انتخابات “الیکٹ ایبلز” اور سیاسی جماعتیں:::::- میاں منیراحمد


حالات سازگار رہے تو25 جولائی کو ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔ خدشات کا اظہار اگرچہ بھاری پتھر معلوم ہوتا ہے، مگر جس طرح نگران حکومت طویل مدتی فیصلے کررہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے بلاخوفِ تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انتخابات کی قسمت کا فیصلہ جولائی کے پہلے ہفتے میں ہوگا۔ انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، انتخابات اتنے قریب ہوں تو انتخابی مہم زوروں پر ہوتی ہے، مگر آج مہم میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آتا جو اس کا خاصہ رہا ہے۔ اس کی وجہ انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے پڑے سائے ہیں۔ گو الیکشن کمیشن، چیف جسٹس پاکستان، آرمی چیف اور نگران وزیراعظم کی طرف سے بروقت انتخابات کے انعقاد کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، اس کے باوجود فضا ابر آلود ہے۔ انتخابات کے لیے قائم نگران حکومت سے مستعفی ہوجانے کا مطالبہ نہایت غیر معمولی حالات کی خبر دے رہا ہے۔ اسلام آباد میں ہزاروںکی تعداد میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے لوگ احتجاج کیے بیٹھے ہیں۔ آغاز میں ان کا احتجاج پُرامن تھا، اب آہستہ آہستہ اس میں تشدد کا عنصر شامل ہورہا ہے۔ احتجاج کرنے والے فاٹا کے یہ شہری پارلیمنٹ ہائوس کو جانے والے راستے پر نادرا کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، مطالبہ ہے کہ فاٹا میں بھی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے جائیں۔ الیکشن کمیشن فاٹا کی قومی اسمبلی کی 11نشستوں کا انتخاب کروا رہا ہے تو پھر صوبائی اسمبلی کی 21نشستوں کے انتخابات کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس کا ایک جواب تو فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات میں ہے۔ سرتاج عزیز کی سربراہی میں جو کمیٹی بنی تھی اُس نے سفارش کی تھی کہ فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کردیا جائے، اور یہ سفارش کی تھی کہ اس علاقے میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک سال بعد ہوں۔ کمیٹی کی سفارش پر پہلے خاموشی اختیار کی گئی، اب احتجاج کیا جارہا ہے۔ یہ احتجاج بڑھتا ہے تو صورتِ حال بدل جانے کا امکان ہے۔
جنوبی پنجاب سے مطالبہ سامنے آیا ہے کہ جولائی میں درجہ حرارت 50 سے 60ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوگا، اتنی گرمی میں کیسے پولنگ ہوسکتی ہے! اندرون سندھ میں بھی یہی دلیل دی جاسکتی ہے مگر وہاں سے ایسا مطالبہ نہیں ہوا، البتہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سمیت بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے وزرائے اعلیٰ نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی مدت چھ ماہ تک بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ انتخابات کا موسم جنوری یا فروری میں آئے، لیکن اُس وقت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ تجویز تسلیم نہیں کی تھی۔
