ایوب خان کا مارشل لا- " جنگ ستمبر 1965 - " جرأت و بہادری کی داستان اور ہندوستانی ٹینکوں کا قبرستان " ( نجیب ایوبی) قسط نمبر131 ( نواں حصہ )

برصغیر میں اسلام کے احیا ء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر131

  (
 ( نواں حصہ   )
جیسا کہ میں نے پچھلی قسط میں تفصیل کے ساتھ جنگ 1965 کے  محرکات پر بات کرچکا ہوں  مگر ہندوستانی عسکری مصنف بی سی چکرورتی کی زبانی سن لیں کہ  
 ”فروری 1965ءمیں ہی ہندوستان یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ  پاکستانی  عسکری دستوں کو "کانجر کوٹ " سے نکال باہر کرنا ہے۔ یہ رن آف کچھ میں ایک بہت پرانا قلعہ ہے، جو پاکستان ہندوستان    سرحد پر واقع تھا  اور اس پر پاکستان کا عمل دخل تھا  ہندوستان  نے ان پاکستانی فورسز کو یہاں سے نکالنے کی تیاریاں شروع کر دیں تھیں ۔ اس آپریشن کا نام ”آپریشن کبڈی“ رکھا۔ ہندوستانی ہائی کمانڈ نے  آپریشنل آرڈر جاری کیا کہ بارڈر کراس کیا جائے اور کانجر کوٹ پر قبضہ کر لیا جائے“ حوالہ -(  - کتاب   ”ہسٹری آف انڈوپاک وار- 1965 )-
قارئین یہ بات بھی جانتے ہیں کہ پہلی پاکستان ہندوستان جنگ جو کشمیر کے حوالے سے ہوئی تھی اس کے بعد  1948ء میں سلامتی کونسل نے پاکستان و ہندوستان   کے مابین جنگ کی کیفیت کے باعث فریقین کو پابند کیا تھا کہ فوری جنگ بندی کی جائے۔ کشمیر سے فوجوں کو نکالا جائے۔ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ  ہندوستان کے   آئین میں ریاست جموں کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت اب بھی حاصل ہے۔  مگر اس واضح  آئینی حیثیت  کے باوجود 1963ء میں ہندوستان  نے  کشمیریوں کی  مرضی و منشا کے بغیر  کشمیر  کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ اور پھر  دیدہ دلیری کے ساتھ کشمیر پر دسمبر 1964ء میں دفعہ 357-356 کو لاگو کرتے ہوئے قانون سازی اور انتظامی اختیارات پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا  کرکے مکمل طور پر کشمیریوں کی آزادی سلب کرلی  ظاہر ہے کہ اس نئی زبردستی کو  کشمیری کسی صورت قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔ دوسری جانب ہندوستان  نے کشمیریوں کو مزید محدود کرنے کے لیے جنگ بندی لائن کے آر پار آباد لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی پابندی لگادی تھی- جو کہ انسانی بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی تھی -
  اس صورتحال نے کشمیریوں کو مجبور کردیا کہ وہ ہندوستانی مظالم کے خلاف  مذہبی و سیاسی جماعتوں کو ملا کر  انقلابی کونسل  بنا لیں - اس انقلابی کونسل نے دیکھتے ہی دیکھتے   آج مقبوضہ کشمیر میں  آزادی کی ایک  عظیم  تحریک کی شکل اختیار کرلی  - اس تحریک کو ہندوستان ہمیشہ سے ہی پاکستان کی مداخلت کا رنگ دیتا چلا آیا ہے اور اس من گھڑت  پروپیگنڈے   کی آڑ لیکر  کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں شروع کردیں۔ ہندوستانی  پروپیگنڈے کے جواب میں  صدر پاکستان ایوب خان کا کہنا تھا کہ ’’ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے جس کا ہم پہلے وعدہ کرچکے ہیں اور وہ یہ کہ ہم کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد میں ان کی حمایت کریں گے‘‘۔ پاکستان اور کشمیری عوام اپنے عمل اور مؤقف میں حق بجانب تھے، لیکن ہندوستان  کو رن کچھ کی شکست کا داغ مٹانے کے لیے کسی نئے محاذ کا انتخاب کرنا تھا، جس کی وہ پہلے ہی دھمکی دے چکا تھا۔ اس کے لیے اول کشمیر میں جنگ چھیڑ دی گئی اور آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی کی گئی۔  