بھٹو - فاطمہ جناح ، اور مولانا مودودی ::::نجیب ایوبی- قسط نمبر-128

برصغیر میں اسلام کے احیا ء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-128
 
ایوب خان کا مارشل لا- "     بھٹو - فاطمہ جناح ، اور  مولانا مودودی      "   ( چھٹا    حصہ )

 
ایوب دور میں جس طرح الیکشن ہوا اور فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کیا گیا اس کا کچھ احوال پیش کیا جانا ضروری سمجھتا ہوں -
ایوب خان کو  اس حواریوں نے  یقین  دلایا ہوا تھا کہ آپ بلا مقابلہ صدر منتخب ہو جا ئیں گے - اس کی بڑی وجہ وہ بی ڈی ممبری  نظام تھا جو ایوب خان کے ذہن اور اسٹبلشمنٹ کی شاندار منصوبہ بندی  کا شاہکار  تھا -
 
مگر جب  متحدہ اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ امیدوار نامزد کیا- ایوب خان  کو اس بات کا  با لکل  اندازہ   نہیں تھا  مگر  پانچ جماعتی متحد ہ اپوزیش نے    محترمہ فاطمہ جناح کو  ایوب خان کے مقابلے پر میدان میں اتار دیا
 
اب ایوب خان کے پاس  بظاہر کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ محترمہ جیسی شخصیت کے سامنے  ٹہر سکے  - مگر اس آڑے وقت میں انتظامیہ اور ایوب خان کے   چہیتے وزراء بہت کام آئے کابینہ کے پے در پے  ہنگامی اجلاس ہوتے رہے اور موجودہ انتخابی صورتحال سے نمٹنے کے لئے انتظامیہ اور سرکاری مشنری کو ایک پیج پر لیا گیا - حکمت عملی یہ تھی کہ محترمہ کے خلاف سرکاری پرو پیگنڈہ  اس قدر شدت سے کیا جائے کہ اپوزیشن اس کی تاب نہ لاسکے - چنانچہ  چہیتے  نوجوان وزیر ذوالفقار علی بھٹو " کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنی خطابت کے " جوہر دکھائے
ساتھ ہی ساتھ ایوب خان بھی بیانات میں اول فول ہانکتے رہے  ، جس کا مقصد کنفیوزن پیدا کرنے کے سوا کچھ نہ تھا -      مثال کے طور پر عین انتخابات سے کچھ دن پہلے  انتخابی عملے کی مدد کے لئے  فوجی  دستے  اضلاع میں  روانہ کردئیے  گئے ،  جن  کا کام بظاھر انتخابی عملے کی  حفاظت اور معاونت  تھا  مگر ساتھ ہی ساتھ  سرکاری سطح پر یہ افواہ بھی گرم کروائی گئی کہ اگر ایوب خان کو شکست ہوتی ہے تو پھر نیا مارشل لا لگا دیا جائے گا - یہ در حقیقت  دبے الفاظ میں بی ڈی  ممبران کو تھریڈ تھا - ان دنوں پریس کانفرنس میں  کسی صحافی نے ایوب خان سے  یہ سوال کیا کہ " کیا یہ سچ ہے کہ آپ حکومت جیتنے والے فریق کے حوالے نہیں کریں گے تو ایوب خان  نے کہا  کہمیں ملک کی باگ دوڑ   افراتفری  کے حالات کے حوالہ نہیں کرسکتا "   ایوب کا یہ بیان  عوام کو ملک میں دوبارہ مارشل لاء لگانے والی افواہ پر مکمل یقین دلانے کے لئے بہت کافی تھا ۔


 
دوسرا حربہ یہ اختیار کیا کہ کچھ مذہبی رہنماؤں اور سرکاری مذہبی جماعتوں کی جانب سے" عورت کی حکمرانیکے خلاف  پمفلٹ اور کتابیں شائع کروا کر بڑے پیمانے پر تقسیم کا بندوبست کیا گیا 
بی ڈی ممبری نظام میں  بی ڈی ممبران کی کل تعداد  چار سو سے زائد تھی ، ان ممبران کو حلقہ انتخابات بنا کر صدارتی الیکشن کروانے کا اعلان کر دیافاطمہ جناح کے مقابلے پر  ایوب خان  کنونشن مسلم لیگ  کے  امیدوار  تھے صدراتی  امیدوار کے لئے ضروری تھا کہ اس کی نامزدگی کے کاغذات پر بھی بی ڈی ممبر ہی تجویز کنندہ ہو انتظامیہ کو یقین تھا کہ کوئی بھی بی ڈی ممبر محترمہ کے کاغذات پر  اپنی گارنٹی نہیں دے گا اور اگر کسی نے ہمت بھی کی تو اس کی اغوا کرکے ڈرا دھمکا کر  کاغذات نامزدگی سے دستبردار کروالیا جائے گا -
 