بہرحال اس صورتِ حال کو ایک لمحے کے لیے نظرانداز کرتے ہوئے انتخابات سے متعلق بات آگے بڑھاتے ہیں اور سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ گزرے ہوئے پندرہ برسوں میں مسلم لیگ (ق)، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو ملک میں حکومت کرنے کے لیے پانچ پانچ سال ملے، خیبر پختون خوا میںمتحدہ مجلس عمل، اے این پی اور تحریک انصاف کی حکومت رہی، ان تمام جماعتوں کی حکومتیں کیسی رہیں؟ تعلیم، صحت، امن وامان، انصاف کی فراہمی جیسے اہم نکات پر مشتمل منشور پر کتنا عمل ہوا؟ سیاسی اور جمہوری اصول تو یہی ہے کہ ان جماعتوں کی کارکردگی دیکھ کر اگلے پانچ سال کے لیے حقِ حکمرانی دیا جائے۔ یہ سوال حالیہ انتخابی مہم میں اٹھا ہے کہ اگلے پانچ سال کے لیے کس جماعت کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ ملنا چاہیے؟ مگر یہ سوال ایک محدود طبقے میں ہی زیربحث ہے، کیونکہ ہمارا سیاسی مزاج اس نکتے اور دلیل کے تابع رہا ہے کہ ’’برے میں نسبتاً بہتر‘‘ کا انتخاب کرلیا جائے۔ ان انتخابات میں بھی یہی کچھ ہونے جارہا ہے۔
ہر انتخابات کی طرح اِس بار بھی میڈیا کا اہم کردار ہے۔ اب سوشل میڈیا بھی بہت اثرانداز ہونے لگا ہے۔ سوشل میڈیا آج کی حقیقت تو ہے مگر سچ اور حقائق کی میزان نہیں ہے، کہ ہر سیاسی جماعت سوشل میڈیا کے ذریعے یک طرفہ پروپیگنڈا کررہی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماضی میں اقتدار میں رہنے والی جماعتوں مسلم لیگ(ق)، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی تینوں پر بدعنوانیوں کے الزامات ہیں۔ حالیہ انتخابات میں دوہزار سے زائد ایسے امیدوار میدان میں اترے ہیں جن پر اخلاقی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ تینوں سیاسی جماعتوں کی امیدواروں کی فہرست دیکھ لیں، یہیں سے ان جماعتوں کے نظریات اور پالیسی دفن ہوجانے کی اطلاع ملتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل ایک ایسا اتحاد ہے جس کے امیدواروں پر ایسا کوئی الزام نہیں ہے۔ دینی جماعتوں کے اتحاد نے تہیہ کررکھا ہے کہ ملک کو اسلامی اور خوش حال ملک بنانا ہے، یہاں آئین کی بالا دستی اورقانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے۔ یہ اتحاد پاکستان کی اسلامی، سیاسی، نظریاتی دفاعی لائن ہے۔عالمی قوتوں بالخصوص امریکہ کے پاکستان دشمن عزائم کے مقابلے میں واحد مزاحمتی آواز ہے۔ اس کے مقابل مسلم لیگ(ق)، مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ہیں۔ تحریک انصاف نے دوسروں کی نسبت زیادہ تعداد میں ملک بھر سے ہمیشہ ناقابلِ یقین اور ناقابلِ اعتبار رہنے والے ابن الوقت تمام کھوٹے سکے الیکٹ ایبل امیدواروں کے نام پر اپنی جیب میں ڈال لیے ہیں اور دلیل دی جارہی ہے کہ بدعنوانی کے اسکینڈلز میں دھنسے ہوئے لوگ عمران خان کے’’ زریں اصولوں‘‘ سے جِلا پاکر داغوں سے پاک ہورہے ہیں، اور عمران خود بھی ان کا دفاع کررہے ہیں اور دلیل گھڑی ہے کہ انتخابی سیاست میں کامیابی کے لیے یہ ہیوی ویٹس ناگزیر ہیں۔ گویا نظام میں تبدیلی لانے کے لیے یہ الیکٹ ایبل ضروری ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف بنی گالہ اسلام آباد میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ایک ہفتے سے کارکن دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ دھرنا دینے والوں کے تیور دیکھ کر تحریک انصاف کی قیادت رینجرز کے دستے طلب کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے ناراض رہنمائوں کا بھی ایک اہم اجلاس ہوا جس میں سربرآوردہ ماہرِ آئین و قانون حامد خان بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں پنجاب اور کے پی کے سے ناراض رہنمائوں کی قابلِ لحاظ تعداد موجود تھی۔ ان رہنمائوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے چارٹر آف ڈیمانڈ پر اتفاقِ رائے کرکے اسے عام کردیا اور پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے فیصلوں کو حد درجہ غیر منصفانہ قرار دیا۔ اجلاس میں باضابطہ طور پر اعلامیہ منظور کیاگیا جسے فوری طور پر جاری بھی کردیا گیا، اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پارلیمانی بورڈ ازسرنو تشکیل دیا جائے اور ٹکٹوں کے فیصلوں پرنظرثانی کی جائے۔ اشارہ واضح طور پر تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر خان ترین کی جانب ہے۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر چنائو کے لیے مرتب کردہ فہرست بھی من پسند افراد سے عبارت ہے۔ پنجاب میں اقلیتی نشستوں پر ترجیحی فہرست جمع نہ کرنا قابلِ مذمت ہے، اس کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان ناراض رہنمائوں نے اپنے اعلامیے میں یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ جن امیدواروں نے تحریک انصاف کے نشان پر انتخاب لڑا تھا انہیں دوبارہ ٹکٹ جاری کیا جائے۔ دھرنے کے آٹھویں روز عمران خان نمودار ہوئے اور خطاب کیا، اور حتمی بات کہی کہ ’’کسی سے ناانصافی نہیں کی، لیکن ٹکٹ انہی کو دیے جو جیت سکتے ہیں‘‘۔ تبدیلی لانے کی دعویدار تحریک انصاف کی قیادت کو اب صاف صاف یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ اقتدار کی بلندی تک رسائی کے لیے طاقت کی یہ سیڑھی استعمال کرنی ہوگی۔ یہ قابلِ انتخاب افراد وہ سیڑھی ہیں جن کے ذریعے عمران خان اقتدار پر فائز ہوں گے اور پھر اس گلے سڑے نظام کو بدلیں گے۔ایک وقت تھا کہ وہ مثالی کردار کا پرچم تھامے موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کا عزم لیے ہوئے تھے۔ کیا اُس وقت وہ نہیں جانتے تھے کہ وزیراعظم بننے کے لیےانتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے ہی ارکان کی ضرورت ہوتی ہے؟ب تحریک انصاف بطور جماعت ایک ایسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے جو ہرقیمت پر اقتدار حاصل کرنے پر تلی ہوئی ہے، چاہے اس کے اپنےہی بیان کردہ اصول قربان کرنے پڑیں! اب یہاں ایک بہت اہم اور بنیادی سوال ووٹرز کے سامنے ہے کہ اگر عمران خان اس سفر کے دوران اصولوں پر سمجھوتا کرنے پر مجبور ہوئے ہیں تو کیا وہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اصولوں کو قربان کرنے سے ہچکچائیں گے؟ یہاں جتنے بھی دلائل تحریک انصاف کے اس رویّے کے حق میں اکٹھے کرلیے جائیں، ان سب کا جواب ایک ہی ہے کہ اگر اقتدار حاصل کرنے کے لیے اصول قربان کرنے پڑتے ہیں تو اسے برقرار رکھنے کے لیے بھی یہی راہ اپنانی پڑتی ہے اور سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کو دو تین عشروں کے بعد یہی سمجھوتے کرنے تھے تو بیس تیس سال ضائع کرنے کا کوئی جواز تھا؟ تحریک انصاف کی قیادت کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے الیکٹ ایبلز کی ضرورت کی سمجھ دوعشروں بعد آئی ہے، حالانکہ یہ دانائی پانے کے لیے دو ہفتے ہی کافی تھے۔