25 اگست 1965ء کو 26,000 سے 33,000 پاکستانی فوجیوں نے  نہتے کشمیریوں کی مدد کے لئے لائن آف کنٹرول کو عبور کیا-جواب میں وہاں پر قا بض ہندوستانی افواج نے  گولہ باری  کرتے ہوئے اپنی بری فوج کو آگے بڑھایا اور   تین اہم پہاڑی مقامات پر قبضہ کر لیا۔  دو تین دنوں میں پاکستانی  فوج  نے تتوال، پونچھ اور اوڑی کے علاقوں میں پیش  قدمی کی  جبکہ ہندوستان نے حاجی پیر پاس میں پاکستانی حدود میں آنے والے  کشمیر میں 8 کلو میٹر تک قبضہ کر لیایکم ستمبر 1965ء کو، پاکستان نے  بھرپور  جوابی حملےآپریش گرینڈ سلام " کا آغاز  کیا ۔ جس کا مقصد جموں کے اہم شہر اکھنور پر قبضہ کرنا تھا- اس حکمت عملی سے ہندوستانی افواج کی  رسد اور مواصلات  کا راستہ بند ہو سکتا تھا ۔ جواب میں  ہندوستان نے  باقاعدہ بین الاقوامی سرحد عبور کرکے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کیا- ہندوستان نے اس مرتبہ اپنی   مرضی کے محاذ کھولتے ہوئے لاہور اور پھر  لاہور سے سیالکوٹ، چونڈہ، کھیم کرن اور راجستھان سیکٹر تک جنگ کو پھیلا دیا تھا -مختلف محاذوں پر  جنگ پھیلا کر  ہندوستان یہ  سمجھتا تھا کہ کمزور  پاکستان بیک وقت تین مختلف محاذوں پراپنی سرزمین کا  دفاع نہیں کرسکتا -
 ستمبر1965 کو  ہندوستان نے صریحا  بین الاقوامی سرحد عبور کر عبور  کرتے ہوئے پاکستان پر چڑھائی کردی ۔   ہندوستان  نے حاجی پیر پاس میں پاکستانی کشمیر میں 8 کلو میٹر تک کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا -17 روزہ جاری  اس لڑائی میں دونوں ممالک کی عسکری قوت اس طرح تھی پاکستان  لڑاکا جنگی و ٹرانسپورٹ  طیارے  تعداد 150  ،   ٹینک   تعداد  756 (آدھے سے زیادہ  پرانی حالت میں ،    جبکہ ہندوستان کے پاس لڑاکا طیارے   270، ٹینک  720 جو سب کے سب نئی حالت میں تھے - پاکستان کے پاس ہلکے ،درمیانی اور بھا ری توپ خانے 552 ، جبکہ ہندوستان کے پاس 628 توپ خانے  اسی طرح زمینی فوج جو پاکستان کے پاس تھی اس کی تعداد  لگ بھگ 260,000 تھی  جس کا مقابلہ  ہندوستان کی  700,000 پیادہ فوج سے تھا - جبکہ ہندوستان کو یہ ایڈوانٹیج بھی حاصل تھا کہ اس کی تمام تر منصوبہ بندی اور لاجسٹک ضروریات پہلے سے مکمل تھیں اور اس کی افواج پاکستان کی سرحدوں کے اندر موجود تھیں -
 پاکستانی سرحد پر اس خطرناک صورتحال پر حزب مخالف کی تمام جماعتوں بشمول جما عت اسلامی نے    حکومت کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے  وقتی طور پر ایوب مخالف تحریک  روک دینے کا فیصلہ کیا -امیر جما عت اسلامی مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اسی دن ایک اخباری بیان میں کہا کہ " تمام اہل پاکستان سر سے کفن باندھ کر میدان عمل میں  مرنے مارنے کے لئے تیار ہوجائیں  اور اپنی جا ن و مال سے پاک سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں " - 11 ستمبر کو حزب مخالف کی تمام جماعتوں نے مولانا مودودی کی قیادت میں صوبائی گورنر ملک امیر خان سے ملاقات کی اور اپنے بھرپور تعاو ن کا یقین دلایااگلے دن مولانا مودودی نے راولپنڈی میں صدر ایوب  خان سے ملاقات کی اور اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ" اس حوالے سے مجھے جو بھی کام تفویض کیا جائے  گا میں اس کے لئے تیار ہوں "
جنرل محمد موسى خان کی قیادت میں پاک فوج ہندوستانی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی تینوں افواج کو میدان میں لیکر آچکی تھی - نیوی کی قیادت وائس ایڈمرل سید محمد احسن کے پاس تھی ، پاک فضائیہ کے شاہین ایئر مارشل نور خان کی قیادت میں دشمن پر جھپٹنے کو   بے چین تھے -میجر جنرل ٹکا خان کی قیادت میں  12واں رجمنٹ آرٹلری ( بری ) ،میجر جنرل اختر حسین ملک (جنرل آفیسر کمانڈنگ)، 12واں انفنٹری ڈویژن،
میجر جنرل افتخار جنجوعہ،بریگیڈیئر جنرل عبدلعلی ملک (24واں آرمی انفینٹری) اور کموڈور ایس۔ ا یم۔ انور(کمانڈر، 25واں بحریہ ) اپنے اپنے دستوں کے ساتھ تینوں محاذوں  پر دشمن کا جواب دینے موجود  تھے -
