٹ میں اس بات کی گنجائش چھوڑی ہی نہیں گئی کہ آپ کوئی بھی حلقہ ری کاونٹنگ کے لئے کھلوا سکیں
دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کے لئے لازم ھے کہ اس کے ووٹ جیتنے والے امیدوار سے کم از کم 10 ہزار سے کم ہوں یہاں تو بڑے مارجن کا فرق رکھ کر ری کاونٹنگ کا دروازہ بھی بند کردیا گیا کہ اب" جو بگاڑ  سکتے ہو - بگاڑ لو " والا معاملہ  ھے

21 ارب روپے قومی خزانہ سے خرچ کئے جانے والے اس حالیہ الیکشن کے نتائج کو قوم کے سامنے تماشہ بناکر پیش کیا گیا اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والی مخلوق کو یہ اندازہ ہی نہ رہا کہ اتنا بھونڈا کھیل کھیلے جانے پر چیزیں آشکارا ہوجائینگی اک بیداری اور بیزاری کی لہر تھی ان ہوواں کو یوں ہی چلنے دیا جاتا نتیجہ تو قوم کے سامنے مثبت ہی نکلنا تھا مگر خوبصورت اور بہترین فتح کو پراگندہ کرکے قوم کے سامنے پیش کردیا گیا

یہ تحریر میں  گھر میں بیٹھے لوگوں کی طرح ڈرائنگ روم میں  مرتب نہیں کررہا میں کراچی کے حلقہ این اے 245 میں الیکشن کی تمام کمپیئن میں شریک رہا ہوں  ڈیرھ ماہ اس حلقہ کی گلیوں اور محلوں میں وقت صرف کیا ہزاروں افراد سے ملاقاتیں کی ہوا کا رِخ روز نہیں بلکہ ہر لمحے میں محسوس کیا ، تبدیلی کی فضا تھی کراچی میں اور یہ تبدیلی یک طرفہ نہ تھی  یہاں سے عامر لیاقت جیتے ہیں اور ایسے ووٹوں سے جیتے ہیں کہ ہم تو کیا خود ان کو بھی اپنی پذیرائی کا اس قدر اندازہ نہ ہوگا اس الیکشن مہم میں بارہا ہمیں پی ٹی آئی کے دوست ملتے رھے ہم اکثر انہیں یہ کہہ کر چھیڑتے رھے کہ بھائیوں عامر لیاقت کو ہمراہ لے کر اپنی کمپیئن چلائیں نا ، کچھ دوستوں نے کھلے عام اس بات کا اعتراف کیا کہ بھائی اسے کہاں سے ساتھ رکھ کر گھومیں جہاں جاتے ہیں تماشہ بن جاتا ھے اسے گھر پر ہی بٹھایا ہوا ھے اور باقی صوبائی امیدواران کے ساتھ ہم  اپنی عوامی رابطہ مہم  کررھے ہیں میں اس حلقہ کے ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جنہوں نے تحریک انصاف کے لئے اپنا وقت مال اور توانائیاں خرچ کیں کھل کر کام کیا مگر الیکشن والے دن اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قومی اسمبلی کا ووٹ عامر کو نہیں دیا جبکہ اپنے صوبائی امیدواران کے لئے ہی جی جان سے زور لگاتے رھے کہ وہ خود چاہتے تھے کہ عامر جیسا فرد ان کے حلقہ سے منتخب نہ ہو یہ تحریک انصاف کے ورکر کے سیاسی شعور کا ثبوت ھے لیکن جب ورکر کا یہ حال ھے تو آپ عوام سے کیا توقع رکھینگے کہ وہ عامر لیاقت کو ووٹ دے گی

جو بھی ہوا اور جیسے ہوا سخت تکلیف دہ اور افسوسناک پہلو ھے کہ مملکت خداداد پاکستان میں چار طویل مارشلاء لگ چکے ہیں جو ٹوٹا پھوٹا سیاسی عمل جاری ھے اسے بھی یرغمال بناکر ایسے بیہودہ کھیل کھیلے جارھے ہیں جس سے ملک کا مستقبل اور سیاسی نظام داو پر لگ چکا ھے
یہ فضا تبدیل کرنے کی ذمہ داری ہر سیاسی کارکن ، لیڈر اور ہر ذی شعور محب وطن پر عائد ہوتی ھے اسی میں ملک کی بقاء ھے کہ سیاسی عمل سیاستدانوں کے سپرد کردیا جائے اور عوام کو یہ آزدای ہونی چاہئے کہ وہ اپنے حکمرانوں کا فیصلہ آزادانہ اور منصافانہ طور پر کر سکیں

Comments