سندھ پر تو کوئی بات اور سوال اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں، پیپلزپارٹی نے کل بھی بھٹو کے نام پر ووٹ لیے تھے اور آج بھی ووٹ کے لیے وہ گڑھی خدابخش کی قبروں کی جانب دیکھ رہی ہے۔ سندھ میں جی ڈی اے اس کے مدمقابل اتحاد ہے، اسے ملک کی طاقتور سرکار کی سرپرستی بھی میسر ہے، لیکن اس کے باوجود جی ڈی اے کی بڑی جماعت مسلم لیگ(ف) نے سندھ میں بہت سے حلقوں میں اپنے امیدوار ہی کھڑے نہیں کیے۔ پیپلزپارٹی کے پالیسی ساز اس وقت یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر ہم تیسرے نمبر پر بھی آگئے تو حرج نہیں، قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کے وقت منتخب ارکانِ اسمبلی کی منہ بولی قیمت وصول کی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) دونوں نے محدود تعداد میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں مگر اسے کوئی چیلنج نہیں دیا، تاہم مجلس عمل سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں اپنا حصہ ضرور حاصل کرے گی، اس نے کسی کا چہرہ اور مال و زر دیکھے بغیر ٹکٹ انہی امیدواروں کو دیے جو عوامی نمائندگی کے لیے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی قانونی شرائط پر پورا اترتے ہوں۔
رہ گئی بات تحریک انصاف کی خیبر پختون خوا میںپرویز خٹک اچھی حکومت کی کوئی مثال نہیں چھوڑ سکے۔ فنڈز کی تقسیم، سینیٹ کے انتخابات میں امیدواروں کے چنائو، اور پیسے کے استعمال کے علاوہ ہر ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی خیبرپختون خوا حکومت تلخ ترین سوال چھوڑ کر رخصت ہوئی ہے۔ ایک ارب درخت لگانے، بجلی کے لیے پانی کے ڈیم تعمیر کرنے، صوبے میں نئے ہسپتال، تعلیمی ادارے اور یونیورسٹی تعمیر کرنے کا کوئی منصوبہ بھی اس کے دامن میں نہیں ہے۔ پہلے میٹرو بس کی مخالفت کی، اب اس کے لیے پورا پشاور شہر ہی اکھاڑ کر رکھ دیا ہے، لہٰذا گورننس کے معاملے میں انہیں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ قومی سطح کی سیاست میں پہلے تین سال تحریک انصاف ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھتی رہی، پانچ سال کے بعد یہ انگلی اٹھی تو سارے الیکٹ ایبل اس کی جھولی آگئے۔ ہمارے ملک کی جمہوریت اور سیاست کی اس فالٹ لائن کا ماضی میں کوئی اچھا ریکارڈ نہیں ملتا، ایمپائر پر انحصار کرنے والا اسی کے فیصلے کے نتیجے میں تنکے کی مانند بہہ بھی جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو اس سوال کا بھی جواب دینا ہوگا کہ نظام اور شخصی حکومت کے درمیان عمران خان کس طرف کھڑے ہوں گے؟ بدعنوانی کے ایشو پر اُن کا مؤقف انتہائی موقع پرستی کا مظہر ثابت ہوا ہے۔ خیبر پختون خوا میں احتساب کمیشن قائم نہ کیا جانا کس کی ذمہ داری ٹھیرے گا؟ تحریک انصاف کی داخلی تنظیم سازی، پارٹی کے اندر ہونے والے انتخابات اور ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے سمیت ہر مرحلے پر شخصی فیصلوں کاجادو سر چڑھ کر بولا۔ اس کے امیدواروں کو دیکھ کر یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ تحریک انصاف تبدیلی لانے والی پارٹی کے بجائے ایک روایتی پارٹی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