 6ستمبر 1965 کو ہندوستانی سورماؤں کا ارادہ تھا کہ وہ 7 ستمبر کو صبح کا ناشتہ لاہور میں کریں گے - چانچہ رات کی تا ریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن نے 6 ستمبر کی صبح ٹھیک 3 بج کر 45 منٹ پر واہگہ پر پاکستانی آبادی  پر ایک گولہ فائر کیا   یہ گولہ باقاعدہ اعلان جنگ تھا ۔ پاکستانی حدود میں  ایس جے سی پی پوسٹ  کے جوان اس حملے پر چوکنا ہوئے اور  پلاٹون کمانڈر محمد شیراز نے سرحدی چوکی پر اپنے جوانوں کو دفاعی لائن پر جوابی حملے کا آرڈر دیا ، اسی اثنا میں اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی ۔  پلاٹون کمانڈر محمد شیراز نے آگے بڑھ کر فائرنگ مچان پر پوزیشن سنبھال لی  - دیکھتے ہی دیکھتے  دونوں جانب  ہیوی فائرنگ کا تبادلہ  شروع ہوا - طبل  جنگ بج چکا تھا - پیٹھ دکھانا قوم سے غداری کے مترادف تھا - جذبہ ایمانی سے سرشار  پلاٹون نے جان کی بازی لگاتے ہوئے  کئی گھنٹے  جارح دشمن کو اسی محاذ تک محدود رکھا -    بھاری فائرنگ میں ہندوستانی فوجی پاکستانی  چوکی کے نزدیک آچکے تھے  انتہائی  قریب آکر دستی بم بھی پھینکنے شروع کردئیے ۔  یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ   پچھلے محاذ  پر موجود پاکستانی فوج کو  فوری کمک دینی ناممکن تھی- قریب ترین پاکستانی چوکی بھی چار کلو میٹر دور تھی حملہ اس قدر شدید تھا کہ  پلاٹون  کے دیگر سپاہی اگلے مورچے پر موجود  پاکستانی سپاہیوں کو  زمین پر  رینگ کر   بم تھماتے تھے۔  پلا ٹو ن کمانڈر  محمد شیراز دشمن کی گولیوں  کی ذد میں تھے اسی دوران گولوں کی باڑھ اس کے سینے میں کئی سوراخ کرگئی محمد شیراز نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر  جنگِ ستمبر کے پہلے شہید کا اعزاز حاصل کرلیا -
 1965 کی لڑائی   میں  600 ٹینکوں نے حصہ لیا تھا۔ جن میں  ہندوستان کے پاس  سنچورین ٹینک بھی شامل تھے۔  جس کی طاقت اور توپ کے دھانے پر ہندوستان کو فخر حاصل  تھا ، جبکہ عددی برتری کے لحاظ سےبھی ہندوستان اور پاکستان کا کو مقابلہ  نہیں تھا - مگر یہ بات سچ ہے کہ جنگیں طاقت سے نہیں جذبے سےلڑی  جاتی ہیں ہندوستان کے ٹینکوں کا مقابلہ کرنےکے لئے  پاکستان   کے  جری سپاہیوں نے بہادری کی ایک انوکھی تاریخ رقم کردی اور وطن کی مٹی کی حرمت کے لئے اپنے سینوں سے بم باندھ کر  دشمن کے  ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے اور  آگے بڑھتے ہوئے دیوہیکل ٹینک پلک جھکتے ہی آگ میں بھسم ہوتے چلے گئے - اس جذبے اور بہادری کو دیکھ کر دشمن کے اوسان خطا ہوگئے - دشمن  کے بھا ری بھرکم دیوہیکل ٹینک    ان کی آنکھوں کے سامنے تباہ و برباد  ہورہے تھے - ہندوستان میں " چاونڈا " کا مقام  کو اب بھی تاریخ میں  ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے -
 لاہور کے تھانہ برکی کے مقام پر  میجر عزیز بھٹی بطور   کمپنی کمانڈر تعینات تھے ۔  واہگہ بارڈر  سے  ہندوستانی زمینی فوج مسلسل پیش قدمی کرتی چلی آرہی تھی - جیسے ہی مقامی آبادی کو اس حملے کی خبر ملی لوگ لاٹھی ڈنڈے لیکر دیوانہ وار پاک فوج کی مدد کے لئے نکل آئے اور اگلے مورچوں کا رخ کرنے لگے - جسے پاک فوج کے جوانوں نے بمشکل قابو کیا اور یقین دلایا کہ اگر ضرورت پڑی تو آپ لوگوں کو بھی شامل جہاد کیا جائے گا میجر عزیز بھٹی مسلسل 5 دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے ، 12 ستمبر 1965 کو بھارتی فوج کے ایک ٹینک کا گولہ میجر عزیز بھٹی کے سینے پر  لگا- میجر عزیز بھٹی نے ایک انچ زمین بھی دشمن کے حوالے نہیں کی اور آخر وقت تک کامیابی کے ساتھ پاک سرزمین کے دفاع میں شہید ہوکر نشان حیدر حاصل کیا -
(جاری ہے )





Comments