مغربی دباؤ اور لبرل حکمرانوں کی بے غیرتی :::: انصار عباسی

کچھ عرصہ قبل مغربی ثقافت اورسوچ کو یہاں پھیلانے کے لیے کام کرنے والی کچھ این جی اوز نے پاکستان کے چند اہم شہروں میں خواتین کے حقوق اور اُن کی آزادی کے نام پر ایک مظاہرے کا انعقاد کیا۔ اس مظاہرے کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ عورت مکمل آزاد ہے اور وہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی مرد… چاہے وہ باپ ہو، بھائی ہو یا شوہر… کے زیراثر نہیں۔ اس مظاہرے کا اہم نعرہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تھا۔ اس نعرے نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے اپنے غم و غصے کے ساتھ ساتھ تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کون سی تعلیم دی جارہی ہے اور یہ کیسے حقوق کی بات کی جا رہی ہے جن کا نشانہ شرم و حیا کے ساتھ ساتھ ہماری اسلامی و معاشرتی اقدار ہیں تاکہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی بے راہ روی کو پھیلا کر اس کو فری سیکس سوسائٹی بنایا جائے۔ اس مظاہرے کے انعقاد کے ایک دو ہفتوں بعد پاکستان کے ایک انگریزی اخبار نے ایک خبر شائع کی جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ کس طرح پاکستان میں بے شرمی اور بے غیرتی کو بڑھانے کے لیے انتہائی منظم انداز میں کام ہورہا ہے اور ہم بے فکر ہوکر بیٹھے ہیں۔ خبر بہت خطرناک تھی لیکن اس کو بھی عمومی طور پر نظرانداز کیا گیا۔ خبر کے مطابق رضامندی سے زنا کو جائز قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کی سفارشات کو پاکستان نے رد کرنے کے بجائے “Noted” لکھا جس کا (خبر کے مطابق) مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ ان سفارشات میں یہ لکھا ہے کہ ایسے قوانین جو بغیر شادی کیے نامحرم عورت اور مرد کے جسمانی تعلق یعنی زنا پر پابندی لگاتے ہیں اور اُنہیں غیر قانونی تصور کرتے ہیں، کو ختم کردیا جائے تاکہ زنا کو قانونی تحفظ حاصل ہوجائے۔ خبر میں وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے حوالے سے لکھا گیا کہ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ پاکستان نے ان سفارشات جن کا The UPR Recommendations -2017 ہے، کے بارے میں اقوام متحدہ میں اپنا ردعمل “noted” کرکے دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ خبر کے مطابق ماضی میں بھی پہلے 2008ء اور پھر 2012ء میں اسی تنظیم نے کچھ دوسری متنازع سفارشات کے ساتھ ساتھ رضامندی سے زنا کے عمل کو جائز قرار دینے کی تجاویز دی تھیں لیکن دونوں مرتبہ پاکستان نے ان سفارشات کو صاف صاف مسترد کیا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان تجاویز پر غور بھی نہیں کریں گے۔ لیکن اِس بار ایسا کیا اور کیوں ہوا کہ پاکستان نے ایسے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل کو رد کرنے کے بجائے اس پر غور کرنے کا وعدہ کرلیا؟ اس بارے میں دفتر خارجہ میں بیٹھے افراد بھی حیران ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل ممکنہ طور پر پاکستان کو بدنام کرنے کی بھی سازش ہوسکتی ہے۔ اس خبر کی سنگینی کے باوجود اس پر ابھی تک کوئی ایکشن کہیں سے بھی نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی انکوائری کا حکم سامنے آیا ہے۔ چلیں ٹی وی چینلز سے تو کوئی کیا توقع رکھے، کہ اس معاملے کو اٹھائیں تاکہ ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور یہ بھی پتا لگایا جائے کہ آخر اس عمل میں کون کون شریک ہے اور اُن کا مقصد کیا تھا۔ لیکن حیرانی اس امر پر ہے کہ ایک انگریزی اخبار میں اس خبر کے شائع ہونے کے باوجود حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ جس روز یہ خبر شائع ہوئی اُسی روز میں نے اسے سوشل میڈیا میں ٹیوٹر کے ذریعے بھی شیئر کیا اور خصوصی طور پر وزیر خارجہ خواجہ آصف، مریم نواز اور احسن اقبال کی توجہ کے لیے اُن کے ٹیوٹر ہینڈل کو بھی لنک کیا، لیکن کسی نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اس معاملے کو اس کالم کے ذریعے اٹھانے کا مقصد ریاستی ذمے داروں کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جا سکے اور یہ بھی پتا لگایا جا سکے کہ کون کون سی این جی اوز اس قسم کے ایجنڈے پر یہاں کام کررہی ہیں اور اُن کے خلاف حکومت کارروائی کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ بشکریہ روزنامہ جنگ،16اپریل 2018ء

Comments