انتخابات میں مسلم لیگ(ن) بھی ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر شریک ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا دعویٰ ہے کہ پنجاب اس کا گڑھ ہے۔ پنجاب میں شمالی، جنوبی، وسطی اور لاہور سے ساہیوال تک، تمام اضلاع دیکھ لیں، ہر ضلع میں اسے مسائل کا سامنا ہے۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں شمالی پنجاب میں 55 حلقے ہیں جبکہ وسطی پنجاب میں 51 حلقے۔ لاہور سمیت اسے ہر بڑے ضلع میں مسائل نے آن گھیرا ہے۔ سپریم کورٹ اور نیب پانچ سال کا حساب مانگ رہے ہیں۔ نوازشریف نے نااہلی کے فیصلے کے بعد ایک سال تک عوامی رابطہ مہم میں بہت بہتر کم بیک کیا تھا، لیکن اب اُن کی لندن میں مصروفیت اور قیام مسلم لیگ(ن) پر بھاری پڑ رہا ہے۔ ایک اطلاع ہے کہ لندن قیام کی آڑ میں نوازشریف اپنے سیاسی مستقبل کے لیے مذاکرات کررہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) سمجھتی ہے کہ تاجر تنظیمیں اس کی حامی ہیں، لیکن کراچی میں فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس کے دفتر میں شہبازشریف کو پذیرائی نہیں ملی۔ پنجاب میں مکمل کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کا کریڈٹ انہیں ضرور مل رہا ہے، صوبے میں کسی حد تک عوامی سطح پر یہ بات تسلیم بھی کی جاتی ہے، لیکن پارٹی میں شخصی آمریت اور فیصلوں کے ردعمل میں زعیم قادری جیسے کردار اُس کے صحن میں گھاس کی طرح اگ رہے ہیں۔ انہیں تحریک لبیک نے سایہ فراہم کردیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی لیڈرشپ چودھری نثار علی خان کو پارٹی ٹکٹ دینے کے معاملے میںگو مگو کا شکار رہی۔ پہلے حلقہ اوپن چھوڑا، پھر بعد میں ان کے مقابلے میں ٹکٹ جاری کردیا۔ کہا جارہا ہے کہ نوازشریف چودھری نثار کو ٹکٹ دینے پر راضی ہوگئے تھے، لیکن مریم نواز کو پھر ٹارگٹ کرنے پر صورتِ حال بدل گئی، اب ان کے مدمقابل مسلم لیگ(ن) کے امیدوار قمرالاسلام کی گرفتاری نے صورتِ حال بدل کر رکھ دی ہے۔ جب تک وہ گرفتار رہیں گے اُن کا بارہ سالہ بیٹا انتخابی مہم چلائے گا۔ یہ تو پہلا مرحلہ ہے، دوسرے مرحلے پر اندیشہ ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد پیٹریاٹ کی طرز پر مسلم لیگ (ن) کو ایک بڑے دھڑے کی طرف سے بغاوت کا دھچکا برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔ معاملات طے ہوگئے تو بات بن جائے گی ورنہ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں حکومت کے امکانات یکسر ختم ہوجائیں گے۔ چودھری نثار علی خان، جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے دو، دو حلقوں سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، جیت جانے کی صورت میں ان کی آنے والے دنوں میں اہمیت بڑھ جائے گی۔ مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے ان کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے بطن سے ایک بڑا آزاد گروپ جنم لے سکتا ہے، یہ صورت حال نون لیگ کے لیے بہت نقصان دہ ہوگی، ظاہر ہے کہ جہاں نون لیگ اور آزاد امیدوار آمنے سامنے ہوں گے اس صورت حال میں نقصان مسلم لیگ(ن) کا ہی ہوگا، اور جہاں آزاد امیدوار تگڑے ہوں گے وہ جیت سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نون لیگ کی سیٹیں کم ہوں گی۔ نون لیگی ذرائع کے مطابق پنجاب میں نون لیگ 90 سے 100 سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ کراچی میں شہبازشریف جس حلقے سے امیدوار ہیں انہیں اس حلقے سے متحدہ کے سابق ایم این اے نے مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) باغی ہونے کی رفتار تیز ہو گئی ہے، جس کا ازالہ کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز اس وقت بیگم کلثوم کی بیماری کی وجہ سے لندن میں ہیں، اگرچہ حمزہ شہباز ناراض دھڑوں کو منانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن نون لیگ کی مشکل یہ ہے کہ نوازشریف اُس وقت تک واپس نہیں آسکتے جب تک بیگم کلثوم کی حالت بہتر نہیں ہوتی۔ پارٹی قائد کی عدم موجودگی کی وجہ سے نون لیگ کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ آنے والے دنوں میں صورت حال مزید خراب ہوگی۔ ٹکٹ نہ ملنے پر کئی امیدوار آزاد اور باغی ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ(ن) کے اندرونی حالات جیسے بھی ہوں بہرحال سیاسی لحاظ سے مسلم لیگ(ن) کو چار بہت اہم سوالات کا جواب دینا ہوگا،
(1)
بھارت سے دوستی اور تجارتی تعلقات کے لیے اس کے تمام اقدامات اور فیصلے پیشگی منظوری، جائزے اور مشورے کے لیے مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی پارٹی، پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کے اداروں کے سامنے کیوں نہیں رکھے گئے؟
(2) 1979
ء سے لے کر آج تک شریف خاندان کے کاروبار کا حجم اقتدار سے پہلے کیا تھا اور اقتدار کے بعد اس میں کیوں اور کتنی وسعت آئی؟
(3)
پنجاب میں شہبازشریف اور مرکز میں نوازشریف نے پارلیمانی لیڈر ہوتے ہوئے اسمبلی میں کتنا وقت دیا؟
(4)
مرکز میں قومی معیشت 31 ہزار ارب کی مقروض کیسے ہوئی؟

نگراں حکومت، مستقل پالیسی امور کےفیصلے

نگران حکومت بھی تین ہفتوں میں 12 کھرب کے نئے قرضے لے چکی ہے ۔اوگرا نے گھریلو صارفین کے لیے گیس 300 فیصد جبکہ کمرشل، صنعتی، پاور سیکٹر اور دیگر شعبوں کے لیے 30 فیصد مہنگی کرنے اور نئی گیس اسکیموں کے لیے صارفین سے 32 ارب روپے وصول کرنے کی منظوری دی ہے۔ چیئرمین اوگرا عظمیٰ عادل خان نے وفاقی حکومت کو مراسلہ بھیجا ہے کہ اوگرا کی نئی قیمتیں تبدیل نہیں ہوں گی کیونکہ گھریلو صارفین کو انتہائی سستی گیس فراہم کرنے کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ اسی طرح انڈسٹری، پاور سیکٹر، سیمنٹ، سی این جی اور فرٹیلائزر پلانٹس میں بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والی گیس کے ٹیرف میں 30 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ نگران حکومت نے اپنے ان دو ہفتوں کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی اضافہ کیاہے۔ اسٹیل اور چمڑے کی مصنوعات کی درآمد پر جی ایس ٹی کی شرح چھ فیصد سے بڑھا کر 9 فیصد کردی گئی ہے۔
عبوری نگران سیٹ اپ کا مینڈیٹ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت اور وسائل فراہم کرنے کا ہوتا ہے۔ نگراں حکومت امورِ حکومت و مملکت سے متعلق کوئی مستقل پالیسی وضع کرنے کی مجاز نہیں ہوتی۔ نگران سیٹ اپ کی میعاد دو ماہ سے بھی کم عرصے کی ہے جس میں سے 25 دن گزر چکے ہیں۔ نگران حکمرانوں کو اپنی ساری توجہ صرف انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری تک ہی محدود رکھنی چاہیے۔ مگر نگران سیٹ اپ کے ایما پر جس طرح حکومت کے مستقل پالیسی معاملات پر اقدامات اٹھائے اور فیصلے صادر کیے جارہے ہیں، اس سے نگران حکمران اپنے اختیارات اور دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہی نظر نہیں آرہے بلکہ ان اقدامات کے نتیجے میں بادی النظر میں آنے والے منتخب حکمرانوں کے لیے مشکلات بھی پیدا کررہے ہیں۔ اگر نگران سیٹ اپ کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے تویہ بڑا المیہ ہوگا۔



Comments