سرسید احمد خان مسلم ہند کے ہیرو یا ولن ::: نجیب ایوبی


فرائیڈے اسپیشل اشاعت 17 نومبر 2017ء میں ڈاکٹر خالد امین کا مضمون بعنوان ’’سرسید احمد خان… مسلم ہند کے ہیرو یا ولن‘‘ شائع ہوا ۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’حال ہی میں جامعہ کراچی شعبہ اردو میں سرسید احمد خان کی دو سو سالہ سالگرہ کے سلسلے میں عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں سرسید کے حوالے سے بہت کچھ سوچنے سمجھنے کی راہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی، اس کے علاوہ ملک بھر میں مختلف طبقہ ہائے فکر میں سرسید کے حوالے سے زبردست بحث جاری ہے جسے یقینا ایک قابلِ اطمینان رویہ کہا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں معروف دانشور شاہنواز فاروقی صاحب کا مضمون بھی ہماری نظر سے گزرا۔ سرسید احمد خان کے حوالے سے وہ پہلے بھی اپنے کالموں میں جن امور کی نشان دہی کرچکے ہیں اس سے انکار ممکن نہیں، لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن کو سمجھے بغیر ہم فکرِ سرسید کا صحیح رخ نہیں دیکھ پائیں گے۔ میں اپنی معروضات کو قطعی حتمی نہیں سمجھتا اور اس تحریر کا مقصد کسی کی بات پر تنقید نہیں، بلکہ میں صرف اپنا نکتہ نظر صاحبانِ علم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس ابتدائیے کے بعد جناب خالد امین صاحب نے سرسید احمد خان کی تصویر کو درست زاویے سے جانچنے اور سمجھنے کے لیے چار بنیادی سوالات قارئین کے سامنے رکھے جن سے سرسید احمد خان کی شخصیت، افکار اور کردار کو اچھی طرح سے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آپ مزید وضاحت کے لیے مولوی عبدالحق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انھوں نے کہا تھا: ’’تصویر جس قدر بڑی، شاندار اور نفیس ہوتی ہے اس کو اسی قدر پیچھے ہٹ کر دیکھنا ہوتا ہے تاکہ اس کے خدوخال واضح ہوکر نمایاں ہوسکیں۔‘‘ آئیے صاحبِ مضمون کے ان چار بنیادی سوالات کی روشنی میں ان کے متعین کردہ پیمانوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ آپ نے سوال اٹھایا کہ ’’سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو بچانے کی کوشش کی یا تباہ کرنے کی؟ ایسے وقت میں جب مسلم ہند کی زندگی کا شیرازہ بکھر گیا ہو، علماء قید یا شہید کردیے گئے ہوں ایک مصلح (ریفارمر) کو کیا کرنا چاہیے؟
سرسید احمد خان نے جو مذہبی تعبیرات کی ہیں کیا صرف انہی بنیادوں پر اُن کی شخصیت کا محاکمہ کیا جائے؟ یا پھر اُن کے کاموں کو کلیّت میں دیکھا جائے؟ چوتھی بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ ہمیں سرسید احمد خان کی ان باتوں کی جانب تو متوجہ ضرور کیا جاتا ہے جو وہ انگریزوں کا حلیف بن کر کرتے رہے، لیکن ان تحریروں، تقریروں اور واقعات کا تذکرہ شاذ ہی کیا جاتا ہے جو انگریزوں کے خلاف ہیں‘‘۔ اگر مندرجہ بالا ان چار نکات کو ہی شخصیت پرکھنے کی کسوٹی تسلیم کرلیا جائے تو صورتِ حال تو اس سے بھی بھیانک نکلتی ہے جو اسلامی فکر رکھنے والے اب تک پیش کرتے رہے ہیں۔ اور ایسا صرف اس لیے ہی ممکن ہوسکا ہے کہ ان کے ہاں سرسید احمد خان کے بارے میں مولانا مودودی علیہ رحمہ کی رائے ہمیشہ پیش نظر رہی کہ ’’چاہے ان کے کام اور طریقہ کار سے لاکھ اختلاف کرلیں لیکن ان کے اخلا ص پر شک نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ ورنہ ایک ہزار مثالیں دی جاسکتی ہیں جس میں انگریز کی تہذیب اور تمدن کی تعریف و توصیف میں قصیدے لکھے اور مشتہر کروائے۔ سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ علامتی طور پر نام تو شاہنواز فاروقی کا استعمال کیا جائے اور نشانہ تحریک اسلامی کو بنایا جائے، یعنی اُس یکسو فکر اور متعین سوچ کو جو سید مودودی اور ان کے رفقاء سے برس ہا برس سے منسوب ہے؟ مضمون خود بتارہا ہے کہ اس میں ایک مخصوص ذہنی ساخت کے ساتھ ان تمام یکسو اسلامی فکر رکھنے والے تحریکی افراد کو بین السطور یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سرسید احمد خان اپنی تمام بشری کمزوریوں اور دانستگی یا نادانستگی میں اسلام کے بنیادی تصورات کے بارے میں پیش کی گئی تعبیرات میں غلطیوں اور ابہام پیدا کرنے کے باوجود معصوم عن الخطا ہیں، اور ایک بہت بڑے اور عظیم مقصد کے لیے یہ معمولی غلطیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں، اور وہ مقصد تھا جدید تعلیم اور جدید تہذیب سے ہم آہنگی! مثلاً اگر سرسید احمد خان نے اسلام کے حوالے سے جو اُس وقت تعبیرات سمجھنے میں ’’حکمت‘‘ دکھائی وہ ہند کے شیرازہ بکھرتے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے انتہائی ضروری تھی۔ چناں چہ اس ’’جز وقتی نکاح‘‘ یعنی مسیحیت اور اسلام میں کوئی فرق نہیں ہے، اور ان کے اس خودساختہ ’’تقیہ‘‘ نے اسلام اور مسیحیت کو ایک جیسا بنادیا اور انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انحراف تک کرنا پڑا۔ اب وہ اسلام کے ہر حکم اور اصطلاح کو ’’عقلیت‘‘ کی روشنی میں پرکھنے اور تولنے کے پابند تھے جسے نیچریت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ نیچریت کی کسوٹی نے ان کو مجبور کیا کہ فرشتوں کے وجود، انبیاء کے معجزات اور جنّات کے وجود سب سے انکار کردیا جائے۔ اس طرح بہت سے غیبی معاملات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لانے کے قائل ہوچکے تھے۔ اور یہ ان کا ذاتی عمل ہرگز نہیں تھا کہ اس پر بات نہ کی جائے، یہ ان کا وہ عمل تھا جس کی وہ تعلیم دیتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰؑ کی بغیر باپ کے پیدائش کو نہیں مانا۔ جبرئیل اور وحی، جنت و جہنم، عذابِ قبر… ان تمام معاملات میں ان کی تعبیرات سب کے سامنے ہیں۔ ان ہی بے ڈھنگی تاویلات کا شاخسانہ تھا کہ ’’قادیانیت اور پرویزیت‘‘ کو اپنے عقائد کے لیے لانچنگ پیڈ اور مواد فراہم ہوگیا، جس کا اب تدارک مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ مضمون نگار نے اس مضمون میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’جہاں تک سرسید کی مذہبی تعبیرات کا سوال ہے تو میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ وہ اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن ہندوستان کے ماحول نے انہیں مجبور کردیا تھا کہ وہ ان چیزوں کا سہارا لیں۔ عیسائیوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان جو مذہبی منافرت پائی جاتی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی، جس کی ساری تعبیرات سائنسی تھیں اور یہ کام انھوں نے اپنے علم کی بنیاد پر کیا اور جابجا ٹھوکریں کھائیں۔‘‘ سرسید کے تراشیدہ جدید علم الکلام کی بھی اصلیت دیکھ لیں جس کی بنیاد دو اصولوں پر تھی۔ پہلا کلیہ: مذہب کو ہر صورت میں عقل و فطرت کے مطابق ثابت کرو۔ جس کے نتیجے میں جب سرسید کوئی بات عقل کے مطابق ثابت نہ کرپاتے تو بڑی خوبصورتی اور معصومیت کے ساتھ چند تاویلوں میں لپیٹ کر اس بات سے منکر ہوجاتے۔ دوسرا کلیہ: موجودہ حالات جو بھی ہوں، اسلام کو اسی کے مطابق ڈھال لو۔ چناں چہ اس کا نتیجہ یہی نکلا کہ سرسید نے اسلام میں جو بات ایسی دیکھی، جو اُس وقت کی اشرافیہ یعنی انگریز کو پسند نہ تھی اس سے انکار کردیا۔ سرسید احمد خان کے اصولِ تفسیر میں سے سب سے زیادہ گمراہی کا سبب جو اصول بنا وہ اُن کا نواں اصول ہے جس کے مطابق قرآن مجید میں کوئی حکم بھی خلافِ فطرت نہیں ہے۔ اپنے اس اصولِِ فطرت کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے اپنے آخری اصول کا سہارا لیا ہے اور اجماعی عقائدِ اسلامیہ کی تردید میں عربی لغت اور صرف ونحو کے ایسے ایسے نادر استعمالات و اجتہادات سامنے لائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کی اگلی سطر میں ’’لیکن‘‘ کہہ کر دل کی بات بھی لکھ دی جس کے لیے سارا مضمون لکھا گیا تھا۔ لکھتے ہیں کہ ’’لیکن آج کے اس جدید دور میں بھی بہت سارے علماء علمِ دین کی سائنسی تعبیرات پیش کرتے ہیں اور کئی مفکرین ایسے ہیں جن کی تحریریں اس نکتہ نظر سے خالی نہیں ہیں خواہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ہوں یا اقبال۔‘‘ ملاحظہ کیجیے موشگافی اور تاویل، یعنی مولانا مودودی اور علامہ محمد اقبال نے بھی وہی کام کیا ہے جو سرسید احمد خان نے کیا! بین السطور میں صاحبِ مضمون اس بات سے آگاہ فرما رہے ہیں کہ اگر سرسید احمد خان سے غلطی ہوئی ہے تو اس طرح کی غلطی مولانا مودودی اور اقبال بھی کرسکتے ہیں۔ اس طرح مولانا مودودی اور اقبال کے پچھلے تمام کام اور تحقیقات کو ایک جملے اور سطر میں مشکوک اور ناپائیدار قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مندرجہ بالا جو تاویلات سرسید احمد خان نے پیش کی ہیں، کیا سید مودودی اور اقبال نے بھی اس سے ملتا جلتا کام کیا ہے؟؟ مضمون نگار اس بارے میں مزید مثالیں دے کر بات کو واضح تو کر ہی سکتے تھے، لیکن مقصد بات کی وضاحت نہیں بلکہ شکوک پیدا کرنا تھے جو کہ کردیے گئے۔ [مولانا کے حوالے سے تو یہ معاملہ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ جیسی شہرۂ آفاق تحقیق کے بعد سے ہی شروع ہوچکا تھا کہ مولانا کو کیا ضرورت تھی اس متنازع مسئلے کو چھیڑنے کی! گویا مولانا کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اسلامی تاریخی واقعات پر کوئی غیر اہم چیز ہو۔ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ عرصہ دراز سے اس قسم کے شکوک پھیلانے میں مصروف ہے۔] آئیے بات کرتے ہیں اس پہلو کی جس کی جانب فاضل مضمون نگار نے اشارہ کیا ہے کہ کیا سرسید احمد خان نے تہذیب و ثقافت کو بچانے کی کوشش کی یا کہ تباہ کرنے کی؟ اس بارے میں کچھ زیادہ لکھنے کی چنداں ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جب قاری رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا مطالعہ کرے گا تو ازخود اُس پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ مسلم ثقافت کیا ہے اور انگریز ثقافت کس بلا کا نام ہے؟ انگریز کی ثقافت، اس کی ترقی، اس کی تعلیم، رہن سہن، عادت و اطوار ہی سب کچھ تھا۔ اس کے مقابلے پر ہندوستانی مسلمان اجڈ، گنوار اور تعلیم سے بے بہرہ اور عرفِ عام میں زمانہ شناس ہی نہیں تھا۔ اس کے نزدیک سنت طریقے سے زمین پر بیٹھ کر کھانا تناول فرمانا، انگلیاں چاٹنا اور ہاتھ سے کھانا کھانا سخت ناپسندیدہ عمل قرار پایا۔ اُس وقت کی سیاسی قیادت کے قحط الرجال اور جدیدیت اور عقلیت پسندی کے نعرے نے سرسید احمد خان کو ہندوستان کی سطح پر ایک عظیم دانشور تو بنادیا مگر اس نام وری کی خاطر کیا کچھ نہیں کرنا پڑا؟ دیکھتے ہیں: سرسید صاحب آزادی کی جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں ’’جن مسلمانوں نے ہماری سرکار (انگریز سرکار)کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت زیادہ ناراض ہوں اور حد سے زیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہلِ کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوئے ہیں، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور سرکار کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے،کی، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ زیادہ تر سے ناراض ہوا جائے۔‘‘ (مقالاتِ سرسید، صفحہ 41) انگریز سرکار کے متعلق سرسید صاحب کے دلی خیالات خود ان کی زبانی سنتے ہیں: ’’میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو سرکار (فرنگی)کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنمنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت زیادہ ہے، اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری سرکار نے مجھ پر اس سے زیادہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگوں پر ظاہر کرے، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے؟ اور اس نے اس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت سرکارکی خیر خواہی میں صرف کی ہے؟‘‘ (مقالاتِ سرسید، صفحہ 44) پھر خود ہی لکھتے ہیں کہ: ’’اس کے عوض سرکار نے میری بڑی قدر دانی کی، عہدۂ صدر الصدوری پر ترقی دی اور علاوہ اس کے دو سو روپیہ ماہواری پنشن مجھ کو اور میرے بڑے بیٹے کو عنایت فرمائی۔ اور خلعت پانچ پارچہ اور تین رقم جواہر، ایک شمشیر عمدہ قیمتی ہزار روپے کا اور ہزار روپے نقد واسطے مدد خرچ کے مرحمت فرمایا‘‘ (مقالات ِسرسید صفحہ 48)۔اس کے ساتھ ایک سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے ،جس پر جان کرائی کرافٹ ولسن صاحب کے دستخط بطور سند بھی موجود ہے-‘‘ انگریز سرکار سے محبت و یگانگت اور رفاقت و خیر خواہی کا سلسلہ قائم کروانے کے لیے خاں صاحب عمر بھر کوشاں رہے۔ سرسید احمد خان نے کمپرومائز، مصالحت اور فرماں برداری کی تلقین کی اور زندگی بھر اس کے لیے کوشاں رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن مسلمانوں کے لیے مفاہمت کی روش اختیار کی کیا اس طرح کے حالات سے اُس وقت کی پوری مسلم دنیا کے مسلمان بچے ہوئے تھے؟ نہیں، بلکہ جہاں جہاں نوآبادیاتی نظام آیا، وہاں کے مسلمان کم و بیش ایک ہی قسم کے حالات سے دوچار رہے، مگر اس قسم کا مصلح صرف ہندوستان میں ہی کیوں پیدا ہوا؟ جس نے مسیحی آقائوں کی غلامی میں مسلمانوں کی نجات جانی؟ فاضل مضمون نگار کے نزدیک اگر یہ غلطیاں معمولی ہیں تو ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح سے اسلامی سوچ اور سید مودودی کی فکر کو متزلزل کرنے کی کوشش چہ معنی دارد!

Comments