ایسے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بااثر مسلم لیگی اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن نثار احمد نثار جو اپنے علا قے کے منتخب بی ڈی ممبر تھے ، نے  کسی بھی خطرے کی پرواہ کئے بغیر  محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی امیدوار کے انتخابی کاغذات پر بطور بی ڈی ممبر تجویز کنندہ دستخط کئے  نتیجہ یہ  ہوا کہ  رات ہی رات  پولیس نے نثار احمد نثار  صاحب کو ان کی حویلی سے  اٹھا لیا- اور جب اس بات کی خبر محترمہ فاطمہ جناح کو پہنچی   تو انہوں نے ایوب  حکومت  کے خلاف ایک سخت بیان دیا  -اس بیان کے بعد  نثار احمد نثار کو رہا کر دیا گیا اور ساتھ ہی انہیں محترمہ کا  چیف پولنگ ایجنٹ بھی بنا دیا گیا-     آجکل جو لوگ بھٹو  صاحب مرحوم کو جمہوریت کا چمپئین  سمجھتے  ہیں ان کی معلومات کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ ایوب خان  جیسے ڈکٹیٹر  کے  چیف پولنگ ایجنٹ ذوالفقار علی بھٹو  صاحب تھے ۔
ان ہی  بھٹو صاحب کو ٹاسک تو مل ہی چکا تھا کہ  وہ محترمہ کا راستہ روکیں ،چنانچہ  بھٹو صاحب  نے  اپنی تقاریرمیں  محترمہ فاطمہ جناح کی بطور خاتون حکمرانی پر  شدید نکتہ چینی کی،  جس   کا  مقابلہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی اور جماعت اسلامی نے  کیا ۔ (بھٹو  مرحوم  کو کیا معلوم تھا کہ ایک دن اس کی بیٹی بے  نظیر  بھٹو  بھی ملک کی حکمران بن سکتی ہے -اور  مذہبی  جماعتوں کا یہی  فتوی  بینظیر بھٹو کے  کام آیا  )
بھٹو صاحب نے اپنے جلسوں میں محترمہ کی مخاطب کرتے  ہوئے کہا کہ " لوگ جس کو  مادر ملت کہتے ہیں ، بتایا جائے کہ اس نے اب تک شادی کیوں نہیں کی ، اور شادی کے بغیر قوم کی ماں کیسے بنی ؟ "     اس بیان نے محترمہ کے وقار کو نقصان پہنچانے کے بجائے محترمہ کی شان میں بہت اضافہ کیا - اور بھٹو کو بہت شرمندگی اٹھانی پڑی - مگر ایوب خان کے لئے سب کچھ جائز تھا -
ایوب خان کے خلاف  محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم  نے ایوب خان کو   بوکلاہٹ  میں مبتلا کردیا تھا -ایوب نے  فاطمہ جناح کے بارے میں انتہائی درجے کی  عامیانہ زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔   مگر اس کے جواب میں اپوزیشن نے    اخلاقیات کا دامن  نہ چھوڑا -البتہ  فاطمہ جناح ایوب خان اور ان کے خاندان کی بدعنوانیوں پرکڑی تنقیدکرتی  رہیں
۔  جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ  ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کے   چہیتے کی حیثیت   سے مرکز میں ایک خاص مقام حاصل تھا ، اس لیے حیدرآباد سندھ کے ایک بہت بڑے  جلسے میںمحترمہ  فاطمہ جناح نےبھٹو کو شرابی اورعورتوں کارسیا کہہ  دیا ۔
 
ایوب خان کو  یہ بات اتنی ناگوار گزری کہ اس نے محترمہ فاطمہ جناح  کی مہم چلانے والی جماعت اسلامی پر کڑی تنقید کی  اور مشرقی پاکستان کے نوجوان طالبعلم  رہنما شیخ مجیب الرحمان  کو سیاسی غنڈہ ، اجڈ اور گنوار   جبکہ  اور ممتاز دولتانہ کو مکار لومڑ قرار دیا-
 
ایوب خان نے اپنی تقا ریر  میں بارہا اس بات کا ذکر کیا کہ  فاطمہ جناح  بھارتی اور امریکی ایجنٹ  ہیں - ظاہر ہے یہ بات عوام کو کسی طور پر بھی ہضم نہیں ہورہی تھی   ، چنانچہ مشرقی پاکستان  میں ایوب خان کی مخالفت  میں اپوزیشن  کو خوب پذیرائی ملی
۔  فاطمہ جناح کی مخالفت میں  ایوب خان نے یہاں تک کہہ دیا   کہ لوگ انہیں مادر ملت کہتے ہیں اس لیے انہیں مادر ملت ہی بن کے دکھانا چاہیے۔"   جب جب ایوب خان  اپنی تقریر میں محترمہ  فاطمہ جناح کے خلاف کوئی بد تہذیبی کرتا اس کا ا لٹ ہی اثر ہوتا تھا -   اسٹیبلشمنٹ کسی  شخصیت  کی کس طرح مجرو ع  کرسکتی ہے اس بات کا اندا زہ  اس بات سے لگائیے انتظامی مشنری نے  انتہائی درجے کی گھٹیا حرکت یہ کی  کہ راتوں کو  آبادیوں کے کتوں کے گلے میں لالٹین  ٹانگ دی جاتی اور ان پر مادر ملت لکھ کر چھوڑ دیا جاتا جس کا رد عمل  فطری تھا - ملک بھر میں طلباء اینٹی اسٹبلشمنٹ  جلوس نکلتے چلے گئے - مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ میں اسی طرح کے ایک جلوس پر پولیس نے فائر کھول دیا جس  میں ایک طالبعلم ہلاک ہوا اس کے ردعمل میں  ڈھاکہ میں  مظاہرے ہوئے  جن میں مظاہرین نے  پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن  پر لکھا تھا "ایوب کی ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کر دو"۔  ان خبروں کو انٹرنیشنل میڈیا  نے  خوب نمایاں جگہ دی - فاطمہ جناح کے یوم پیدائش کو بھی پہلی مرتبہ ڈھاکہ کے طلباء نے نہایت جوش و خروش سے منا کر محترمہ کو خراج تحسین پیش کیا یہ سب ایوب خان کی حکومت کےخلاف  جارہا تھا   جبکہ کراچی شہر  میں  طلبا  کے احتجاج کی بدولت  امن و عامہ میں خلل کے پیش نظر   حکومت نے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا -
ایوب خان اپنی تقا ریر  میں بنیادی  جمہوریت کا جواز پیش کرتا تھا   ایوب خان  کے مطابق  وہ بنیادی جمہوریت کو فروغ دینا چاہتا ہے   ، اس کے جواب میں میں فاطمہ جناح  سوال کرتی تھیں کہ " یہ کونسی جمہوریت ہے؟ ایک آدمی کی جمہوریت یا پچاس آدمیوں کی جمہوریت؟ "
 
ایک موقع  پر  جب ایوب خان نے کہا تھا کہ " انکی شکست ملک میں دوبارہ بد امنی پیدا کر دے گی تو  محترمہ فاطمہ جناح ایوب پر اسطرح گرجیں کہ " آپ زبردستی، اتھارٹی اورڈنڈے کے زور پر ملک میں استحکام پیدا نہیں کر سکتے۔"
 
مشرقی پاکستان میں تو محترمہ فاطمہ جناح کی مہم اتنی کامیابی کے ساتھ چل رہی تھی کہ چھوٹے بڑے ہر شہر میں انتخابی نشان لالٹین بازاروں اور گھروں میں لگا دئیے گئے بنگالی زبان بولنے والے تو محترمہ کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصه   لے ہی رہے تھے ، مگر حیرت کی بات یہ  تھی کہ اردو زبان بولنے والے باا ثر  اساتذ ہ  اور دیگر افراد بھی تھوڑی بہت بنگلہ زبان سکھ کر کچھ نظمیں اور لوک کہانیاں  یاد کرکے عام دیہاتیوں کو سناتے جن میں یہ بتایا جاتا کہ " ایک  رحم دل بادشاہ کو اس کے وزیر نے  سلطنتقبضہ کرنے  کے لالچ میں قتل کردیا اور سلطنت پر قابض ہوگیا رعایا  پر ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا  اور ظالم وزیر نے  بادشاہ کی بہن کو قید خانے میں ڈال دیا - پھر کسی ہمدرد  غلام نے بہن کو  قید خانے سے آزادی دلائی اور بادشاہ کی بہن اپنی سلطنت کی آزادی کے لئے ظلم وزیر  کے خلاف عوام میں آگئی -"  اس طرح کی کہانیا ں  آسان فہم ہوتی تھیں اور عوام کے دلوں میں پوری کہانی رچ بس جاتی تھی   - اس طرح ہر فرد نے اپنے اپنے طور پر محترمہ کی انتخابی مہم میں اپنا کردار ادا کیا-   
 
ایسے میں عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب کی شاعری نے کما ل  دکھلانا شروع کیا - ہزاروں افراد کا مجمع  حبیب جالب کو سننے کے لئے  بے چین رہتا       محترمہ کے  عوامی جلسوں میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں آتے تھے۔ ایوب خان   کو اپنی شکست  صاف نظر آرہی تھی۔ یہ سب دیکھ کر حکمران اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے، عوامی شاعر حبیب جالب کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔  محبوب شاعر حبیب  جالب کو اقدام قتل کی دفعہ 207 کے تحت سات سال قید بامشقت سناکر جیل بھیج دیا گیا  مگر حبیب جالب  جیل سے ہی اپنی نظمیں کسی نہ کسی طرح  باہر پہنچاتے اور  فاطمہ جناح کی تقریر سے پہلے حبیب جالب کی آواز میں ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے  ان کی انقلابی نظمیں گونجنی شروع ہوجاتیں جس سے جلسہ گاہ کے شرکاء کا جوش اور ولولہ  بڑھتا چلا جاتا -
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
دیکھنے کو تو ہزاروں ہیں‘ مگر کتنے ہیں
ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکانے والے
مر کے بھی مرتے ہیں کب مادر ملت کی طرح
شمع تاریک فضاؤں میں جلانے والے

(
جاری ہے )

Comments